مشرقِ وسطیٰ میں طاقت کے بل پر فتنہ و فساد کی کوششیں

ٹرمپ اور انسانیت کے عالمی مجرم نیتن یاہو کی دھمکیوں کے جواب میں حماس کے عسکری ترجمان نے واضح کیاہے کہ وہ کار نئی جنگ کیلئے تیارہیں اور جارحیت کے جواب میں اسرائیل کو نئے زخم لگائے جائیں گے۔ انہوں نے واضح طورپر کہا کہ جو مقصد پندرہ ماہ کی جارحیت کے ارتکاب سے حاصل نہ ہوسکا وہ کسی اور حیلے، دھمکیوں اور سازشوں کے ذریعے بھی حاصل نہیں ہوگا۔ یاد رہے کہ امریکی صدر نے دھمکی دی ہے کہ حماس تمام یرغمالیوں کو رہا کرے ورنہ اپنے خاتمے کی منتظر رہے۔

حماس ترجمان نے کہا کہ اگر اسرائیل نے امریکی چھتری تلے جارحیت شروع کی تو وہ یرغمالیوں کو کھو دے گا۔ ہم نے معاہدے کا مکمل خیال رکھاہے لیکن انسانی شرافت اور اخلاق سے محروم نیتن یاہو دھوکے اور فریب سے کام لے کر معاہدے کو سبوتاژ کرنا چاہتا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق حماس کے عسکری ترجمان کی جانب سے دیا گیا بیان امریکا اور اسرائیل کے اس مشترکہ منصوبے کو مکمل طورپر مسترد کررہاہے جس کے مطابق غزہ کی تعمیرِ نو بعض مسلم اور بعض مغربی ممالک کے اشتراک سے کی جائے گی اور اس دوران غزہ کا کنٹرول بھی انہی ممالک کی افواج یا عالمی امن فورس کے پاس ہوگا۔

حماس کے ترجمان نے اسرائیل کے لیے امریکی حمایت اور پشت پناہی کا خاص طورپر ذکرکے دراصل مغربی ریاستوں بالخصوص امریکا کی جانبداری، انصاف سے روگردانی، انسانی احترام کی عملاًنفی اور منافقانہ کردار کی نشان دہی کی ہے، اسی طرح اسرائیل پر دھوکے، فریب اور جنگ جاری رکھنے کے حیلے بہانے تلاش کرنے کا الزام جو حقائق کے عین مطابق ہے، یہ ثابت کرتا ہے کہ عالمی طاقتوں کی مدد سے قائم دہشت گردی کا مرکز اسرائیل عالمی قوانین کی مسلسل خلاف ورزی کا مرتکب ہے لیکن اس کے مظالم، دہشت گردی، انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور توسیع پسندانہ عزائم کی سرپرستی کی جارہی ہے۔ یہ مناظر دنیا کی تمام اقوام دیکھ رہی ہیں اور انھیں بخوبی اندازہ ہورہاہے کہ مغربی تہذیب اپنے باطن میں کس نوعیت کی ظلمت، سرکشی اور فتنہ و فساد کو لیے دنیا پر طاقت کے زور سے حکمرانی کرنا چاہتی ہے۔

اسرائیل جیسی معصوم بچوں کی قاتل ریاست خطے میں جو فساد پھیلا رہی ہے، اس کے مظاہر صرف غزہ ہی نہیں بلکہ آس پاس کی ریاستوں میں بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق اسرائیل نے شام میں حال ہی میں قائم ہونے والی حکومت کو اپنے لیے خطرہ قرار دے کر دہشت گردی کے دائرے کو مزید وسیع کردیاہے۔ مختلف ذرائع ابلاغ نے تصدیق کی ہے کہ اسرائیل شام میں نصیریوں کو امداد فراہم کرکے شام میں مسلح بغاوت کی را ہ ہموار کررہاہے۔ اسرائیل کا حریف شمار ہونے والے ایران نے بھی اس معاملے میں اسرائیل کے ہاتھ مضبوط کرنے کی ٹھان لی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایران کی جانب سے شام میں پاسداران ِانقلاب کے طرز کی جماعت قائم کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ اسرائیل اور ایران کی مشترکہ حمایت سے گزشتہ دو دنوں میں شام کے جلا د بشار الاسد کے پرستار گروہوں نے بعض شہروں میں بغاوت کی کوششیں بھی کی ہیں جس کے جواب میں شام کی سرکاری افواج متحرک ہوچکی ہیں اور شام کے صدر ابو محمد احمد حسین الشرع نے اعلان کیاہے کہ اب معافی، رعایت اور درگزر کا وقت گزر چکاہے لہٰذا باغیوں کے لیے کسی قسم کی رعایت نہیں کی جائے گی۔ شام میں پراکسی وار میں اسرائیل اور ایران کا یہ اتحاد بظاہر دو متناقص سمجھی جانی والی ریاستوں کے درمیان دراصل مفاہمت کی ایک صورت ہے جس کے بعد یہ سمجھنا دشوار نہیں کہ ایران اور اسرائیل کے درمیان دشمنی کی آڑ میں دراصل بعض مشترکہ مفادات کا تحفظ پہلے سے موجود ہے اور بشار رجیم اسی مشترکہ مفاد کا ایک حصہ تھی، جس کے نتائج عرب ممالک اور خاص طورپر فلسطینی حریت پسندوں کو بھگتنا پڑے۔

فی الواقع اسرائیل اور ایران دونوں ہی مشرقِ وسطیٰ میں توسیع پسندانہ عزائم کی حامل ریاستیں ہیں لیکن عرب ممالک دونوں کا مشترکہ ہدف ہیں۔ ان حالات میں ترکیہ ہی وہ واحد قوت دکھائی دیتی ہے جس کی عسکری طاقت ان دونوں ریاستوں کے مشترکہ توسیع پسندانہ عزائم کی راہ میں ایک ناقابلِ تسخیر چٹان کی حیثیت رکھتی ہے۔ شام کے خلاف نصیری دہشت گردوں اور ایران کی ایما پر عراق سے آنے والے فسادیوں کا راستہ روکنے کے لیے ترکیہ کے فوجی دستے متحرک ہوچکے ہیں۔ یوں غزہ کے بعد اب شام بھی مشرقِ وسطیٰ میں طاقت کے بے لگام استعمال کا نیا میدان بنتا دکھائی دے رہا ہے۔ یہ بات غیر مبہم انداز میں اجاگر ہوتی جارہی ہے کہ شام میں انقلاب کی تیاری دراصل ترکیہ میں کی گئی اور اس وقت بھی ترکیہ شام کی حکومت کی پشت پناہی کے لیے کمر بستہ ہوچکاہے۔ خوش آئند امریہ ہے کہ سعودی عرب نے بھی شام میں ہونے والی بغاوت کی کوششیں کی مذمت کی ہے۔ سعودی عرب مشرقِ وسطیٰ میں مرکزی حیثیت رکھتاہے۔ اگر سعودی عرب اور ترکیہ مل جل کر مشرقِ وسطیٰ میں پھیلنے والے فتنے کا تدار ک کرنے کی ٹھان لیں اور اس حوالے سے وہ عالمِ اسلام کو مشترکہ حکمتِ عملی اختیار کرنے پر آمادہ کرسکیں تو مشرقِ وسطیٰ میں امن کی بحالی ممکن ہوسکتی ہے۔ اس ضمن میں مسلم ریاستوں کو ایک ایسا جان دار موقف اختیار کرنے کی ضرورت ہے جس کے بعد اسرائیل کوغزہ اور شام میں جارحیت کی جرأت ہی نہ ہو۔

حالات و واقعات ثابت کررہے ہیں کہ اسرائیل نے مشرقِ وسطیٰ کو میدان ِ جنگ میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کررکھا ہے جس کا علاج محض نرم گفتاری اور قراردادیں پاس کرنے سے نہیں ہوسکتا۔ پراکسی وار کا عملی جواب وہی ہے جو کہ ترکیہ نے کرد باغیوں کو دیاہے اور جو اس وقت پاکستان فتنہ ٔ خوارج کے خلاف اختیار کررہاہے۔ جس طرح نصیری باغی اس وقت اسرائیل اور ایران کے مشترکہ مفاد کے لیے استعمال ہورہے ہیں اسی طرح فتنہ ٔ خوارج بھی بھارت اور اسرائیل کے مشترکہ اہداف کی تکمیل کے لیے سرگرم ہیں۔ حقیقی معنوں میں مجاہد وہی ہیں جنھوں نے اعلیٰ اخلاق کا ثبوت دیا، وعدوں کو پورا کیاہے اور اسلام کا نام بدنام نہیں ہونے دیا۔ یہ وہ اخلاقی قوت ہے جس کی بنیاد پر مجاہد ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ اسرائیل اور امریکا جو مقصد جنگ سے حاصل نہیں کرسکے، وہ حیلے بہانوں سے بھی حاصل نہیں کرسکیں گے۔ اسرائیل، امریکا اور مغربی ریاستوں نے طاقت کے بل پر مشرقِ وسطیٰ میں فتنہ ٔ و فساد کا جو بازار گرم کررکھاہے اس کا علاج امن و سلامتی کے قیام کے لیے مسلم ممالک کے باہمی اتحاد میں پوشیدہ ہے۔