اگر آپ کو کسی کی شہرت، عزت، قابلیت یا عہدے سے تکلیف ہوتی ہے، اگر آپ کسی کی صحت، تندرستی، اطمینان، خوشی اور خوش لباسی سے چیں بجیں ہوتے ہیں، اگر آپ کو کسی کے قیمتی زیورات، خوبصورت مکان، قیمتی موبائل اور شاندار گاڑی سے جلن ہوتی ہے، اگر آپ کسی کی پر کشش شخصیت، جاذب نظر پرسنالٹی اور اچھی شکل و صورت سے گھٹن محسوس کرتے ہیں، اگر آپ کی کسی کی خوش اخلاقی، ملنساری، ہر دلعزیزی، مالی ترقی، کاروبار، اولاد، اچھی ملازمت، تعلیم، علم اور دینداری سے طبیعت خراب اور دل پریشان ہوجاتا ہے تو سمجھ لیجیے کہ آپ حسد کی بیماری میں یقینی طور پر مبتلا ہیں، جس نے آپ سے آپ کے چین، راحت، سکون اور اطمینان کو چھین لیا ہے۔
جی ہاں! یہ در حقیقت حسد کی وہ خطرناک بیماری ہے جس سے کئی نفسیاتی امراض جیسے غصہ، ڈپریشن، احساس کمتری اور چڑچڑا پن جنم لیتے ہیں۔ یہ بیماری بغض، کینہ، نفرت اور دشمنی کی طرف لے جاتی ہے اور دشمنی فساد کی جانب لے جاتی ہے اور فساد سے پھر رشتے برباد ہوتے ہیں، گھر اجڑ جاتے ہیں اور پورا معاشرہ تباہی کی طرف جانے لگتا ہے۔ ہمارے ہاں اگر آپ صرف رشتہ داری کے بگاڑ کی وجوہات ٹٹولنے کی کوشش کریں گے تو حسد سب سے بڑی وجہ بن کر سامنے آئے گا، بلکہ بعض اوقات سالوں پرانی دشمنی کا بھی حسد کے علاوہ کوئی خاص سبب ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گا آپ کو!
بظاہر رشک بھی حسد سے ملتی جلتی ایک چیز ہے لیکن فی الحقیقت دونوں میں بڑا فرق ہے، چنانچہ حسد ایک منفی جبکہ رشک ایک مثبت جذبہ ہے، حسد ناجائز اور رشک کرنا جائز ہے، حسد کے مفہوم میں کسی کی نعمت یا خوبی کا زوال چاہنا یا اس کے چھن جانے کی خواہش کا پایا جانا ضروری ہے جبکہ اس کے بر خلاف رشک کے مفہوم میں کسی شخص کی خوبی سے متاثر ہونا اور اس جیسا بننے کی خواہش اور کوشش کرنا تو پایا جاتا ہے لیکن اس کی نعمت کے چھن جانے یا اس کو نقصان پہنچ جانے کی کوئی خواہش نہیں ہوتی۔ ممکن ہے آپ کو حسد کرنے والے سے نفرت ہو لیکن ایسا ہونا نہیں چاہیے کیوں کہ حاسد خود انتہائی اذیت اور تکلیف میں مبتلا رہتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ حاسد کی سزا کا عمل اس دنیا ہی سے شروع ہوجاتا ہے، اس لیے ایسے لوگ قابل رحم تو ہوتے ہیں لیکن قابل نفرت نہیں۔ اگر آپ کے دل میں جسمانی بیماریوں میں مبتلا لوگوں کے لیے رحم پایا جاتا ہے تو ان روحانی بیماروں کے لیے کیوں نہیں؟ یہ بھی تو آخر بیمار ہی ہیں نا! ان کو اس بیماری سے نجات دلانے میں ان کی مدد کی جائے اور انہیں حکمت کے ساتھ یہ بتایا جائے کہ حسد در اصل خدا کی تقسیم اور اس کی حکمت پر اعتراض کرنا ہے جو شرعا ناجائز ہے۔ حاسد کو اللہ تعالی کے آزمائشی نظام کو سمجھانے کی کوشش کریں، ان کے دلوں سے دنیا کی حرص و محبت کم کرکے خدا کی حکمت اور تقسیم پر ہر حال میں راضی رہنے کی تلقین کریں، انہیں بتائیں کہ نہ تو دنیا کا ساز وسامان اصل کامیابی ہے اور نہ ہی یہاں کی محرومی اصل محرومی ہے۔
انہیں بتایا جائے کہ روزے کی ایک اور قسم بھی ہے جس کا تعلق محض پیٹ اور شہوت سے نہیں بلکہ دل سے ہے، جو جسم کو قید نہیں کرتا بلکہ روح کو آزاد کرتا ہے اور وہ ہے حسد سے روزہ۔ یعنی وہ پوشیدہ احساس جو دلوں میں چپکے سے داخل ہو کر سکون چھین لیتا ہے اور آنکھوں کو دوسروں کی زندگی پر مرکوز کر دیتا ہے، بجائے اس کے کہ وہ ہماری اپنی زندگی کے حسن کو منعکس کرے۔ یہ صرف ایک عارضی احساس کا نام نہیں بلکہ اس مہلک کیفیت کا نام ہے جو انسان کو دوسروں سے موازنہ کا قیدی بنا دیتی ہے۔ جس کے بعد وہ اپنے پاس موجود نعمتوں کو بھول کر ہمیشہ دوسروں کے پاس موجود نعمتوں کو ایسا دیکھتا رہتا ہے گویا خوشی صرف دوسروں کیلئے مخصوص ہے۔ تب وہ خود سے سوال کرتا ہے: ان کے پاس وہ کیوں ہے جو میرے پاس نہیں؟ وہ کیوں کامیاب ہو رہے ہیں جبکہ میں مشکلات میں پھنسا ہوں؟ ان کے لیے دروازے کیوں کھلتے ہیں جبکہ میرے لیے بند ہو جاتے ہیں؟ یہی سوالات بار بار اس کے ذہن میں آکر اسے غصے اور بے چینی میں مبتلا کر دیتے ہیں۔
نفسیات کے مطابق حسد براہِ راست خود سے عدم اطمینان کا نتیجہ ہوتا ہے، جہاں انسان اپنی کمیوں پر توجہ مرکوز کر لیتا ہے بجائے اس کے کہ وہ اپنی صلاحیتوں کو نکھارنے پر دھیان دے۔ یہی وجہ ہے کہ جو شخص خود پر یقین رکھتا ہے، وہ دوسروں سے حسد نہیں کرتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ ہر کسی کا رزق مقرر ہے اور جو نصیب میں لکھا ہے، وہ کوئی اور نہیں لے سکتا۔ لیکن جسے خود پر اعتماد نہیں، وہ ہمیشہ کسی نہ کسی کمی کے خوف میں مبتلا رہتا ہے، کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ دنیا میں بھلائی محدود ہے اور اگر دوسروں کو کچھ ملتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اسے اس سے محروم کر دیا گیا ہے۔ اگر ہم سنجیدہ ہو کر اس احساس سے روزہ رکھنے کا تجربہ کریں تو یقین جانیں ہم اس بیماری سے شفایاب ہو سکتے ہیں۔
حسد سے روزہ رکھنا صرف اس احساس سے پرہیز نہیں، بلکہ یہ ہمارے ذہنوں اور دلوں کی نئی تربیت ہے۔ یہ اس بات کا انتخاب ہے کہ جب ہم کسی کو کسی نعمت سے نوازا ہوا دیکھیں تو اس کیلئے برکت کی دعا کرتے ہوئے اپنے لیے بھی اس نعمت کی تمنا کریں، بجائے اس کے کہ ہم اس کے زوال کے خواہش مند ہوں کہ زندگی کسی دوڑ کا نام نہیں جہاں زیادہ سے زیادہ نعمتیں سمیٹنی ہیں، بلکہ یہ ایک آزمائش ہے کہ ہم اپنے پاس موجود نعمتوں کے ساتھ کیا کرتے ہیں۔ یہ وہ درس ہے جو ہمیں سکھاتا ہے کہ حقیقی خوشی کا راز قناعت میں ہے۔ اگر آپ نے اس روزے کو آزمایا تو آپ یقینی طور پر محسوس کریں گے کہ آپ کا بوجھ ہلکا ہو گیا ہے، آپ کی روح زیادہ شفاف ہو گئی ہے اور آپ کا دل سکون سے بھر گیا ہے کیونکہ اصل آزادی کھانے پینے سے رکنے میں نہیں، بلکہ ان احساسات سے نجات پانے میں ہے جو ہماری زندگی کی خوشیوں کو ہم سے چرا لیتے ہیں۔
حسد کے شر سے بچنے کیلئے آخری تین سورتیں ہر نماز کے بعد ایک بار اور فجر اور عصر کے بعد تین بار پڑھنے کا اہتمام کریں، رات کو سوتے وقت دونوں ہاتھوں کو دعا کی طرح اٹھا کر پہلے اس میں پھونک ماریں اور پھر یہ تین سورتیں پڑھ کر پورے جسم پر ہاتھوں کو پھیر دیں، نیز صبح اور شام کے اذکار پڑھنے کا اہتمام کریں ان شاء فائدہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ تمام حاسدوں کو شفا عطا فرمائے اور انسانیت کو حسد کے شر سے محفوظ فرمائے۔