17رمضان، یوم وفات اُم المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا

مولانا مجیب الرحمن انقلابی

اُم المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا وہ خوش قسمت ترین عورت ہیں کہ جن کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ اور ’ام المومنین‘ ہونے کا شرف اور ازواج مطہرات میں ممتاز حیثیت حاصل ہے۔قرآن و حدیث اور تاریخ کے اوراق آپ کے فضائل و مناقب سے بھرے پڑے ہیں اور روشن ہیں۔ ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے شادی سے قبل حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب میں دیکھا کہ ایک فرشتہ ریشم کے کپڑے میں کوئی چیز لپیٹ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کر رہا ہے۔ پوچھا کیا ہے؟ جواب دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی ہے۔ آپ نے کھول کہ دیکھا تو حضرت عائشہ ہیں۔ (از صحیح بخاری مناقب عائشہؓ) ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا خود فرماتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے نو باتیں ایسی عطا فرمائی ہیں جو دنیا میں میرے سوا کسی کو عطا نہیں ہوئیں۔
(۱) خواب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے فرشتے نے میری تصویر پیش کی۔ (۲) جب میں سات برس کی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے نکاح کیا۔(۳) نو برس کی عمر میں میری رخصتی ہوئی۔ (۴) میرے سوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کوئی اور کنواری بیوی نہ تھی۔(۵) حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب میرے پاس ہوتے تب بھی وحی آتی تھی۔ (۶) میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبوب ترین بیوی تھی۔ (۷) میری شان میں قرآنی آیات نازل ہوئیں، (۸) میں نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کو اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ (۹) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری ہی گود میں سر مبارک رکھے ہوئے وفات پائی۔(مستدرک حاکم)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت عائشہ صدیقہؓ سے بہت محبت تھی۔ ایک مرتبہ حضرت عمرو ابن عاصؓ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں سب سے زیادہ کس کو محبوب رکھتے ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ عائشہؓ کو۔ عرض کیا گیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! مردوں کی نسبت سوال ہے۔ فرمایا کہ عائشہ کے والد (ابوبکر صدیق) کو۔ (صحیح بخاری) آپ ؓ کا نام عائشہ، لقب صدیقہ اور حمیرا، خطاب ام المو¿منین اور کنیت اُم عبداللہ ہے۔ چونکہ آپؓ صاحبِ اولاد نہ تھیں اس لئے آپؓ نے اپنی بہن حضرت اسمائؓ کے صاحبزادے اور اپنے بھانجے عبد اللہ بن زبیرؓ کے نام پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق اپنی کنیت اُم عبداللہ اختیار فرمائی۔ (ابوداﺅد کتاب الادب) حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے والد کا نام عبداللہ، ابوبکر کنیت اور صدیق لقب تھا۔ ماں کا نام اُم رومان تھا۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا سلسلہ نسب باپ کی طرف سے ساتویں پشت اور ماں کی طرف سے گیارہویں یا بارہویں پشت میں جا کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے مل جاتا ہے۔
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی پیدائش سے چار سال قبل ہی آپؓ کے والد ماجد سیدنا حضرت ابوبکر صدیق ؓ دولت اسلام سے مالا مال ہو چکے تھے اور آپ ؓ کا گھر نورِ اسلام سے منور ہو چکا تھا، اس لیے آپؓ نے آنکھ کھولتے ہی اسلام کی روشنی دیکھی۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ پر اللہ تعالیٰ کا یہ خاص انعام ہے کہ انھوں نے کبھی کفر و شرک کی آواز تک نہیں سنی۔ چنانچہ وہ خود ہی ارشاد فرماتی ہیں کہ جب سے میں نے اپنے والد کو پہچانا اُن کو مسلمان پایا۔ (بخاری حصہ اوّل) حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کا ”کاشانہ نبوت“ میں حرم نبوی کی حیثیت سے داخل ہونے کے بعد قرآن مجید کا ایک بڑا حصہ نازل ہوا۔ آپ ؓ کو کم و بیش دس سال حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہنے کا شرف حاصل ہوا۔
خود صاحبِ قرآن (حضورصلی اللہ علیہ وسلم) سے قرآن سنتیں، جس آیت کا مطلب سمجھ میں نہ آتا حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا مفہوم سمجھ لیتیں۔ اسی ”نورخانہ“ میں آپؓ نے کلامِ الٰہی کی معرفت، ارشاداتِ رسالت کا علم، رموز و اسرارِ دین کی عظیم الشان واقفیت حاصل کی۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کو علم دینیہ کے علاوہ تاریخ، ادب اور طب کے علوم میں بھی کافی مہارت تھی۔ غرضیکہ اللہ ربُّ العزت نے آپ ؓ کی ذاتِ اقدس میں علم انساب، شعروشاعری، علوم دینیہ، ادب و تاریخ اور طب جیسے علوم جمع فرما دیئے تھے۔حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا سات سال کی عمر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح ہوا اور نو برس کی عمر میں رخصتی ہوئی۔ اتنی کمسنی میں حضرت عائشہ ؓ کا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر آنا گہری حکمتوں اور اعلیٰ دینی فوائد سے خالی نہیں۔ بقول حضرت سید سلمان ندویؒ: ”کم سنی کی اس شادی کا ایک منشا نبوت اور خلافت کے درمیان تعلقات کی مضبوطی بھی تھی۔“ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ بچپن ہی سے نہایت ہی ذہین و فطین اور عمدہ ذکاوت کی مالک تھیں۔ مولانا سید سلمان ندوی رقمطراز ہیں کہ ”عموماً ہر زمانے کے بچوں کا وہی حال ہوتا ہے جو آج کل کے بچوں کا ہے کہ سات آٹھ برس تک تو انہیں کسی بات کا مطلق ہوش نہیں ہوتا، اور نہ ہی وہ کسی بات کی تہہ تک پہنچ سکتے ہیں، لیکن حضرت عائشہ ؓ لڑکپن کی ایک ایک بات یاد رکھتی تھیں، ان کی روایت کرتی تھیں، ان سے احکام مستنبط کرتی تھیں، لڑکپن کے کھیل کود میں کوئی آیت کانوں میں پڑ جاتی تو اسے بھی یاد رکھتی تھیں، ہجرت کے وقت ان کا سن عمر آٹھ برس تھا لیکن اس کم سنی اور کم عمری میں ہوش مندی اور قوت حافظہ کا یہ حال تھا کہ ہجرتِ نبوی کے تمام واقعات بلکہ تمام جزوی باتیں ان کو یاد تھیں، ان سے بڑھ کر کسی صحابی ؓ نے ہجرت کے واقعات کو ایسی تفصیل کے ساتھ نقل نہیں کیا ہے۔ (از سیدہ عائشہ ؓ صفحہ۳۳)
اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ جس گھر میں دلہن بن کر آئی تھیں، وہ کوئی عالیشان اور بلند و بالا عمارت پر مشتمل نہ تھا، مسجد نبوی کے چاروں طرف چھوٹے چھوٹے متعدد حجرے تھے اُن ہی میں ایک حجرہ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کا مسکن تھا۔ یہ حجرہ مسجد کی شرقی جانب تھا، اس کا دروازہ مسجد کے اندر کھلتا تھا، گھر یا حجرے کا صحن ہی مسجد نبوی کا صحن تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اسی دروازہ سے ہوکر مسجد میں تشریف لے جاتے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں اعتکاف کرتے تو سر مبارک حجرے کے اندر کردیتے۔ حضرت عائشہ ؓ اسی جگہ بالوں کو کنگھا کر دیتی۔ (صحیح بخاری بحوالہ سیدہ عائشہ صفحہ ۱۴) حجرے کی وسعت چھ سات ہاتھ سے زیادہ نہ تھی، دیواریں مٹی کی تھیں، چھت کو کھجوروں کی ٹہنیوں سے ڈھانک کر اوپر کمبل ڈال دیا گیا تھا کہ بارش سے محفوظ رہے۔ بلندی اتنی تھی کہ آدمی کھڑا ہوتا تو ہاتھ چھت کو لگ جاتا، گھر کی کل کائنات ایک چارپائی، ایک چٹائی، ایک بستر، ایک تکیہ (جس میں کھجوروں کی چھال بھری ہوئی تھی) آٹا اور کھجوریں رکھنے کے لیے دو برتن تھے، پانی کے لیے ایک بڑا برتن اور پانی پینے کے لیے ایک پیالہ تھا۔ کبھی کبھی راتوں کو چراغ جلانا بھی استطاعت سے باہر تھا، چالیس چالیس راتیں گزر جاتیں اور گھر میں چراغ نہیں جلتا تھا۔ (از مسند طیالسی صفحہ ۷۰۲)
اُم المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ کو بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ صرف محبت تھی بلکہ شغف و عشق تھا۔ اُم المو¿منین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و فرمانبرداری اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسرت و رضا کے حصول میں شب و روز کوشاں رہتیں۔ اگر ذرا بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ پر خزن و ملال اور کبیدہ خاطری کا اثر نظر آتا تو بے قرار ہو جاتیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قرابت داروں کا اتنا خیال تھا کہ ان کی کوئی بات ٹالتی نہ تھیں۔ اُم المو¿منین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہؓ نے بچپن سے جوانی تک کا زمانہ اس ذاتِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں بسر کیا جو دنیا میں مکارم اخلاق کی تکمیل کے لیے آئی تھی۔ چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کا اخلاق نہایت ہی بلند تھا۔ آپؓ نہایت سنجیدہ، فیاض، قانع عبادت گزار اور رحم دل تھیں۔ آپؓ زہد و قناعت کی وجہ سے صرف ایک جوڑا پاس رکھتی تھیں اسی کو دھو دھو کر پہنتی تھیں۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا عبادتِ الٰہی میں اکثر مصروف رہا کرتیں تھیں۔ دیگر نمازوں کے ساتھ ساتھ رات کو اٹھ کر نماز تہجد ادا فرمایا کرتی تھیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بھی اس نماز کی پابندی میں کوئی فرق نہیں آیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سوال کے جواب میں فرمایا کہ عورتوں کے لئے حج ہی جہاد ہے، اس لیے حضرت عائشہ صدیقہؓ حج کی بہت زیادہ پابندی فرمایا کرتی تھیں اور تقریباً ہر سال حج کے لیے تشریف لے جاتیں۔ (بخاری شریف) حج کے بعد عمرہ بھی ادا کرتیں، آخر رمضان میں جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم اعتکاف فرماتے تو حضرت عائشہ صدیقہ ؓ بھی اتنے ہی دن صحن میں خیمہ نصب کروا کر اعتکاف میں گزارتیں۔ قناعت کا جذبہ عورتوں میں بہت کم پایا جاتا ہے لیکن حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی ذات اقدس میں قناعت کی صفت بدرجہ اتم موجود تھی۔ ان کی تقریباً ساری زندگی ہی عسرت و تنگی اور فقرو فاقہ میں گزر گئی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا خود فرماتی ہیں کہ ہم پر پورا ایک ایک مہینہ گزر جاتا اور گھر میں آگ تک نہ جلاتے، ہماری غذا پانی اور چھوہارے ہوتے تھے مگر کہیں سے تھوڑا سا گوشت آ جاتا تو ہم کھا لیتے۔ (بخاری شریف)
اُم المو¿منین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہؓ کے اخلاق کا سب سے ممتاز جوہر اُن کی طبعی فیاضی اور کشادہ دستی تھی۔ خیرات میں تھوڑے بہت کا لحاظ نہ کرتیں، جو موجود ہوتا سائل کی نذر کر دیتیں۔ سیدنا حضرت امیر معاویہؓ نے ایک مرتبہ ایک لاکھ درہم بھیجے، شام ہونے تک سب محتاجوں کو دے دلا دیا۔ حضرت ابن زبیرؓ نے ایک دفعہ دو بڑی تھیلیوں میں ایک لاکھ کی رقم بھیجی، انھوں نے ایک طبق میں یہ رقم رکھ لی اور اس کو بانٹنا شروع کیا اور اس دن بھی آپؓ روزہ سے تھیں۔ لیکن افطاری کے لیے بھی رقم نہ بچائی۔ آپؓ بہت زیادہ رقیق القلب تھیں۔ بہت جلد رونے لگتی تھیں، دل میں خوف اور خشیت الٰہی تھی۔ ایک دفعہ کسی بات پر قسم کھا لی تھی، پھر لوگوں کے اصرار پر ان کو اپنی قسم توڑنی پڑی اور گو کہ اس کے کفارے میں چالیس غلام آزاد کئے، تاہم ان کے دل پر اتنا گہرا اثر تھا کہ جب یاد کرتیں روتے روتے آنچل تر ہوجاتا۔ (بخاری باب الہجرت) اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کی صفائی میں سترہ قرآنی آیات نازل ہوئیں۔ اسی طرح غزوہ ذات الرقاع کے موقع پر بھی حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی وجہ سے تیمم کا قرآنی حکم نازل ہوا۔
اُم المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ کا اُمت مسلمہ پر بہت بڑا احسان ہے کہ ان کے مبارک واسطے سے اُمت کو دین کا بڑا حصہ نصیب ہوا۔ صحابہ کرام ؓ کی ربانی جماعت کے وہ قابل فخر و ناز افراد جنھوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات و فرمودات اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدوسی حرکات و سکنات کثرت سے نقل کیے، اُن میں حضرت سیدہ عائشہؓ کا چھٹا نمبر ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دو ہزار دو سو دس حدیثیں مروی ہیں۔حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ فرماتے ہیں کہ ہم اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کوئی ایسی مشکل کبھی پیش نہیں آتی جس کو ہم حضرت عائشہؓ سے پوچھا ہو اور ان کے پاس اس کے بارے میں کوئی معلومات ہم کو نہ ملی ہوں۔ امام زہریؒ فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہؓ تمام لوگوں میں سب سے زیادہ عالم تھیں، بڑے بڑے صحابہ ؓ ان سے پوچھا کرتے تھے۔
سنہ 58ھ میں حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ کی عمر 67سال کی ہو چکی تھی، اسی سال ہی رمضان المبارک میں آپؓ بیمار ہوئیں، چند روز علالت کا سلسلہ جاری رہا، زمانہ علالت میں جب کوئی مزاج پرسی کرتا تو فرماتیں” اچھی ہوں“۔ (ابن سعد) 17 رمضان المبارک سنہ 58 ہجری کی رات، رحمت دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی حرم اور تمام مسلمانوں کی ماں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اپنے فرزندوں پر بے شمار احسانات کی بارش فرما کر ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئیں۔ سیدنا حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہا نے نماز جنازہ پڑھائی اور آپ ؓ کو وصیت کے مطابق جنت البقیع میں دفن کیا گیا۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہا!