فرضیت ِرمضان اور اس کی حکمتیں (مولانا ندیم الرشید)

روزہ ارکانِ اسلام کا تیسرا رکن ہے۔ ایمان لانے یعنی کلمہ طیبہ اور نماز کے بعد فرضیت کا درجہ رکھتا ہے۔

قرآن مجید میں اللہ ربُّ العزت اس کی فرضیت کو یوں بیان کرتے ہیں، ترجمہ: اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے، جس طرح تم سے پہلی امتوں پر روزے فرض کیے گئے تھے، تاکہ تم متقی بن جاﺅ۔‘ دوسری صدی ہجری میں تحویلِ کعبہ کے واقعے سے کم وبیش دو ہفتے بعد روزے کی فرضیت کا یہ حکم نازل ہوا اور رمضان المبارک کو ماہِ صیام قراردیا گیا۔ اسی آیت مبارکہ خداوند کریم نے رمضان کی حکمت انسان کو پرہیز گار بنانا بیان کیا ہے۔
سال بھر کا ایندھن :
جس طرح انسان کو سفر درپیش ہو، اسے کسی خاص منزل یا ہدف تک پہنچنا ہو تو یہ سفر اس وقت ہی ممکن ہوسکے گا جب گاڑی مسلسل چلتی رہے اور اسے برابر ایندھن ملتا رہے۔ اسی طرح انسان بھی شاہراہِ حیات کا مسافر ہے۔ اس کی منزل آخرت ہے۔ دنیا، آخر ت تک پہنچنے کا راستہ ہے، دنیا سے گزر کر آخرت تک پہنچنے کے لیے ہماری گاڑی کو ایندھن کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ رمضان کا مہینہ آخرت کے سفر میں آنے والا وہ پڑاو ہے جہاں زندگی کی گاڑی ایک سال کا سفر طے کرکے پہنچتی ہے۔ اپنی روح کی گاڑی میں بیٹھ کر جب ہم رمضان کے پڑاو تک پہنچتے ہیں تو ہماری گاڑی کا بہت سارا ”کام“ نکل آتا ہے۔ اسے ”سروس“ کی بھی ضرورت ہوتی ہے، خراب پُرزوں کی دیکھ بھال اور ”مینٹینس“ کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ اگلے پڑاو تک سفر جاری رکھنے کے لیے سال بھر کا ایندھن بھی چاہیے ہوتا ہے۔ چنانچہ ”رمضان سرائے“ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمیں یہ تمام سفری ضروریات مہیا کردی جاتی ہیں، یوں ہماری زیست کی گاڑی ایک مرتبہ پھر سال بھر کا روحانی ایندھن لے کر سفر آخرت کی طرف رواں دواں ہوجاتی ہے۔
رمضان کی حکمتیں ایک نئے پیرائے سے :
رمضان کے مقدس مہینے میں باری تعالیٰ اپنے بندوں کے لیے ایک ماہ کا تربیتی کورس منعقد کرتے ہیں۔ اس کو رس کو باقاعدہ طور پر اور پورے نظم وضبط کے ساتھ چلایا جاتا ہے، ایک ماہ کی ٹریننگ میں زندگی کے ”چلتے ہوئے معمولات“ کو تبدیل کردیا جاتا ہے، حتی کہ کھانے، پینے، سونے، جاگنے، آرام اور عبادت کے لیے بندوں کو اپنا پورا ” نظام الاوقات“ تبدیل کرنا پڑتا ہے۔ اس کورس یا تربیتی سیشن میںجن اہم امور کی مشق کروائی جاتی ہے، وہ کچھ اس طرح ہیں:
صبر اور ماہ صیام :
حدیث شریف میں ماہ صیام کو ماہ صبر قرار دیا گیا ہے۔ صبر کامعنی ہے رکنا۔ جب آدمی اللہ کے لیے سارا دن کھانے پینے اور لغویات سے رکتا ہے تو اس کے اندر اللہ کے لیے لوگوں کی باتیں برداشت کرنے، انہیں معاف کرنے اور ان کے ساتھ خیر خواہی کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ صبر کی قوت مل جانے سے زندگی پُرسکون ہوجاتی ہے۔ انسان کے مزاج میں نرمی آجاتی ہے۔ اجتماعی اور انفرادی امورِ حیات کو سلیقے کے ساتھ نبھانے کا ملکہ پیدا ہوجاتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ انسان کو اللہ تعالیٰ کا ساتھ نصیب ہوجاتا ہے۔ جیسا کہ ارشاد ربانی ہے، ترجمہ: صبر کرو، بے شک اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘
احسا س اور درد مندی :
حدیث شریف میں ہے کہ ’رمضان غمخواری کا مہینہ ہے، روزے کے ذریعے انسانی نفس کو ”احساس“ کی تربیت بھی کروائی جاتی ہے اور ”دردمندی کا سبق “ بھی یاد کروایا جاتا ہے۔ اپنی بھوک اور پیاس انسا ن کو دوسروں کی بھوک اور پیاس سے آشنا کراتی ہے اور روزے دار کو دنیا کے رنگین دھوکے سے نکا ل کر ایک خالص حقیقت کا مشاہدہ کرواتی ہے، جس سے انسان کے دل کا زنگ اترتا ہے اور وہ اپنی ذات کے حصار کو توڑکر امت کے وجود کا حصہ بن جاتا ہے۔ پھر امت کے جسم میں کہیں بھی تکلیف ہو وہ اسے اپنی تکلیف محسوس کرتا ہے۔ امت کا درد اسے بھی بے چین کردیتا ہے اور امت کا غم اسے بھی نڈھال کردیتا ہے۔ اسی طرح روزہ فرد کا تعلق پوری امت کے ساتھ جوڑتا ہے اور مسلمانوں کو ایک دوسرے کے دکھ درد کا ساتھی بناتا ہے۔
شیطان سے مقابلے کی تربیت :
انسان کا سب سے بڑا دشمن شیطان ہے اور ایسا دشمن ہے جو کبھی بھی ہتھیار ڈال کر نہیں بیٹھتا، بلکہ ہر لمحہ مرتے دم تک اپنے داو پیچ کھیلتا رہتا ہے۔ اس کی دوچالیں ایسی ہیں جو انتہائی خطرناک ہیں۔ قرآن پاک میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے بھی ان کو ذکر کیا ہے، ترجمہ: شیطان تمہیں بھوک کا خوف دلاتا ہے اور بے حیائی کا حکم دیتا ہے۔‘ روزہ انسان کے دل سے بھوک کا خوف نکال دیتا ہے اور بے حیائی کا دروازہ بھی بند کردیتا ہے۔ شیطان انسان کے دل میں یہ خیال ڈالتا ہے کہ آج کے دور میں سادگی کے ساتھ زندگی بسر نہیں کی جاسکتی، وگرنہ بھوکے مرجاو¿ گے۔ روزہ اس بات کی تربیت کرتا ہے کہ بھوک سے کوئی نہیں مرتا، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے گھر میں کئی کئی دن تک چولہا نہیں جلتا تھا، صحابہ روزے کی حالت میں دشمن کے خلاف جہاد کرتے تھے، کھانے کے لیے کچھ نہیں ہوتا تھا تو صرف پانی اور کھجور پر ہی اکتفاء کرتے تھے اور پھر بھی صحت مند رہتے تھے۔
آج مغرب کی شیطانی تہذیب زرپرستی کا عادی بنانے کے لیے مسلمانوں کو ڈراتی ہے۔ رپورٹیں شائع ہوتی ہیں فلاں مسلمان ملک میں اتنے فیصد لوگ خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ اگر خطِ غربت کو معیار بنایا جائے تو پھر انبیاءکرام علیہم السلام میں سے تو کوئی بھی اس کے معیار پر پورا نہیں اترتا، بظاہر سبھی کی زندگی خطِ غربت سے نیچے دکھائی دے گی۔ ”غریب ہونا“ کوئی بری بات نہیں، اپنے ہاتھ سے روزی کمانے والا تو اللہ تعالیٰ کا دوست ہے، لیکن بے حیا ہونا بہت بری بات ہے۔ قرآن پاک میں بے حیائی پھیلانے والوں کی سزا’ قتلوا تقتیلا ‘ بیان کی گئی ہے۔ آج طاغوتی قوتوں نے شیطانی منصوبے کے تحت پوری دنیا کو بھوک کے خوف میں مبتلا کررکھا ہے اوربے حیائی کو عام کر دیا ہے۔ عالمی بینک غربت کے خاتمے کے نام پر سربراہان مملکت کو قرض دیتا ہے اور انہیں اپنے اپنے ممالک میں بے حیائی کے فروغ کے ساتھ مشروط کرتا ہے۔ مغربی ممالک کی این جی اوز غریب ملکوں میں غریبوں کی امداد اور فلاحی منصوبوں کی آڑ میں فحاشی کے منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچاتی ہیں اور روشن خیالی کا نعرہ لگواتی ہیں۔ غریب ہونا، کم کھانا یا بھوکا رہنا کوئی بری یا عیب کی بات نہیں، اسے برا سمجھنا شیطانی دھوکا ہے۔ معروف کتاب ’The world until yesterday‘ میں تہذیبِ جدید ہی کے ایک محقق ’جیئرڈ ڈائمنڈ ‘ نے لکھا ہے کہ بھوکا رہنے والا آدمی نہیں مرتا، بلکہ زیادہ کھانے ولا مرتا ہے۔ شاعر مشرق نے کہا تھا
وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا
اس کے بدن سے روح محمد نکال دو
روزہ ”روح محمد“ پیدا کرنے کا ذریعہ ہے، جس کے سامنے شیطان کا کوئی مکر کوئی فریب، کوئی دجل، کوئی داو، کوئی چال، کوئی جال اور کوئی ہتھیار نہیں چل سکتا۔