ماہ ِرمضان ۔ اِسلامی ممالک کی چند انوکھی روایات (علی ہلال)

پوری اسلامی دنیا کی طرح ایشیا کے اہم اسلامی ملک، ملائیشیا میں ماہ صیام کی چند الگ ومنفرد روایات ہیں ۔اسلامی تعلیمات کے ساتھ ساتھ ملائیشیا کی قدیم روایات اوررسم ورواج کا حسین امتزاج ملائیشیا کے رمضان کا حسن دوبالاکرکرتا ہے۔

ملائیشیا میں اگرچہ کچھ عرصے سے ماہ رمضان کی روایتی رونقیں متاثر ہیں، مگر وہ رمضان کی روحانی برکتوں اور سماجی وفلاحی سرگرمیوں کو چھوڑنے کے لیے تیارنہیں، بلکہ حکمت اور سلیقے کے ساتھ رمضان کی مسرتوں سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔ ملائیشیا کے باشندے شعبان کی آخر ی رات جاگ کرگزارنے کے عادی ہیں اوراس قدیم روایت پر اس سال بھی عمل کیاگیا ہے۔ملائیشیا میں ماہ رمضان کی مشہور ڈش بوبور لامبو نامی سوپ ہے ۔جسے بڑ ے پیمانے پر دیگوں میں بناکر مساجد میں تقسیم کرنے کارواج ہے۔کوالالمپور کی مشہور مسجد کامبونغ بارو میں یومیہ 20دیگیں سوپ بنائی جاتی ہیں ۔ مسجد کی انتظامیہ ہی اس کی تیاری کے انتظامات کرتی ہے۔ملائیشیا کے رمضان بازار بھی بڑے مشہور ہےں۔ ماہ رمضان سے قبل ہی جگہ جگہ رمضان بازار کھل جاتے ہیں ۔زیادہ تر روزہ دار نماز تراویح کے بعد رات کے کھانے ’مورے‘ سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔جن میں روایتی پکوان اور گرم چائے شامل ہوتی ہے۔ملائیشیا میں غیرمسلم بھی ماہ رمضان میں مسلمانوں کے ساتھ شریک ہوکر رمضان کی مسرتوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ ملائیشیا میں ماہ رمضان کے ذکر اورقرآنی حلقے خاصے مشہور ہیں ۔ لوگ گھروں اورمساجد میں حلقے لگاکر ذکر کرتے ہیں اور تلاوت کرتے ہیں ۔
ماہ رمضان میں دنیا کے مختلف اسلامی ممالک میں انوکھے رسم و رواج اور روایات کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ اسلامی ملک مصر میں سحر و افطار کے اوقات میں توپ داغنے کی روایت کئی ممالک میں انجام دی جاتی ہے۔
مصر میں مملوک سلطان الظہیرسیف الدین کے زمانے سے رمضان المبارک میں افطاری کے وقت توپ چلانے کی روایت چلی آرہی ہے۔ اس کے علاوہ مصر میں رمضان المبارک کے دوران بچے چمکتے ہوئے فانوس یا لالٹین اٹھا کر گلیوں کے چکر لگاکر ہزاروں برس قدیم روایت کو زندہ رکھتے ہیں۔ تاریخ دانوں کے مطابق 969ء عیسوی میں اہل مصر نے قاہرہ میں عبیدی خلیفہ معز لدین اللہ کا فانوس جلا کر استقبال کیا تھا، جس کے بعد سے رمضان المبارک کے دوران فانوس جلانے کی روایت کا آغاز ہوا اور اس کے بعد سے ماہ صیام میں فانوس یا لالٹین روشن کرنا ملکی روایت کا حصہ بن گیا۔ترکی کے مختلف شہروں کی بلند ترین پہاڑیوں سے افطار کے مقررہ وقت پر توپ داغی جاتی ہے جبکہ سعودی عرب میں سحری کے وقت توپ داغی جاتی ہے۔علاوہ ازیں روس میں بھی کچھ مقامات پر یہ قدیم رسم سرانجام دی جاتی ہے۔سحری کے وقت ڈرم بجا کر لوگوں کو جگانے کی روایت کئی ممالک میں موجود ہے۔ ترکی کے ڈرمر عثمانی عہد کا لباس پہن کر سحری سے قبل سڑکوں پر نکل کر زور زور سے ڈھول پیٹتے ہیں، تاکے گھروں میں آرام سے سوئے ہوئے لوگ جاگ جائیں اور اپنے کھانے پینے کا انتظام کریں۔
مراکش میں ’نیفار‘ بگل بجا کر رمضان کے آغاز اور اختتام کیا جاتا ہے۔اسلامی روایات کے مطابق مسلمانوں کے اولین مساہراتی (منادی کرنے والے) حضرت بلال حبشی ؓتھے جو پہلے مو¿ذن بھی تھے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حضرت بلال کی ذمہ داری لگائی کہ وہ اہل ایمان کو سحری کے لیے بیدار کریں۔ مکہ المکرمہ میں مساہراتی کو زمزمی کہتے ہیں، وہ فانوس اٹھا کر شہر کے مختلف علاقوں کے چکر لگاتا ہے تاکہ اگر کوئی شخص آواز سے بیدار نہ ہوسکے تو وہ روشنی سے جاگ جائے۔سوڈان میں کی گلیوں میں سحری سے قبل گھومنے والے مساہراتی کے ساتھ ایک بچہ بھی موجود ہوتا ہے جس کے ہاتھ میں ان تمام افراد کی فہرست ہوتی ہے جن کو سحری میں باقاعدہ آواز دے کر اٹھانا ہوتا ہے۔
مصر میں سحری کے وقت دیہاتوں اور شہروں میں ایک شخص لالٹین تھامے ہر گھر کے سامنے کھڑا ہوکر رہائشی کو نام لے کر پکارتا ہے یا پھر گلی کے ایک کونے میں کھڑا ہوکر ڈرم کی تھاپ پر حمدیہ کلام پڑھتا ہے۔ ان افراد کو اگرچہ کوئی باقاعدہ تنخواہ نہیں ملتی، لیکن ماہ رمضان کے اختتام پر لوگ انہیں بطور ہدیہ مختلف تحائف دیتے ہیں۔سعودی عرب میں رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی خیموں کی تنصیب عمل میں آتی ہے جہاں پر مختلف ممالک اور قومیتوں کے لوگ افطار کرتے ہیں، اسی طرح کی روایت روس میں بھی قائم ہے۔سعودی عرب میں ایسی بہت سی روایات ہیں جو نسل در نسل منتقل ہوئی ہیں ۔متحدہ عرب امارات میں رمضان المبارک کے دوران کام کے اوقات کار کم کر دیے جاتے ہیں جبکہ رمضان میں رات بھر مارکیٹیں کھلی رہتی ہیں۔