ڈاکٹر سید لقمان اعظمی ندویؒ
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ ”اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے۔ کلمہ طیبہ کی گواہی یعنی لاالہٰ الا اللہ محمد رسول اللہ کا اقرار و ایمان، نماز کا اس کے آداب کے ساتھ ادا کرنا، مال کی زکوٰة دینا، بیت اللہ شریف یعنی خانہ کعبہ کا حج کرنا، رمضان کے روزے رکھنا۔“ (متفق علیہ)
حدیث سے معلوم ہوا کہ اسلام کی اساس و بنیاد پانچ ستون پر ہے جو شعر کے مصرع کی طرح ہیں کہ مصرع کا ایک حرف ہٹا دیا جائے تو مصرع صحیح نہ رہے گا، اسی طرح اسلام پانچ ستونوں پر قائم ہے۔ ان میں سے ایک ستون تو بیچ کا ہے جو مرکزی حیثیت رکھتا ہے اور وہ ہے کلمہ شہادت، باقی چار رکن نماز، زکوٰة، حج اور روزہ ہیں۔
روزہ کیا ہے؟
روزہ، ارادے کی پختگی، عزم بالحزم اور بندہ مومن کا اللہ تعالیٰ کے مطیع و منقاد ہونے کے جذباتِ عبدیت کو ظاہر کرتا ہے۔ روزے میں بندہ اپنے آپ کو اپنی تمام جسمانی ضرورتوں سے بلند کرلیتا ہے۔ اپنی جسمانی ضروریات پر اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی، آخرت کے اجر و ثواب اور نعمتوں کو ترجیح دیتا ہے۔ حدیث قدسی میں آتا ہے، ترجمہ: ”ابن آدم کا ہر عمل اس کے لیے ہے سوائے روزے کے کہ وہ میرے لیے ہے اور اس کا بدلہ میں خود ہوں۔“ اعضائے انسانی کو معاصی سے بچانے اور خواہشات کا شکار ہوکر انسان کی چھینی ہوئی روحانی صلاحیت کو واپس لانے اور بحال کرنے میں روزہ بڑی تاثیر کا حامل ہے۔ روزہ حصول تقویٰ کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں، ترجمہ: ”مومنو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے، تاکہ تم پرہیز گار بنو۔“ (البقرہ)
اللہ تعالیٰ نے انسان پر روزہ اس کی صلاح و تربیت کے بقدر ہی مشروع فرمایا ہے کہ جس سے وہ دنیا و آخرت دونوں جہاں کا فائدہ اُٹھاسکے، اتنا نہیں کہ جس سے اس کو نقصان پہنچ جائے جو اس کے دینی اور دنیاوی تقاضوں کو پورا کرنے میں حارج ہوجائے۔