رمضان المبارک میں معمولاتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم (مولانا پیر ذوالفقار احمد نقشبندی )

حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین فرماتے ہیں کہ جب بھی رمضان المبارک کا مہینہ آتا تو ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال میں تین باتوں کا اضافہ محسوس کرتے۔
پہلی بات: آپ صلی اللہ علیہ وسلم عبادت میں بہت زیادہ کوشش اور جستجو فرمایا کرتے تھے، حالانکہ آپ کے عام دنوں کی عبادت بھی ایسی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم مبارک متورم ہوجایا کرتے تھے۔ تاہم رمضان المبارک میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ عبادت پہلے سے بھی زیادہ ہوجایا کرتی تھی۔ دوسری بات: آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ ربُّ العزت کے راستے میں خوب خرچ فرماتے تھے۔ اپنے ہاتھوں کو بہت کھول دیتے تھے۔ یعنی بہت کھلے دل کے ساتھ صدقہ وخیرات فرمایا کرتے تھے۔ تیسری بات: آپ صلی اللہ علیہ وسلم مناجات میں بہت ہی زیادہ گریہ وزاری فرمایا کرتے تھے۔ ان تین باتوں میں رمضان المبارک کے اندر تبدیلی معلوم ہوا کرتی تھی۔ عبادت کے اندر جستجو زیادہ کرنا، اللہ ربُّ العزت کے راستے میں زیادہ خرچ کرنا اور دُعاﺅں کے اندر گریہ وزاری زیادہ کرنا۔۔ ہم رمضان المبارک میں اِن اعمال کا خصوصی اہتمام کریں۔ عبادت کے ذریعے اپنے جسم کو تھکائیں، ہمارے جسم دنیا کے کام کاج کے لیے روز تھکتے ہیں، زندگی میں کوئی ایسا وقت بھی آئے کہ یہ اللہ کی عبادت کے لیے تھک جایا کریں۔ کوئی ایسا وقت آئے کہ ہماری آنکھیں نیند کو ترس جائیں اور ہم اپنے آپ کو سمجھائیں کہ اگر تم اللہ کی رضا کے لیے جاگو گے تو قیامت کے دن اللہ ربُّ العزت کا دیدار نصیب ہوگا۔ یہ آنکھیں آج جاگیں گی تو کل قبر کے اندر میٹھی نیند سوئیں گی۔
موت کے بعد ہے بیدار دِلوں کو آرام
نیند بھر کر وہی سویا، جو کہ جاگا ہوگا
تو یہ جاگنے کامہینہ ہے۔ ہم اپنے آرام میں کمی پیدا کرلیں۔ یوں سمجھیں کہ یہ مشقت اُٹھانے کا مہینہ ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظارِ رمضان
حدیث مبارک میں آتا ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دُعائیں مانگا کرتے تھے کہ اے اللہ! شعبان میں ہمارے لئے برکت عطا فرما او رہمیں رمضان تک پہنچا۔ یعنی رمضان تک پہنچنے کے لیے دُعا فرمایا کرتے تھے۔ یہ کتنا بابرکت مہینہ ہے کہ جس مہینے تک پہنچنے کے لیے اللہ جل شانہ کے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم دُعائیں مانگا کرتے تھے۔ اللہ اکبر!
روزہ دار کی فضیلت
اِس مہینے کی برکات اتنی ہیں کہ جب کوئی آدمی روزہ رکھتا ہے تو اس روزہ دار کی بخشش کے لیے ہواﺅں میں پرندے، بلوں میں چیونٹیاں اور پانی میں مچھلیاں دُعائیں کیا کرتے ہیں اور جب روزہ دار آدمی دُعائیں کرتا ہے تو اللہ کے فرشتے اُس کی دُعاﺅں پر لبیک اور آمین کہا کرتے ہیں۔ اتنا بابرکت مہینہ ہے کہ اس کے ایک ایک لمحے کی برکت پانے والے ولی بنتے ہیں اور ابدال بنا کرتے ہیں۔ اگر ہم اِن برکات سے فائدہ اُٹھاسکیں تو ہمیں بھی اللہ جل شانہ کی معرفت نصیب ہوجائے۔
آرام وسکون
اہلِ دل حضرات اس مہینے میں آرام کو خیرباد کہہ دیا کرتے تھے۔ ہم بھی رمضان المبارک میں آرام کو خیرباد کہہ دیں، ہم سوچیں کہ سال کے گیارہ مہینے اگر ہم اپنی مرضی سے سوتے جاگتے ہیں تو ایک مہینہ ایسا بھی ہو جس میں ہم بہت کم سوئیں۔ اچھی بات ہے اگر آنکھیں نیند کو ترستی رہےں۔ اچھی بات ہے اگر جسم کو تھکا دیں۔ ہاں! کل قیامت کے دن اللہ ربُّ العزت کے حضور یہ عرض کرسکیں گے کہ یااللہ! زندگی کا ایک مہینہ تو ایسا گزرا تھا کہ آنکھیں نیند کو ترستی تھیں، جسم آرام کو ترستا تھا۔
ہماری تن آسانی!!
یہ انتہائی افسوس کی بات ہے کہ ہمارے لیے ایک قرآن پاک تراویح میں سننا مشکل ہوتا ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں جی فلاں مسجد میں جانا ہے، کیوں؟ جی وہاں 30 منٹ میں تراویح ہوجاتی ہیں، فلاں جگہ 25 منٹ میں ہوجاتی ہے، ہم مسجدیں ڈھونڈتے پھرتے ہیں کہ کہاں ہم پانچ منٹ پہلے فارغ ہوسکتے ہیں، ہماری تن آسانی کا تو یہ حال ہے۔
مستورات کا قرآن سے لگاﺅ
حضرت شیخ الہند رحمة اللہ علیہ کے ہاں مستورات بھی تراویح میں قرآن پاک سنا کرتی تھیں۔ آپ کے صا حبزادے قرآن پاک سناتے تھے اور پردے کے پیچھے گھر کی مستورات اور بعض دوسری عورتیں جماعت میں شریک ہوجایا کرتی تھیں۔ ایک دن حضرت کے صاحبزادے بیمار ہوگئے تو حضرت نے کسی اور قاری صاحب کو بھیج دیا۔ قاری صاحب نے تراویح میں چار پارے پڑھے۔ جب سحری کے وقت حضرت گھر تشریف لے گئے تو گھر کی عورتیں بڑی ناراض ہوئیں۔ کہنے لگیں: حضرت! آج آپ نے کس قاری صاحب کو بھیج دیا۔ اس نے تو بس ہماری تراویح خراب کردی۔ پوچھا کیوں کیا ہوا؟ کہنے لگیں پتہ نہیں اس کو کیا جلدی تھی، بس اس نے چار پارے پڑھے اور بھاگ گئے۔ پھر پتہ چلا کہ یہ عورتیں رمضان المبارک میں تراویح کی نماز میں سات قرآن پاک سنا کرتی تھیں۔ جی ہاں‘ کئی خانقاہوں پر تین قرآن پاک تروایح میں پڑھنے کا معمول رہا ہے۔ کئی خانقا ہوں پر پورا رمضان المبارک اعتکاف کرنے کا معمول رہا ہے۔ ہمارے سلف صالحین یوں مجاہدہ کیا کرتے تھے۔ یہ رمضان المبارک کمانے کا مہینہ ہے، اپنے جسم کو تھکانے کا مہینہ ہے۔
محنت کرنے کا مہینہ
میرے دوستو! بقیہ سال تہجد میں جاگنا ہم جیسے کمزور لوگوں کے لیے تو مشکل ہوتا ہے، چلو رمضان المبارک میں روزہ رکھنے کے لیے جاگ ہی جاتے ہیں، تو پھر اس میں چند رکعت نفل بھی پڑھ لیا کریں۔ دن کے اوقات میں ہم قرآن پاک کی تلاوت میں وقت گزار دیا کریں۔خاص کر ایک مہینہ غیبت چھوڑ دیں، لایعنی چھوڑ دیں، دوستوں کے ساتھ ایک ایک دو دو گھنٹے کی ملاقاتیں چھوڑ دیں۔ ہم سب سے اجنبی بن جائیں۔ ہم کہیں کہ یہ مہینہ تو اپنی ذات کے لیے محنت کرنے کا مہینہ ہے، کمانے کا مہینہ، اس میں کمالیں جتنا کماسکتے ہیں۔
حضرت جبرئیل علیہ السلام کی بددعا
حدیث پاک میں آتا ہے کہ حضرت جبریل علیہ السلام نے آکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بددعا کی کہ اے اللہ کے نبی! ہلاک ہوجائے وہ شخص جس نے رمضان کا مہینہ پایا اور اپنی مغفرت نہ کروائی۔ میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر آمین کی مہر لگا دی۔ اوّل تو ایک مقرب فرشتے کی بددعا ہی کافی تھی، لیکن میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے مہر لگاکر اس کی تاکید میں اضافہ کردیا، کہ جو آدمی رمضان کا مہینہ پائے اور مغفرت نہ کروائے تو اس کے ہلاک ہونے میں کوئی شک نہیں کرسکتا۔
ہماری سستی کاحل
سلف صالحین رحمہم اللہ جب قیامت کے دن اللہ ربُّ العزت کے سامنے بڑے بڑے اعمال پیش کریں گے، کوئی چالیس سال عشاء کے وضو سے فجر کی نمازیں پیش کرے گا، کوئی زندگی کی اتنی عبادت پیش کرے گا، اس وقت ہمیں ندامت ہوگی کہ کاش! ہمارے عمل اس قابل ہوں کہ ہم اس وقت اللہ ربُّ العزت کے سامنے رمضان المبارک کے روزے، اس کی تلاوت اور اس کی عبادت پیش کرسکیں اور کہیں کہ یااللہ! ہم کمزور تھے، گیارہ ماہ سستی کا شکار رہے، کچھ نہ کرسکے۔ ایک مہینہ ایسا تھا کہ جس میں ہم نے تیری رضا کے لیے پوری کوشش کی، تو اسے قبول کرلے۔