نیکیوں کا سیزن آگیا

محمد عفان سلیمی
اللہ ربُّ العزت کا بے حد شکر و احسان ہے کہ ایک بار پھر رمضان المبارک کا مہینہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔اللہ تعالیٰ ہی کی مہربانی ہے کہ جس نے ہماری جانوں کو اتنی مہلت بخشی کہ ہم آج رمضان المبارک کا مہینہ دیکھ رہے ہیں اور ہم اس مہینے کی برکات لوٹ رہے ہیں۔

گیارہ مہینوں میں یہی وہ مہینہ ہے جسے اللہ ربُّ العزت کا مہینہ کہا جاتا ہے۔چنانچہ ایک عالم دین اس مہینے کے بارے میں فرماتے ہیں کہ’رمضان اللہ کا ایک بہت بڑا انعام ہے، گیارہ مہینے بندہ اپنے دنیاوی کاموں میں مگن رہتا ہے،لیکن یہ ایک مہینہ اللہ کا ہوتا ہے۔اس مہینے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندے سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ دیکھو! تم بارہ مہینے اپنے دنیاوی کاموں میں لگے رہے۔گھر بار،بیوی بچے،کاروبار اور دیگر مصروفیات،انہیں سب چیزوں نے تمہیں سارا سال ہم سے غافل رکھا،لیکن اب تمہیں ایک مہینہ عطا کررہے ہیں،اب تم اس ایک مہینے میں اپنی تمام تر مصروفیت کو ایک طرف رکھ کر ہماری طرف متوجہ ہو جاو¿، ہم تمہیں مالامال کر دیں گے۔‘
اِسی طرح ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ رمضان مومن کے لیے کمائی کا مہینہ ہے۔ فقہاءاس حدیث کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ رمضان کے مہینے میں اعمال کا اجر اللہ ربُّ العزت کی طرف سے کئی گنا بڑھا دیا جاتا ہے۔اسی مہینے میں روزے رکھے جاتے ہیں۔ہر رات اللہ ربُّ العزت کی طرف سے 40 زائد سجدوں کا انعام دیا جاتا ہے۔ یعنی نماز تراویح پڑھی جاتی ہے۔ افطاری کا ثواب الگ سحری کا ثواب الگ۔ قرآن مجید کی تلاوت ایک طرف۔ گویا ہول سیل لگی ہوئی ہے بلکہ ہول سیل کہنا بھی غلط ہوگا یوں کہہ لیجئے کہ لنگر لگا ہوا ہے۔ اجر و ثواب اور جنت کے پلاٹ بانٹے جا رہے ہیں۔رحمتوں اور برکتوں کا مسلسل نزول ہو رہا ہے۔ ہر روز نہ جانے کتنے لوگوں کی گردنیں جہنم سے آزاد کی جا رہی ہیں۔ اگر کاروباری زبان میں کہیں تو سیزن ہے سیزن؛ جنت کمانے کا، اللہ ربُّ العزت کی خوشنودی پانے کا، بخشش و معافی پانے کا۔ آج بادشاہ نے خزانے کے منہ کھول دیے ہیں۔ اسی لیے اس مہینے کو حدیث مبارکہ میں کمائی کا مہینہ کہا گیا ہے کہ مومن کی اصل کمائی تو آخرت کی کمائی ہے۔
لیکن ایک بات کا دھیان اس مہینے میں رکھنا بہت ضروری ہے جس کی نشاندہی حدیث مبارکہ میں کی گئی ہے۔ حدیث نبوی کا مفہوم ہے کہ کچھ اس طرح کے بدبخت بھی ہوتے ہیں جن کو اللہ ربُّ العزت مبارک یہ مہینہ عطا فرماتے ہیں، اس کے باوجود وہ اپنی بخشش و مغفرت نہیں کروا پاتے۔ جیسا کہ اوپر ذکر کیا کہ رمضان المبارک کو پا لینا اس میں بندے کو کوئی کمال نہیں ہے، بلاشبہ ربُّ العزت ہی کی عطا ہے کہ انہوں نے ہمیں ایک اور رمضان دیکھنا نصیب فرمایا۔ ایک اور مہینہ مغفرت کا عنایت فرمایا، لیکن اگر اس مہینے میں بھی اپنے آپ کو بخشوانے میں ناکام رہے تو شاید اس سے زیادہ بدقسمتی کی بات کوئی نہ ہو!!
اِس بات کا اندازہ آپ اس بات سے لگائیے کہ ایک بار ایک ریاست میں غربت بہت عام تھی، ہر ایک غربت کا رونا رویا کرتا تھا، جسے دیکھیے پریشان تھا۔اس بادشاہ وقت کے پاس لوگ شکایت لے کر آتے تھے؛ بادشاہ سلامت کچھ کیجیے ہم بھوکے مررہے ہیں۔ ایک دن بادشاہ نے ساری رعایا میں اعلان کروایا کہ فلاں دن بیت المال ہر خاص و عام کے لیے کھول دیا جائے گا، جو جتنا مال اکھٹا کرنا چاہے کرلے۔ چنانچہ وہ دن آیا جس میں اپنی اپنی منشا کے مطابق مال اکٹھا کیا گیا۔ لیکن ایک طرف ایک بھکاری جو کہ بہت خستہ حالت میں تھا، ایک کونے میں بیٹھا تھا اور اس نے مال لینے سے انکار کردیا۔ اب بتائیے کیا بادشاہ کو اس پر غصہ نہیں آئے گا؟ اور کیا بادشاہ اسے سخت ترین سزا نہیں دے گا؟ ہماری حالت بھی کچھ ایسی ہے۔
رمضان کا مکمل مہینہ کچھ لوگ عیاشیوں میں گزار دیتے ہیں۔ بدقسمتی سے رمضان کا آنا نہ آنا اُن کے لیے برابر ہوتا ہے بلکہ دیکھنے میں تو یہ تک آیا کہ بعض جگہ تو رمضان کو تفریحی مہینہ منسوب کیا جاتا ہے۔ باقاعدہ تفریحات کے لیے پلاننگ کی جاتی ہے۔ کیا یہ قہرخداوندی کو دعوت دینے کے مترادف نہیں ہے؟ بادشاہ مال و متاع بانٹ رہا ہے اور آپ اس کی ریاست میں رہتے ہوئے اس کی عطاو¿ں سے دستبرداری کررہے ہیں۔ گویا معاذاللہ آپ کو اللہ تعالیٰ کے انعام و کرام کی ضرورت ہی نہیں!! اِس لیے حدیث مبارکہ میں ایسے شخص کو بدبخت و بدقسمت کہا گیا ہے جس کے پاس دونوں جہانوں کے بادشاہ کا اعلان عام آئے کہ جو مغفرت مانگے اُسے عطا کی جائے گی، لیکن وہ غفلت و کوتاہی میں سارا مہینے گزار دے اور جب یہ عظیم مہینہ ختم ہوجائے تو وہ مغفرتِ خداوندی کو نہ پاسکے۔
چنانچہ ضرورت اِس بات کی ہے کہ اس مہینے کو مکمل طور پر اللہ ربُّ العزت کے لیے وقف کردیں۔ علماء کرام فرماتے ہیں کہ اس مہینے میں اپنے روزمرہ کے دنیاوی معاملات بھی کم کردینے چاہییں۔ اکثر وقت عبادت میں گزار کر اپنے اللہ کو راضی کرنا چاہیے۔ مغفرت کا پروانہ حاصل کرنے میں گزارنا چاہیے۔ ساری ساری رات بازاروں میں وقت گزاری کے بجائے رات کو قیمتی بنانا چاہیے۔ مومن کے لیے تو عام رات بھی تحفہ ہوتی ہے کہ اس میں وہ اللہ تعالیٰ کے زیادہ قریب ہو سکتا ہے، پھر رمضان کی رات کی تو بات ہی الگ ہے۔ لیکن اس درجہ کی کوتاہی ہے کہ ایک طرف دونوں جہانوں کا بادشاہ اپنے پاس بلارہا ہے اور دوسری طرف ہم واہیات میں لگے ہوئے ہیں۔ بہرحال ایسے تمام کام جن سے ہمارا وقت ضائع ہو، رمضان کے بابرکت اور خصوصی لمحات ہاتھ سے نکل جانے کا خطرہ تو ان تمام کاموں سے اجتناب کرنا چاہیے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ہم بھی انہیں بدبختوں میں سے ہوجائیں جو خزانوں میں سے کچھ بھی حاصل نہ کرسکیں اور نامراد لوٹ جائیں!