27فروری 2025ء کو گوجرانوالہ چیمبر آف کامرس میں جامعہ مدینة العلم جناح کالونی گوجرانوالہ کے زیر اہتمام ‘سود سے پاک بابرکت کاروبار’ کے عنوان سے علماء کرام اور تاجر برادری کے سیمینار سے خطاب کا خلاصہ قارئین کی نذر کیا جا رہا ہے۔بعد الحمد والصلوٰة۔ جامعہ مدینة العلم گوجرانوالہ کے مہتمم مولانا محمد ریاض ہمارے باذوق ساتھی اور میں بھی ان کی ٹیم کا حصہ ہوں۔ عصری ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے اس قسم کی مجالس کا اہتمام کرتے رہتے ہیں اور آج کی یہ محفل بھی اسی کا حصہ ہے۔ تاجر برادری اور علماء کرام کے مشترکہ ماحول کو غنیمت سمجھتے ہوئے چند گزارشات پیش کرنا چاہتا ہوں، اللہ پاک ہم سب کو اس کارِ خیر میں برکت و توفیق سے نوازیں، آمین۔
پہلی بات یہ عرض کروں گا کہ حضراتِ انبیاء کرام علیہم السلام کی تعلیمات میں معیشت و تجارت کی اصلاح بھی ایک اہم حصہ رہی ہے اور اللہ تعالیٰ کے پیغمبروں نے جہاں عقیدہ، عبادات اور اخلاقیات کی بات کی ہے وہاں معیشت و تجارت کو احکامِ الٰہی کے مطابق بنانے کی بھی تلقین فرمائی ہے اور یہ بھی شریعت و دین کا اہم شعبہ ہے۔ قرآن کریم نے اس سلسلے میں خاص طور پر حضرت شعیب علیہ السلام کا تذکرہ کیا ہے اور ان کا قوم کے ساتھ وہ مکالمہ ذکر فرمایا ہے جو معیشت و تجارت کی اصلاح کے حوالے سے ہے اور ہمارے لیے بھی وہ دین و شریعت کا پیغام ہے۔ حضرت شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم کو اللہ تعالیٰ کی بندگی اور اس کے رسول کی اطاعت کا حکم دینے کے بعد یہ ارشاد فرمایا کہ ماپ تول کو پورا کرو اور اس میں کمی نہ کرو، مال کے معیار کو نہ گھٹاؤ اور ناقص مال مت بیچو اور تجارت کو معاشرے میں فساد کا ذریعہ نہ بننے دو۔ اس پر قوم کے لوگوں نے حضرت شعیب علیہ السلام کو جواب میں یہ طعنہ دیا کہ کیا تمہاری نمازیں ہمیں اس بات پر آمادہ کرتی ہیں کہ ہم اپنے آباؤاجداد کا راستہ چھوڑ دیں اور اپنے مالوں میں اپنی مرضی سے تصرف نہ کریں؟ یعنی ”ہمارا مال ہماری مرضی” کا یہ فلسفہ اس دور میں بھی معاشرے کا مزاج تھا اور شعیب علیہ السلام کی قوم کو یہ بات عجیب لگی کہ وہ اپنے مالوں میں حضرت شعیب علیہ السلام کی ہدایات کو قبول کریں۔
یہ فلسفہ آج کے دور میں ”فری اکانومی” کہلاتا ہے کہ مارکیٹ اور بازار اپنے معاملات خود طے کریں گے اور انہیں کسی سے ہدایات کی ضرورت نہیں ہے۔ جبکہ انبیاء کرام علیہم السلام نے عبادت و عقیدہ اور اخلاقیات کے ساتھ ساتھ معیشت و تجارت کو بھی وحی الٰہی کا پابند بنانے کی تعلیم دی ہے۔ قرآن کریم نے سود کو حرام قرار دینے پر مشرکین عرب کے اس ردعمل کا بھی تذکرہ کیا ہے کہ ”انما البیع مثل الربوا” تجارت بھی سود کی طرح ہے، اگر وہ جائز ہے تو یہ بھی جائز ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا واضح جواب دیا کہ ”احل اللہ البیع وحرم الربوا” یہ دونوں ایک چیز نہیں ہیں، اللہ تعالیٰ نے تجارت کو حلال اور سود کو حرام قرار دیا ہے۔ پھر قرآن کریم نے یہ بھی واضح فرمایا کہ ”یمحق اللہ الربوا و یربی الصدقات” اللہ تعالیٰ نے سود میں نحوست رکھی ہے اور صدقات میں برکت رکھی ہے۔ یعنی سود سے بظاہر رقم کی گنتی بڑھتی ہے اور صدقات و خیرات سے کم ہوتی ہے، لیکن درحقیقت سود سے رقم کی مالیت کم ہوتی ہے اور صدقہ و خیرات سے اس میں اضافہ ہوتا ہے۔ سادہ سی بات ہے کہ گنتی اور چیز ہے مگر قدر اور ویلیو اس سے مختلف چیز ہے۔ ہمارے ہاں سونے کا وزن وہی رہتا ہے مگر اس کی قیمت گنتی میں بڑھتی رہتی ہے، زمین کی مقدار وہی رہتی ہے مگر اس کی قیمت سینکڑوں سے کروڑوں تک جا پہنچی ہے۔ اللہ پاک فرما رہے ہیں کہ سود سے گنتی بڑھتی ہے مگر قدر اور ویلیو کم ہوتی چلی جاتی ہے اور صدقہ سے بظاہر رقم کم ہوتی ہے مگر اس کی ویلیو بڑھتی چلی جاتی ہے کیونکہ قدر اللہ پاک کے کنٹرول میں ہے۔
اسی طرح قرآن کریم نے حلال و حرام کے اُصول اور ضابطے بیان فرمائے ہیں کہ کسی چیز کا حلال ہونا یا حرام ہونا اللہ تعالیٰ کے حکم سے وابستہ ہے، جس کو اللہ پاک نے حرام کہا ہے وہ حرام ہے اور جس کو حلال کہا ہے وہ حلال ہے۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی جہاں عقیدہ و عبادت اور اخلاقیات کو صحیح رکھنے کی تلقین فرمائی ہے وہاں معیشت، تجارت، باہمی معاملات اور حقوق کو انصاف کے دائرے میں رکھنے کا حکم دیا اور یہ بھی دین کا حصہ ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سچے تاجر قیامت کے دن حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کے ساتھ ہوں گے اور اس کے ساتھ دو شرطیں بیان فرمائی ہیں کہ وہ تجار ”الصادق” اور ”الامین” ہو یعنی قول میں سچا ہو اور مال میں خیانت نہ کرے۔
میں اس کے ساتھ یہ بھی عرض کرنا چاہوں گا کہ سیاسی نظام کی اصلاح اور خاندانی نظام کو آسمانی تعلیمات کے مطابق رکھنا بھی حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کی تعلیمات کا حصہ رہا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام نے فرعون سے بڑا مطالبہ یہی کیا تھا کہ ہماری قوم بنی اسرائیل کو آزاد کرو اور انہیں غلامی کے عذاب سے نجات دو اور پھر دونوں نے بنی اسرائیل کی آزادی کی جدوجہد کی قیادت فرمائی۔ اسی طرح خاندانی نظام کی اصلاح اور ہم جنس پرستی کی لعنت سے نجات حضرت لوط علیہ السلام کی جدوجہد کا اہم حصہ تھا جس کا قرآن کریم نے تفصیل سے ذکر فرمایا ہے۔میں سیمینار کا خیرمقدم کرتے ہوئے تاجر برادری اور علماء کرام سے گزارش کروں گا کہ ہم سب کو قرآن و سنت کے مطابق معاشرتی زندگی کے ہر شعبہ میں اصلاح کی مشترکہ کوششیں کرنی چاہئیں، اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق اور مواقع سے نوازیں، آمین یارب العالمین۔