جو پاکستانی سیکولر نہیں جانتے

پاکستان میں سیکولرازم اور مذہبی حلقوں کے مابین بحث مباحثے تو کئی عشروں سے چلتے آئے ہیں، دونوں اطراف کے بہترین ذہن اپنے علم اور فہم اور دلائل کا مظاہرہ کرتے رہے۔ بہت سے مضامین، کئی کتابیں لکھی گئیں۔ یہ سب علمی انداز میں تھا اور دونوں فریق اچھی طرح تیاری کر کے، پڑھ کر لکھا کرتے۔ آج کل البتہ سوشل میڈیا نے جو نیا سیکولر طبقہ یا نام نہاد سیکولر طبقہ پیدا کیا ہے، اس کا مسئلہ یہ ہے کہ انہیں اس ایشو کی تاریخ کا اندازہ ہے اور نہ وہ اس کی جزئیات سمجھتے ہیں۔ البتہ زہریلے طنز کرنے، مذہب بیزاری اور اہل مذہب کا مذاق اُڑانے میں یہ لوگ بڑے شد و مد سے جتے رہتے ہیں۔ دلائل کی کمزوری اور کم علمی سے پھر ان کی بھد اڑائی جاتی ہے تو پھر برہم ہو جاتے ہیں۔ بہتر یہی ہے کہ اس ایشو کو پورے تناظر، تاریخی پس منظر اور اس کے مختلف پہلوئوں کو سامنے رکھ کر سمجھا جائے۔

یہ حقیقت ہے کہ پچھلی صدی کے دوران مسلم دنیا مسلسل ہیجان انگیزی کا شکار رہی۔ ایک طرف سیکولر ازم اس قوت کے ساتھ سامنے آیا کہ بیشتر مسلم حکمران اور وہاں کی اشرافیہ مسحور ہو کر اس کے زیراثر آگئی۔ دوسری طرف مصر سے ترکی اور ہندوستان سے الجزائر تک یکے بعد دیگرے طاقتور مذہبی تحریکیں پورے زورشور سے اٹھتی رہیں۔ بدقسمتی سے ان مذہبی تحریکوں کو برداشت کرنے کے بجائے شروع ہی سے مخاصمانہ رویہ اپنایا گیا۔ سیکولر ہونے کے دعوے دار حکمرانوں نے بلاسوچے سمجھے عوام پر جدید سیکولر ادارے اور مغربی طرز زندگی تھوپ دی۔ اس عمل کے دوران جو ظلم اور تشدد روا رکھا گیا لبرل اور سیکولر دانشور اس پر نہ صرف خاموش رہے بلکہ اسے نظریاتی جواز بھی فراہم کیا۔ اس جارحانہ یلغار کے نتیجے میں مسلم معاشرے بری طرح مضطرب ہوئے۔ یہ رد عمل دو طرح کا تھا۔ علماء کا ایک حلقہ پریشان و عدم تحفظ کا شکار ہوگیا۔ انہوں نے اپنے زیر اثر افراد کو جدیدیت سے ہر ممکن گریز کی ہدایت کی۔ دوسرا ردعمل اُن مسلم سکالرز کا تھا جو قدیم و جدید علوم پر یکساں دسترس رکھتے تھے۔ ان میں روایت سے جڑے علمائے دین بھی شامل تھے۔ انہوں نے جدیدیت کا چیلنج قبول کرتے ہوئے اسلامی اصولوں کی مدلل تشریح پیش کی۔ اس کے لیے انہیں نیا علم کلام بھی بنانا پڑا۔ یہ لوگ جدید ریاستی اداروں کے مخالف نہیں تھے، لیکن ان کے خیال میں اسلامی ملک میں جدید ریاست سیکولر ازم کے بجائے شریعت کی بنیاد پر قائم ہونی چاہیے۔ یہ سکالرز قدامت پسند نہیں بلکہ اسلام کے جدید ریشنل اور متحرک تصور کو سامنے لائے۔ بدقسمتی سے سیکولرسٹوں نے انہیں بنیاد پرست قرار دے کر رد کر دیا۔ سیکولر یہ نہیں سمجھ سکے کہ فکری ارتقائی عمل میں عبوری لوگ بھی آتے ہیں۔ یہ لوگ قدیم طرز فکر اور جدیدیت میں پل بناتے ہیں۔ ان کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ ان کی مساعی سے اگلے مرحلے میں نسبتاً زیادہ جدید لچک دار اور معتدل فکر تشکیل پاتی ہے۔ سیکولر انٹیلی جنشیا یہ بنیادی بات سمجھنے میں ناکام رہی۔

انیسویں صدی کے اواخر میں لبنان اور شام سے لکھاریوں کا ایک گروپ قاہرہ میں بس گیا۔ ان میں مغربی کلچر سے متاثرہ مسیحیوں کی اکثریت تھی۔ ان عیسائی عربوں نے نعرہ لگایا کہ مسلمان ریاستیں سیکولر ہوں اور تہذیب کی بنیاد مذہب نہیں، سائنس ہے۔ یہی وہ وقت تھا جب جمال الدین افغانی نے قاہرہ میں قدم رکھا۔ شعلہ بیان علامہ افغانی نے بڑی جرأت سے یہ کہا کہ مذہب کمزور ہوا تو مسلم معاشرہ بکھر جائے گا۔ مسلمان اپنی ثقافتی اور مذہبی روایات سے وابستہ رہیں اور خود اپنی سائنسی جدیدیت کی تخلیق کریں۔ 1899ء میں قاسم امین کی کتاب تحریر المرأة (خواتین کی آزادی) شائع ہوئی۔ اس میں خواتین کا پردہ ختم کرنے پر زور دیا گیا کہ یہی ان کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اس کتاب نے ایک ہنگامہ برپا کردیا۔ کوئی دو عشرے بعد علی عبدالرزاق کی کتاب ‘الاسلام و اصول الحکم’ سامنے آئی۔ اس مصری دانشور کے مطابق جدید مصر کو اسلام کے ساتھ اپنا تعلق بالکل توڑ لینا چاہیے۔ عبد الرزاق کی تحریروں کا شدید ردعمل ہوا۔ مذہبی حلقے مضطرب ہوگئے۔ مفتی رشید رضا مصری نے اس کے خلاف کتاب الخلیفہ لکھی۔ اس زمانے میں مصر کے ایک نوجوان استاد سید حسن البنا نے اپنے چھ ساتھیوں کے ہمراہ ایسی تحریک کی بنیاد ڈالی، جس نے آنے والے برسوں میں پورے مشرق وسطی کو ہلا کے رکھ دیا۔

حسن البنا بنیادی طور پر ایک صوفی تھے۔ ان کے اَوراد و و ظائف کی کتاب ماثورات پاکستان سمیت پوری مسلم دنیا میں آج بھی بے حد پسند کی جاتی ہے۔ حسن البنا مغربی سائنس اور ٹیکنالوجی کے مخالف نہیں تھے، مگر ان کے خیال میں روحانی اور نفسیاتی اصلاح کو عملی اور ریشنل معاملات کے ساتھ چلنا چاہیے۔ سید حسن البنا نے مصریوں کو بتایا کہ اسلام کوئی مغربی طرز کا نظریہ نہیں بلکہ ایک مکمل طرز زندگی ہے۔ اخوان المسلمون میں عبادت، ریاضت اور سخت اخلاقی ضابطے موجود تھے۔ اخوان نے سماجی اور ترقیاتی پروگرام بھی شروع کئے۔ چند ہی برسوں میں اس کی رکنیت لاکھوں تک پہنچ گئی۔ بدقسمتی سے مصری سیکولر اشرافیہ نے اخوان کو اپنا حریف سمجھا۔ حسن البنا کو فروری 1949ء میں شہید کر دیا گیا۔ اگلے چند ماہ میں ہزاروں اخوان جیل بھیج دیے گئے۔ تین سال بعد جمال ناصر تختہ الٹ کر حکمران بن گئے۔ شروع میں وہ اخوان کو سراہتے رہے۔ پھر ایک فرضی قاتلانہ حملے کے بعد ناصر نے اخوان کو بڑی سفاکی سے کچل ڈالا۔ مرکزی قائدین کو پھانسی دے دی۔ ہزاروں کارکن جیلوں میں سڑتے رہے۔ محترمہ زینب الغزالی کی روداد قفس ان ہولناک دنوں کی دلدوز داستان سناتی ہے۔

جمال ناصر کی سب سے بڑی غلطی نامور مفسر اوردانشورسید قطب کو سولی پر چڑھانا تھا۔ سید قطب کی موت نے مشرق وسطی میں سنی عسکریت پسندی کی بنیاد ڈال دی۔ ادھر ترکی میں معروف سیکولر دانشور ضیا گوکلپ کے زیر اثر مصطفی کمال اور ان کے جانشین عصمت انونو نے مذہبی طبقے پر بے پناہ ظلم ڈھائے۔ ترک سیکولر اس قدر شدت پسند نکلے کہ ان سے عدنان میندرس جیسا ماڈریٹ شخص برداشت نہیں ہوا۔ انہوں نے منتخب وزیراعظم کو پھانسی پر لٹکا دیا۔ بدیع الزماں سعید نورسی جیسے صوفی مسلم سکالر کو سیکولرسٹوں نے جیل میں بھیج دیا، مگر شیخ نورسی کی فکری تحریک کمزور نہیں ہوئی۔ ادھر ایران میں رضا شاہ کی سیکولر جدیدیت نے شیعہ علما کو ششدر کردیا۔ 1928ء میں شاہ نے تمام مردوں کے لیے مغربی لباس اور چوڑے کناروں والا یورپی ہیٹ لازمی قرار دے دیا۔ عورتوں کو پردہ کرنے سے منع کر دیا۔ سپاہی برقع پوش خواتین کے نقاب نوچ لیتے۔ ادھر یورپی ہیٹ بن کر نماز پڑھنا ممکن نہیں تھا مگر اس پابندی کو نہ ماننے والوں پر گولی چلا دی جاتی۔ پریشان حال ایرانی علماء کی جانب پلٹے۔ 1920ء میں ممتاز شیعہ مجتہد شیخ عبدالکریم حائری یزدی اپنے چند شاگردوں کے ساتھ قم مقیم ہوئے۔ ان میں ایک اٹھارہ سالہ نوجوان روح اللہ بھی تھا۔ نصف صدی بعدانہوںنے ایران بلکہ پوری شیعہ دنیا کا نقشہ بدل دیا۔ دوسری طرف عراق میں بعث پارٹی کی سیکولر حکومت نے عراقی شیعوں اور کُردوں کا جینا حرام کر دیا۔ عراق کے ممتاز شیعہ عالم آیت اللہ محسن الحکیم کو قتل کر دیا گیا۔ باقر الصدر اور ان کی ہمشیرہ بنت الہدی کو شدید ٹارچر کے بعد پھانسی چڑھا دیا گیا۔ ان کے کزن صادق الصدر (مقتدا الصدر کے والد) کو بھی قتل کر دیا گیا۔

بدقسمتی سے ایران، عراق، شام اور مصر وغیرہ میں مذہبی قوتوں کو کچلنے کی پالیسی کی نہ صرف مسلم دنیا کے سیکولرسٹوں نے حمایت کی بلکہ مغرب بھی ان حکمرانوں کی پشت پناہی کرتا رہا۔ اسلام کو دورِ جدید کے ساتھ چلانے کا عزم رکھنے والی مذہبی تنظیموں کو کچلنے کا نتیجہ شدید ردعمل کی صورت میں نکلا۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ سب بڑھتا ہی رہا ہے۔ نائن الیون کے بعد اچانک نموار ہونے والی مسلم عسکریت پسندی نے مغرب کو پریشان کر دیا ہے۔ مغربی انٹیلی جنشیا اور پاکستان کے لبرل سیکولر حلقے بڑی شدت سے عسکریت پسندوں اور مسلم بنیاد پرستی پر قابو پانے کے خواہاں ہیں۔ بدقسمتی سے انہوں نے ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ وہ مذہبی شدت پسندی کم کرنے کے لیے معاشرے کو غیر مذہبی بنانا چاہتے ہیں۔ وہ بھول گئے کہ ماضی میں ایسی ہر کوشش مزید بنیاد پرستی کا باعث بنتی رہی۔ سیکولر قوتوں کو اپنا مذہب مخالف رویہ بدلنے کی ضرورت ہے۔ جو مغربی حلقے یا پاکستانی سیکولر ہمارے سماج میں مذہبی شدت پسندی کا رونا رو رہے ہیں اُنہیں پہلے پاکستان جیسے مسلم معاشروں کے اجزائے ترکیبی (فیبرکس) کو سمجھنا چاہیے۔ انہیں ادراک کرنا چاہیے کہ پاکستانی عملی طور پر زیادہ مذہبی نہ ہوتے بھی اپنی مذہبی، ثقافتی جڑوں کے بارے میں حساس ہیں۔

سیکولر طرز زندگی کو فروغ دینے، توہین رسالت قانون کو چھیڑنے اور موت کی سزا ختم کرنے جیسے امور کے لیے فنڈنگ بیک فائر کر سکتی ہے۔ جب کوئی اُردو کالم نگار اپنی شام کی پینے پلانے کی محفلوں کو تحریر کے ذریعے گلیمرائز کرنے کی کوشش کرے، کوئی اور کالم نگار قوم کو یہ سبق دینے کی کوشش کرے کہ شراب پر پابندی اٹھائے بغیر ٹورازم پروموٹ نہیں ہوسکتا تو اس پر مذہبی حلقوں کا مضطرب ہونا فطری ہے۔ سیکولر حلقوں کی اپنی دانست میں سماج کو معتدل، روشن خیال بنانے کی یہ بھونڈی حرکتیں شدید ردعمل پیدا کرتی ہیں۔ یہ بات پاکستانی سیکولر آج تک نہیں جان سکے۔ شاید وہ یہ سمجھ ہی نہیں سکتے۔