ماہِ رمضان میں افطاری کے دسترخوان اسلامی تاریخ کی ایک روشن روایت ہے۔
مصری محقق سامح الزہار نے اپنی تحقیق میں لکھا ہے کہ افطاری دسترخوانوں کی روایت عہد نبوی سے شروع ہوئی ہے۔ جب طائف سے آنے والے ایک وفد نے اسلام قبول کرنے کے بعد مدینہ منورہ میں قیام کیا تو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ کے ذریعے ان کے لیے افطاری اور سحری کا کھانا بھجواتے۔ یہیں سے افطاری کی روایت کی بنیاد پڑی۔خلفائے راشدین کے دور میں اس روایت میں مزید اضافہ ہوا۔ خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے باقاعدہ ’دورالافطار‘ کے نام سے روزہ افطار کروانے کے لیے مراکز قائم کئے۔
عرب دنیا میں افطاری دسترخوان کو ’موائد الرحمن‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ مورخین کے مطابق افطاری دسترخوان کو سب سے پہلے ’موائد الرحمن‘ کا نام مشہور مصری فقیہ اور عالم دین اللیث بن سعد بن عبد الرحمن نے دیا تھا۔ فقیہ اللیث کے دادا کانام عبدالرحمن تھا۔ اللیث ایک نامور عالم دین ہونے کے ساتھ مالدار شخص تھے جبکہ ان کی دولت سے زیادہ ان کی خداترسی، انسان دوستی اور سخاوت تھی جس کے باعث وہ ہر سال ماہ رمضان میں افطاری کے دسترخوان کا انتظام کرتے تھے۔ ان کے دسترخوانوں پر ہزاروں انسان روزہ افطار کرتے تھے۔ 791 میں ان کی وفات تک یہ روایت جاری رہی۔ بغداد میں مشہور عباسی خلیفہ ہارون الرشید نے اپنے دور میں افطاری دسترخوان کی روایت ڈالی۔ بادشاہ کے عالیشان قصر کے باغیچے میں افطاری کے دسترخوان بچھا ئے جاتے تھے۔ بادشاہ سادہ لباس پہن کر خود دسترخوان کا جائزہ لینے جاتے تھے تاکہ خوراک کا معیار اور انتظامات دیکھ سکے۔ اپنے 23 سالہ دور حکومت میں ہارون الرشید نے اس روایت کو بڑی پابندی کے ساتھ نبھایا۔
مصر میں طولونی سلطنت کے بانی ابوالعباس احمد بن طولون نے افطاری دسترخوان کو بہت اہمیت دی۔ ان کے دور میں افطاری دسترخوان کو سماط اور اسمطہ کا نام دیا گیا۔ ابن طولون افطاری دسترخوان پر فقہائ، علمائ، صنعت کار اور تاجروں کے ساتھ اہم امراءکو مدعو کرتے تھے اور انہیں کہا کرتے تھے کہ اس دعوت کا مقصد یہ ہے کہ آپ اپنے گھروں کے دروازے ماہ رمضان میں غریبوں کے لئے کھول دیا کریں۔ ابن طولون کی اس تحریض سے مصر میں دُوردراز تک افطاری دسترخوانوں کا دور شروع ہوگیا جس نے غربت میں کمی اور بھوک کے خاتمے میں بڑا نمایاں کردار ادا کیا۔ 972 میں مصر میں فاطمی دور میں المعز لدین اللہ کے دور میں بھی افطاری دسترخوان کو پذیرائی حاصل رہی۔ ان کے دربار سے روزانہ 1100 دیگیں نکلتی تھیں جنہیں افطاری دسترخوانوں پر چن دیا جاتا تھا۔ مصر میں یہ روایت 1937ء میں شاہ فاروق کی تخت نشینی تک رائج رہی۔ مصری مو¿رخ تقی الدین مقریزی لکھتے ہیں کہ ایوبی دور کے سپہ سالار لولو حاجب روزانہ 12 ہزار روٹیاں سالن کے ساتھ راہِ خدا میں دیا کرتے تھے جب رمضان شروع ہوجاتا تھا تو اس کو دگنا کرتے تھے۔
اُموی دور میں افطاری دسترخوانوں کو بہت اہمیت دی گئی۔ عراق کے گورنر حجاج بن یوسف کی افطاری مشہور تھی۔ ابوالحسن البلاذری نے اپنی کتاب انساب الاشراف میں لکھا ہے کہ حجاج بن یوسف روزانہ ایک ہزار خوان بچھاتے تھے۔ (خوان کھانے کے ٹیبل کو کہا جاتا ہے) ہر خوان پر چالیس بڑی روٹیاں اور شوربے کا تھال رکھا جاتا تھا جس میں ثرید بنائی جاتی تھی۔ اس کے ساتھ چاول، مچھلی اور بکری کی ران بنی ہوئی رکھی جاتی تھی۔
’افطاری دسترخوان‘ اِسلامی روایات کا اہم ترین حصہ رہا ہے۔ آج کے دور میں بھی حرم مکی اور مسجد نبوی میں لگنے والے افطاری دسترخوان کو عالمی سطح پر سب سے طویل دسترخوان ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ تاہم دورِ حاضر میں معاشی مشکلات اور اسلامی ممالک میں سیاسی عدم استحکام، بدامنی اور خانہ جنگیوں نے جہاں دیگر بہت سے مسائل کو جنم دیا ہے وہیں افطاری دسترخوانوں کی روایت کو بھی غیرمعمولی نقصان پہنچا ہے۔ عرب ملک سوڈان جو کبھی مہمان نوازی کے حوالے سے مشہور تھا، چند برس قبل تک دیگر عرب ممالک کے باشندے سوڈان میں رمضان کی رونقیں دیکھنے جایا کرتے تھے، 2019ء سے مسلسل بدامنی اور خانہ جنگی کا شکار ہے۔ یمن خانہ جنگی کا شکار ہے۔ تیونس اور مصر بدترین معاشی بحران کی زد میں ہیں۔ لیبیا میں متوازی حکومتیں قائم ہیں جہاں بدامنی ہے۔ ان حالات نے عرب دنیا کو بدترین مسائل میں دھکیل دیاہے جن میں غربت، مہنگائی اور بے روزگاری سرفہرست ہیں، جس کے نمایاں اثرات اس قدیم روایت پر بھی مرتب ہوئے ہیں۔ تاہم یہ روایت ختم نہیں ہوئی اور آج بھی لوگ اپنی استطاعت کے مطابق افطاری دسترخوان لگاتے ہیں جس میں مخیر حضرات جی بھر کر حصہ لیتے ہیں۔