علم حاصل کرنے کے لیے تو گیارہ مہےنے ہیں جبکہ رمضان المبارک محض عمل کے لیے ہے۔ اس ماہ مبارک میں عمل ہی عمل ہے۔ اگر عمل ہوجائے تو بہت بڑی سعادت ہے، اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں۔
اس زمانے میں دین کا ضروری علم نہ ہونے کی وجہ سے ہم نے اپنے دین کو ایک رسمی مذہب سمجھ لیا ہے، جیسے دوسرے مذاہب ہیں جن میں عبادت کی چند بے سند رسومات کے ادا کرلےنے سے مذہب کا حق ادا ہو جاتاہے، لیکن ہمارا دین اسلام ایسا نہیں ہے۔
ہمارا دین قرآن اورسنت کے تابع ہے۔ قرآن مجید کو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے قیامت تک کے لیے ضابطہ حیات وممات بنا کر بھےجا ہے ا ور اعلان فرما دیا ہے کہ یہ ہماری آخری کتاب ہے جو آخری نبی صلی اﷲ علیہ وسلم پر نازل کی گئی۔ ہم لوگ کلام اللہ کی تلاوت کرتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ تلاوت کلام اللہ سب سے اہم عبادت ہے اور بڑی نعمت ہے،مگر صرف کلام اللہ کی تلاوت کافی نہیں بلکہ اس کلام کے اندر جو ضابطہ حیات اوراوامر و نواہی اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمائے ہیں اُن پر عمل پیرا ہونا ہم پر فرض ہے۔ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا مقررکردہ اےسا ضابطہ حیات ہے جس کا تعلق دنیا اور آخرت دونوں سے ہے۔ یہ انسان کوشرفِ انسانیت حاصل کرنے کے لیے عطا کیا گیا ہے اور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس پر عمل کر کے ہمارے لیے ایک معیار کامل پیش فرما دیا ہے، جس کے مطابق عمل کرنے سے دنیا اور آخرت میں حیات طیبہ حاصل ہوتی ہے، اسی ضابطہ حیات کا نام دین ہے۔
دوسری بات یہ ذہن نشین کرلےنے کی ہے کہ اسلام دینِ عمل ہے۔ قرآن کریم میں جگہ جگہ اچھے اعمال کرنے کی تاکید ہے اور یہ سمجھ لےجئے کہ اچھے اعمال یا دین صرف عبادات ہی تک محدود نہیں ہے، نماز پڑھ لینے، روزہ رکھ لینے، زکوٰة دے دینے اور حج وعمرہ کر لینے سے دین کا پورا حق ادا نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ کے مقررکردہ اوامر و نواہی ان کے علاوہ اور بھی ہیں جن کا تعلق عقائد وعبادات کے علاوہ، ہمارے معاملات، معاشرت اور اخلاقیات سے ہے۔ اس طرح دین کے پانچ شعبے ہیں، جب تک ان تمام شعبوں مےں اللہ جل شانہ کے احکام کے مطابق عمل نہ ہوگا نہ ایمان کامل ہوسکتا ہے ، نہ اسلام ۔ انہیں احکام الٰہیہ کے تحت ان حقوق کا ادا کرنا بھی شامل ہے جن کا تعلق والدین ، زوجین، اولاد، پڑوسی، عزیز واقارب، احباب، اہل محلہ، حکومت، عام مسلمانوں بلکہ عام انسانوں سے ہے۔ یاد رکھیں حقوق العباد میں احکامات الٰہیہ کی خلاف ورزی بہت سنگین جرم ہے، عبادات میں کوتاہی ہوجائے تو اللہ تعالیٰ اپنی شان کریمی و رحیمی سے معاف کردیں گے لیکن اگر حقوق العباد میں کوتاہی ہوجائے تو جب تک مخلوق خدا جن کی حق تلفی کی گئی ہے ان کے حقوق کی تلافی نہ کردی جائے یا ان سے معافی نہ مانگ لی جائے اُس وقت تک اللہ پاک معاف نہ فرمائےںگے اور اللہ پاک کے مواخذے سے اس وقت تک نہیں بچ سکتے۔ یہ بات بہت اہم ہے، اسے خوب سمجھ لےنا چاہیے۔
اسی طرح احکام الٰہیہ ہمارے معاشرے سے متعلق بھی ہیں کہ یہ بات جائز ہے یا نا جائز، یہ حلال ہے یاحرام۔ فی زمانہ ہمارے معاشرے کے اندرکبائر اور سنگین گناہ رائج الوقت ہوگئے ہیں جن کو ہم نے محض تفریح کا مشغلہ سمجھ لیا ہے۔ ایسے کبائر جب تک ترک نہ کئے جائیں، جب تک ان سے توبہ استغفار نہ کی جائے ہرگز معاف نہیں ہوں گے۔ گھر گھر ٹی وی، ریڈیو چل رہے ہیں، گانے بجانے، فحش ڈرامے اور فلمی گانے رائج الوقت ہورہے ہیں۔ سینما نائٹ کلب وغیرہ فواحشات ومنکرات کے اڈے بنے ہوئے ہیں۔ عورتوں کا بے محابا غیر مردوں سے ملنا جلنا تہذیب حاضرہ کا طرہ امتیاز سمجھا جاتا ہے۔ یہ سب قہرِ الٰہی کو متوجہ کرنے والے گناہ کبیرہ ہیں، روز مرہ کی زندگی میں ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ بے باکانہ جھوٹ بولتے ہیں۔ غیبت کرتے ہیں۔ لیکن دین میں فریب، خریدوفروخت میں بدمعاملگی، چوربازاری کرنا عام طور پر رائج ہے اور پھر یہ احساس بھی نہیں کہ یہ گناہ کبیرہ ہیں۔ ایسے سنگین کبائر کہ جب تک وہ ترک نہ کئے جائیں اور سچی توبہ نہ کی جائے ہرگز لائق معافی نہیں۔
عام لوگوں نے اپنی زندگی کے معاملات تہذیبِ حاضرہ کے سانچے میں اس طرح ڈھال لئے ہیں کہ اسلام سے کوئی مناسبت باقی نہیں رہی، لیکن خوب سمجھ لیجئے کہ دین وایمان کی سلامتی اسی میں ہے تم اسلام کا صحیح علم حاصل کرو اور ﷲ اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے انداز زندگی اختیار کرو اور اگر تم نے ایمانی تقاضوں کو اہمیت نہ دی اور ان رائج الوقت کبائر کی طرف سے اعراض نہ کیا بلکہ سمجھتے رہے کہ ہم مجبور ہیں۔
دورِ حاضر کے یہی تقاضے ہیں۔ ہم کو ایسا ہی معاشرہ رکھنا چاہیے۔ سب لوگ ایسا ہی کررہے ہیں۔ ہم کہاں کے ایسے متقی ہیں۔ یہ شدید غلطی ہے۔ اس خوش فہمی سے توبہ کیجئے، نہیں تو توبہ کی توفیق نہ ہوگی، کیونکہ جس چیز کو تم ناجائز اور گناہ ہی نہیں سمجھتے تو پھر اس سے توبہ کیا کروگے۔