شام سے تعلق رکھنے والے دروز کمیونٹی کے ایک 60 رکنی وفد نے صہیونی ریاست اسرائیل کا دورہ کیا ہے، جس پر عرب اور عبرانی میڈیا میں تبصروں کا سلسلہ جاری ہے۔
جمعے کو اسرائیل جانے والے وفد میں شامل تمام افراد شامی دروز کمیونٹی کے مذہبی رہنما تھے اور یہ گزشتہ 50 برس میں اپنی نوعیت کا پہلا دورہ ہے۔ اس وفد کے دورے کی حیرت انگیز بات یہ ہے کہ وفد کو لیکر جانے والے اسرائیلی سیکورٹی فورسز تھیں جبکہ راستہ وہی چنا گیا ہے جسے اسرائیلی قابض فوج نے دسمبر 2024ء کے بعد شام میں مداخلت کرتے ہوئے تعمیر کیا ہے۔ الجزیرہ کے مطابق دروز مذہبی وفد کو تین بسوں کے ذریعے لے جایا گیا جن کے پیچھے اسرائیلی فوجی گاڑیوں کا قافلہ تھا۔ اس وفد کو پہلے گولان ہائٹس میں واقع مجدل شمس کے مقام پر لے جایا گیا۔ وہاں سے شمال کی جانب جولا نامی ایک مقام تک لے جایا گیا جہاں اللہ کے برگزیدہ نبی حضرت شعیب علیہ السلام کی قبر موجود ہے۔ جولا مشہور جھیل طبریا کے قریب واقع ہے جو اسرائیل کو میٹھا پانی فراہم کرنے والا واحد بڑا ذریعہ ہے۔
درزی وفد نے ان دو جگہوں کی زیارت کے بعد اسرائیلی دروز کے روحانی پیشوا موفق طریف کے ساتھ بھی ملاقات کی ہے جو شام میں احمد الشرع کی حکومت بننے کے بعد سے مسلسل شامی دروز کے تحفظ اور شامی حکومت مخالف بیانات دے رہاہے۔دروز کے اس وفد کو جبل الشیخ کی پہاڑی دامن میں بہت سے مقامات کا دورہ کروایا گیا ہے۔ جبل الشیخ وہ علاقہ ہے جس کا بیشتر حصہ دسمبر 2024ء کے بعد اسرائیل نے قبضے میں لیا ہے۔ گولان ہائٹس کا بیشتر حصہ اسرائیل 1967ء کی جنگ میں قبضہ کرچکاہے۔ دسمبر 2024ء میں شام میں بشار الاسد کی حکومت سقوط کرگئی تو اسرائیل نے سینکڑوں فضائی حملے کرکے شامی فوجی مورچے اور تنصیبات کو تباہ کردیا۔ جبکہ شام اسرائیل کے درمیان 1974ءمیں ہونے والا معاہدہ بھی منسوخ کردیا گیا ہے جس کے بعد اسرائیل نے قنیطرہ،درعا اور سویدا میں سات کلو میٹر سے زائد پیش قدمی کرکے فوجی چیک پوائنٹس اور تنصیبات قائم کردی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی اسرائیل نے شامی دروز اور علوی فرقوں سمیت اقلیتوں کے تحفظ کی بات کی ہے۔ امریکی جریدے وال اسٹریٹ جرنل نے لکھا ہے کہ اسرائیل شامی دروز کمیونٹی کو احمد الشرع کی حکومت تسلیم نہ کرنے پر قائل کررہاہے۔ جریدے کے مطابق اسرائیل اس مقصد لئے شامی دروز پر ایک ارب ڈالر کی رقم خرچ کررہاہے۔
مشرق وسطیٰ کے اُمور پر نظر رکھنے والے ماہرین نے کہا ہے کہ دروز فرقے کے دورہ اسرائیل سے صہیونی ریاست نے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے کہ خطے بالخصوص شام میں اقلیتوں کی اسرائیل سے امیدیں وابستہ ہیں اور وہ اقلیتیں اپنے تحفظ کے لئے تل ابیب کا رخ کررہی ہیں۔ اسرائیل نے شام میں احمدالشرع کی حکومت کے قیام کے ساتھ ہی شام کی تقسیم کے شرانگیز منصوبے پر کام شروع کردیا ہے، جس میں اسرائیل کردوں کے ساتھ اب دروز اور علویوں کے تحفظ کی بات کررہا ہے۔ 6 مارچ کو شام کے ساحل ریجن میں بشار الاسد کی باقیات اور علوی فرقے کے افراد نے شامی سرکاری فورسز کے خلاف مسلح بغاوت شروع کی۔ عرب میڈیا کے مطابق اس بغاوت کو اسرائیلی حمایت حاصل تھی۔ شامی فورسز نے عسکری آپریشن کیا جس پر اسرائیل کو مزید پروپیگنڈا کرنے کا موقع ملا۔ شامی صوبہ سویدا میں دروز کمیونٹی کی اکثریت ہے جہاں اس فرقے کی تین مذہبی گدیاں بھی قائم ہیں۔ ان میں حکمت ہجری کے نام سے دروز روحانی پیشوا ہے جو ان دنوں اسرائیل کی کھلی حمایت کررہاہے۔ جبکہ شام میں اسرائیلی مداخلت کا بھی دفاع کرتے نظر آئے ہیں۔ چونکہ دروزکی اسرائیلی حمایت کا معاملہ شام کے کچھ مخصوص دروز تک محدود ہے، لبنان کے دروز اس کے شدید مخالف ہیں جن کی سربراہی ولید جنبلاط اور ولید ارسلان جیسی شخصیات کررہی ہیں۔ دروزوں کی اکثریت خود کو عربوں کا حصہ قرار دے رہی ہے اور اسرائیل کو ایک قابض اور ناجائز باڈی کے طور پر دیکھ رہی ہے۔ تاہم شام میں اسرائیلی مداخلت کا منصوبہ خاصا کامیاب دکھائی دے رہا ہے۔
شام میں دروز، علویوں اور کردوں کی جانب سے حکومت مخالف بدامنی کے واقعات سے اسرائیل نے اب تک بڑا فائدہ اٹھا یا ہے۔ پچاس برس میں پہلی مرتبہ شامی دروز باقاعدہ وفد لیکر اسرائیل گئے ہیں۔ حالانکہ لبنان اور شامی دروز اسرائیل کے شدید ترین مخالف ہیں اور وہ خود کو عرب قومیت ہی کا حصہ قرار دے رہے ہیں۔ یہاں تک کہ مقبوضہ گولان ہائٹس میں رہنے والے تیس ہزار دروز نے آج تک اسرائیلی شہریت قبول نہیں کی۔ اسرائیل نے گزشتہ عرصے میں ایک مرتبہ بھی عملی طور پر دروز یا علوی فرقے کی مدد نہیں کی ہے، لیکن صہیونی ریاست کے دعوے ان اقلیتی کمیونٹییز کو متاثر کرنے میں موثر ثابت ہوئے ہیں۔
ماہرین کے مطابق شامی دروز میں اسرائیل کے حوالے سے اس وقت شدید پھوٹ پڑی ہے اور ان کی اکثریت اسرائیل کو ایک ناجائز قابض اور قاتل گروپ کے طور پر دیکھتی ہے، جس کے ہاتھوں پر عربوں کے ساتھ ان اقلیتوں کا بھی خون ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کا دورہ کرنے والے درزی وفد پر تنقید کرنے والی آوازوں میں دروز کی آواز بھی شامل ہیں۔ اس وقت جب اسرائیل شام میں مداخلت کے ساتھ وہاں کی اقلیتوں میں بغاوتی منصوبے پر عمل پیرا ہے، ایسے میں 14 مارچ کو اسرائیلی وزیردفاع نے جنوبی لبنان سے فوجیں نکالنے سے انکار کرتے ہوئے وہاں نامعلوم مدت تک فورسز برقرار رکھنے کا اعلان کیا ہے، جس سے اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم اور مشرق وسطیٰ میں نئے منصوبوں کا اندازہ ہوتا ہے۔ بعض ماہرین کے مطابق اسرائیلی منصوبے کی شرانگیزی جاری رہے گی تاہم اس کی کامیابی یا ناکامی کا انحصار شام کے ساتھ علاقائی ممالک کے تعاون پر ہے۔ اگر عراق، ترکی اور لبنان سمیت سعودی عرب اور مصر نے شام کی نئی حکومت کا ساتھ دیا تو اسرائیل کی پیش قدمیوں کو روکنا ناممکن نہیں ہے۔ ان ماہرین نے اس حوالے سے غزہ سے متعلق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے آخری بیان کی مثال دی ہے جس میں انہوں نے تجاہل سے کام لیتے ہوئے کہاہے کہ غزہ سے کسی نے کسی کو نکالنے کی بات نہیں کی ہے۔
تجزیہ کار اس بدلتے لہجے کو عرب ممالک بالخصوص مصر اور اُردن کی جانب سے ہونے والی مخالفت سے جوڑ رہے ہیں۔ دس مارچ کو کرد سیلف مینجمنٹ کی سیرین ڈیموکریٹک فورسز نے بھی شامی صدر احمدالشرع کے ساتھ معاہدہ کرلیا ہے، جو اسرائیل کی کھلی ناکامی ہے۔ اسرائیل دروز سے قبل کردوں کی حمایت کا بھی دعوے دار تھا مگر عملی طور پر اسرائیل کردوں کو نہ تو ترکی کے ملٹری آپریشنز سے بچانے لیے آیا اور ناہی کسی دوسرے موقع پر اس کا کوئی عملی اقدام دیکھا گیا۔ جس کے باعث کرد مایوس ہوگئے اور انہیں اندازہ ہوگیا کہ انہیں شامی حکومت کے ساتھ اپنے معاملات طے کرنے چاہیے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق دروز کے پاس کسی حد تک ہتھیار بھی ہیں اور ان کے مسلح گروپس بھی ہیں، لیکن شامی حکومت کو ملک کی اکثریت کی حمایت حاصل ہے لہٰذا اُن کی اسرائیل نوازی کا معاملہ چند دن میں بیٹھ جائے گا۔
