اِسلام اعتدال پسندی اور میانہ روی کا درس دیتا ہے۔ اس کے ہر رکنِ عبادت میں یہی درس دیا گیا ہے کہ وہ عبادت جو کم مگر مستقل کی جائے وہ بہت پسندیدہ ہے۔ کثرت خواہ کسی بھی چیز کی ہو قابل گرفت ہوتی ہے۔ انسانی صحت کے لیے کثرتِ طعام، کثرت کلام اورکثرت منام انتہائی نقصان دہ ہے۔ کثر طعام سے جسم بے شمار بیماریوں کی آماجگاہ بن جاتا ہے۔ کثرتِ کلام بعض اوقات انسانی رشتوں سے قطع تعلق تک کی بنیاد بن جاتا ہے اور کثرت منام یعنی زیادہ سونا سستی اور کاہلی کا سبب ہے۔
رمضان المبارک نیکیوں کا موسم بہار ہے۔ اس موسم کا صحیح لطف وہی اٹھاتے ہیں جو تزکیہ نفس کے ذریعہ قرب الٰہی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اِسلامی سال کا یہ ماہِ مقدس اللہ کی رحمتوں اور عطا کی بخشش کا مہینہ ہے، ہر ہر نیکی کا اجر ستر گنا تک ملتا ہے۔ وہ بہنیں جو ہر وقت منہ میں کچھ نہ کچھ ڈالتی رہتی ہیں اُن کے لیے سلمنگ سینٹر جائے بغیر روزے کے ذریعے اچھی خاصی ڈائٹنگ کی عادت پڑجاتی ہے۔ ماہ رمضان کے روزے ان کے ہر وقت کھانے کی عادت پر کافی حد تک قابو پانے میں مدد گار ثابت ہوتے ہیں۔ بہت زیادہ، موقع بے موقع، جابے جا بولنے والی خواتین کی زبان بندی کے لیے یہ انتہائی مجرب نسخہ ہے۔ انسانی اعضاء جسم میں زبان ہی وہ عضو ہے جو تمام برائیوں کا سبب ہے۔ اگر یہ قابو میں رہے تو تمام اعضاءعافیت میں رہتے ہیں اور اگر اسی پر قابو نہ رہے تو انسان کے تمام اعضاءگناہ میں ملوث ہوجاتے ہیں۔ گوشت یہ چھوٹا سا لوتھڑا دوسروں کی دل آزاری، تضحیک، طعن و تشنہ بدخوئی، غیبت، گالی گلوچ میں سب سے اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اگر محض اسی کی رفتار پر قابو پالیا جائے تو معاشرے میں سکھ ہی سکھ ہے۔
رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں زبان کو قابو پانا بہت ضروری ہے۔ یہ ایسا خود احتسابی اور ضبط نفس کا مہینہ ہے جس میں ہم اپنی کمزوریوں پر قابو پاسکتے ہیں اور اس کا حکم دیا گیا ہے کہ ”جس نے روزہ رکھ کر جھوٹ بولنا اور غیبت کرنا نہ چھوڑا تو اللہ تعالیٰ کو ایسے بندے کا کھانا پینا چھوڑنے کی کوئی حاجت نہیں۔“ اگر کوئی برائی پر اکسائے جھگڑا کرے تو اس سے کہہ دیا جائے کہ ”میں روزے سے ہوں“۔ یعنی اب مجھ سے کسی برائی کی توقع نہ رکھی جائے۔ یہ ماہِ مبارک خواتین کے لیے باعثِ رحمت ہے۔ اگر وہ قلیل طعام، مختصر گفتگو اور عبادت و قیام اللیل سے ذہنی اور جسمانی آسودگی حاصل کریں۔ وہ خواتین جو بہت زیادہ غیبت کرنے یا بدگمانی کرنے کی عادی ہیں اُن کے لیے زبان کو ایک ماہ تک روک کر رکھنا بڑا مشکل ہوجائے گا۔ مگر اس پر ایک ماہ تک اگر سختی سے قابو پالیا تو خداوند کریم سے اُمید ہے کہ وہ آیندہ بھی اس برائی سے نجات دے گا۔
غیبت وہ برائی ہے جسے خواتین برائی نہیں سمجھتیں اور میں تو کہتی ہوں ’کھری بات چاہے کسی کے آگ لگے‘ کے مصداق دوسرے کی عزت سرِ عام نیلام کردیتی ہیں اور اس کے معاوضے میں اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانے میں جھجک محسوس نہیں کرتیں۔ اگر واقعی اپنی اس برائی پر قابو پانے میں ناکام رہی ہیں تو ہر مرتبہ جب کسی کی غیبت کو دل اور زبان بے قرار ہو، تین مرتبہ لاحول و لاقوة الا باللہ العلی العظیم اور رب اغفر وارحم و انت خیر الراحمین پڑھ کر اپنے سینے پر دم کریں۔ دن بھر جب بھی اس برائی پر طبیعت آمادہ ہو، اسی عمل کو دوہرائیں، نیکیوں کی پھوار میں اضافہ ہوگا اور غیبت سے نفرت ہوجائے گی۔ کسی سے حسد محسوس ہو، (جو خواتین میں کثرت سے ہوتا ہے) سورہ فلق اور سورہ ناس پڑھ کر اپنے اوپر دم کریں۔ چلتے پھرتے اللھم اجرنی من النار اور اللھم انک عفو تحب العفو فاعف عنّی پڑھیں۔ اِلہٰ العالمین ان دعاﺅں کی برکت سے ہماری ذہنی اور لسانی بیماریوں کو شفاءکلی عطا کرے گا۔ خواتین اپنی ہر دعا کا اِن شاءاللہ دوہرا اجر پائیں گی۔ دوہرا اس لیے کہ خرابی کو دور کرنے کی شعوری کوشش کا ثواب انہیں ملے گا ہی اور جو دعاﺅں کا اجر و ثواب ہے اس کے لیے یقینا وہ مستحق ٹھہریں گی۔ یوں بھی خواتین اپنے گھریلو کام کاج، سحر و افطار کا انتظام بچوں کی دیکھ بھال کے ساتھ اللہ کی رضا و خوشنودی کا اہتمام کریں گی تو پسندیدہ قرار پائیں گی۔ ان تمام گھریلو ذمہ داریوں کے ساتھ تلاوتِ کلام پاک، تراویح، تہجد قیام اللیل کا اہتمام انہیں مرد حضرات کے ساتھ ثواب میں برابر کی شرکت کا حقدار ٹھہراتا ہے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا مفہوم ہے کہ :پوری زندگی خیر کے کاموں کو لگاﺅ۔ اپنے رب کی (رحمت کے) خصوصی اوقات کی تلاش میں رہو۔ بے شک ان اوقات میں اللہ کی رحمت کے خاص جھونکے چلتے ہیں اور اللہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے اسے فائدہ پہنچاتا ہے۔ خواتین کے لیے نیکی کے کاموں میں مسابقت کا یہ سنہری موقع ہے کہ صبح سے شام تک سحر و افطار کی تیاری کے ساتھ ساتھ قرآن مجید ترجمے سے پڑھیں۔ زیادہ سے زیادہ صدقہ و خیرات دیں۔ نوافل ادا کریں۔ روزہ کے ساتھ ساتھ قرآن مجید ترجمے سے پڑھیں۔ روزے دار کا روزہ کھلوائیں۔ خوش نصیب ہیں وہ خواتین جو ان مقدس لمحات سے فائدہ اٹھاکر اللہ کی قربت کا بہانہ ڈھونڈھتی ہیں اور عبادتوں اور ریاضتوں کے ذریعے پاکیزگی نفس حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ عام طورپر خواتین کے بارے میں یہ رائے ہے کہ وہ دن بھر کھانا پکانے اور افطار کے لیے مختلف ڈشز تیار کرنے میں گزار دیتی ہیں اور روزے کے بعد عید کی تیاری اور اس کی خریداری میں بقیہ وقت صرف کرتی ہیں۔ نتیجتاً بالیدگی روح، انابت الیٰ اللہ، نعمتوں کی قدروقیمت اور عطائے الٰہی سے محروم رہ جاتی ہیں۔ آپ اس رائے کو سختی سے مسترد کردیں اور اپنی دنیاوی مصروفیات کم کرکے قربت الیٰ اللہ حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ پورے خلوص اور تقویٰ اور خشیت الٰہی کے ساتھ سحر و افطار کا سادگی سے اہتمام کریں۔
دن کا بیشتر حصہ کلام الٰہی کی تلاوت میں صرف کریں۔ زیادہ سے زیادہ غریبوں کی مدد کریں۔ تہجد تراویح اور قیام اللیل کی پابندی کریں اور اس حدیث قدسی کو ذہن میں رکھیں کہ رمضان کے دنوں میں نفلی اعمال و عبادت سے قربت الٰہی کا وہ درجہ ملتا ہے جو عام دنوں میں کسی فرض کی ادائیگی سے ملتا ہے اور جو شخص رمضان میں ایک فرض ادا کرتا ہے اسے ستر فرضوں کے برابر اجر و ثواب دیا جاتا ہے۔ اس ماہ میں صدقہ و خیرات کی بہت زیادہ فضیلت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس ماہ مبارک میں دیگر مہینوں سے زیادہ سخاوت فرماتے تھے۔ یوں بھی غزہ و فلسطین میں لاکھوں لوگ بے گھر ہوگئے ہیں۔ ان کی امداد دل کھول کر کیجیے۔ اپنے اور اپنے بچوں کے عید کے لیے چار جوڑوں کے بجائے صرف دو جوڑے بنائیں، دو جوڑے ان یتیم اور بے گھر، بے در بچوں کو بھجوادیں جن کے سرپرست مجبور اور بے کس ہیں۔ آپ کی خلوص نیت اور خوش دلی سے کی جانے والی یہ تھوڑی سی امداد بہت سے بچوں کی آنکھوں میں عید کی خوشیوں کی چمک پیدا کرنے کا سبب بنے گی۔
رمضان کے تیس روزوں میں سحری کے لیے اٹھنا، افطار کی تیاری کرنا، تہجد، تراویح اور قیام اللیل کا اہتمام کرنا یقینا خواتین کے لیے روحانی مدارج میں اضافے کا سبب ہے۔ رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کے لیے بیٹھنا روح اور جسم دونوں کے لیے قربت الٰہی کی عملی مشق ہے۔ یقینا اللہ کی کامل اطاعت کا شوق ہی تعلیمات شریعت کی تعمیل پر مجبور کرتا ہے، لہٰذا ضروری ہے کہ خوتین اس بابرکت مہینے میں پورے اطمینان قلب کے ساتھ اعمال صالح سے مستفید ہوں۔ نیکیوں کی برکھا کا پورا لطف اٹھائیں اور اجر و ثواب میں پورا پورا معاوضہ اپنے رب سے وصول کریں۔ آخری عشرے کی طاق راتوں میں سے ایک رات ’شب قدر‘ بھی ہے، جس میں ایک رات کا ثواب ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اس لیے اس رات کی مخصوص دعا ’ اللھم انک عفو تحب العفو فاعف عنی‘ زیادہ سے زیادہ پڑھیں۔ اٹھتے بیٹھتے چلتے پھرتے باورچی خانے میں افطار اور سحر کا اہتمام کرتے ہوئے اس دعا کو وردِ زبان رکھیں۔ شب قدر میں نوافل، صلوٰة التسبیح، تہجد، تلاوت کلام پاک پڑھیں۔
یاد رکھیں یہ ماہ مبارک ایسا مقدس مہینہ ہے جس میں روزے کے ذریعے اخلاق، ایمانِ صادق اور مخلصانہ بندگی کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ جواہر اخلاق نکھر کر آجاتے ہیں۔ مسلسل مشق سے ضمیر میں پاکیزگی، ضبط نفس اور صبر و استقامت پیدا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کی کاوشوں کو قبول فرمائے اور نیکیوں کے اس موسم بہار کے ایک ایک لمحے سے مستفید ہونے کی توفیق عطا کرے اور اس کے جھونکے ہمارے مشام جاں کو معطر کرتے رہیں۔
