پُرکشش پیشکش کے باوجود شامی باشندے اسرائیل کیخلاف اُٹھ کھڑے ہوئے (علی ہلال)

شام کے جنوبی صوبوں کے باشندوں نے صہیونی ریاست کی پُرکشش مراعات کا لالچ مسترد کردیا ہے۔ شام کے جنوبی صوبوں القنیطرہ، دعا اور سویداء میں ہزاروں شامی عوام منگل اور پیر کے روز سڑکوں پر نکل آگئے اور انہوں نے اسرائیل کی جانب سے انہیں کی جانے والی پیشکش مسترد کرتے ہوئے اسرائیل کے مقابلے میں متحد رہنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔

شامی میڈیا کے مطابق شامی عوام نے بڑے بڑے پینافلیکس اٹھا رکھے تھے جن کے اوپر جلی حروف میں لکھا ہوا تھا کہ ”انہیں ایسا بالکل منظور نہیں ہے۔ وہ تقسیم نہیں ہوں گے۔ اسرائیل ناجائز قابض قوت ہے۔“
پیر کو ہونے والے احتجاجی مظاہروں میں شامی باشندوں نے بغیر کسی تقسیم کے شرکت کی جس میں عیسائی، دروز اور عرب سبھی شامل تھے۔ الجزیرہ کے مطابق مظاہرین نے اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو کے اس بیان کی شدید مذمت کی جس میں صہیونی وزیراعظم نے جنوبی شام کے ان صوبوں سے اسلحہ جمع کرنے کی دھمکی دی ہے اور کہاہے کہ اسرائیل شامی حکومتی فورسز کی یہاں تعیناتی کی اجازت نہیں دے گا۔ مذکورہ ذرائع نے العربیہ ڈاٹ نیٹ کو بتایا کہ اسرائیلی فوج نے گزشتہ ہفتے کے اختتام پر شام کے جنوب میں ان علاقوں میں آبادی کا شمار کیا جہاں اس کی فورس تعینات ہیں۔ اس کا مقصد رہنے والوں کی تعداد، عمر، تعلیمی قابلیت اور کام کے بارے میں جان کاری حاصل کرنا تھا۔عرب میڈیا کے مطابق اسرائیلی فوج نے شام کے جنوبی صوبوں میں اپنی سرگرمیوں میں غیرمعمولی اضافہ کیا ہے۔ صہیونی اداروں نے مقامی آبادی کو اسرائیلی اراضی کے اندر روزگار کے مواقع دینے کا وعدہ بھی کیاہے۔
مقامی ذرائع کے مطابق اسرائیلی ادارے شامی باشندوں کو صہیونی فورسز میں بھرتی کرنے کے لیے سرگرم ہیں۔ اب تک اگرچہ اسرائیل کو اس میں کامیابی نہیں ہوئی ہے تاہم عرب میڈیا کے مطابق اسرائیلی فوج نے بعض لوگوں کو کام کی پیش کش کی ہے کہ وہ صبح اسرائیل میں داخل ہوں اور کام کے بعد رات میں واپس شام لوٹ آئیں، جیسا کہ غزہ کی پٹی میں ہوا کرتا تھا۔ ذرائع کے مطابق اسرائیلی فوج نے ان لوگوں کے لیے ورک پرمٹ (اجازت نامے) پیش کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ یہ بالکل وہ ہی معاملہ ہے جو اسرائیلی فوج اپنے زیر کنٹرول اراضی میں کام کرنے والے فلسطینیوں کے ساتھ کرتی تھی۔ اس سلسلے میں جس تنخواہ کی پیش کش کی گئی ہے وہ شام میں ملنے والی تنخواہ کے مقابلے میں بڑی شمار ہوتی ہے۔

اسرائیلی فوج نے وعدہ کیا ہے کہ ہر کام کرنے والے کو روزانہ 75 سے 100 ڈالر کی اُجرت ملے گی۔ یہ درحقیقت شام میں اقتصادی بحران کی روشنی میں وہاں کے ایک شامی ملازم کو ملنے والی کئی ماہ کی تنخواہ کے برابر ہے۔ عرب جریدے کے مطابق اسرائیل کی یہ پیشکش دروزکمیونٹی کے افراد کو کی گئی ہے۔ الشرق الاوسط کے مطابق اسرائیلی فوج کے ایک دروزی جنرل غسان علیان کو یہ ذمہ داری سونپ دی گئی ہے کہ وہ دروز کمیونٹی کے لوگوں کو قائل کرکے اسرائیل کے زیر قبضہ دروزی علاقوں کے باشندوں کو گولان ہائٹس میں یہودی کالونیوں میں کام پر راضی کرسکے۔
عرب میڈیا کے مطابق اسرائیلی اداروں نے جنوبی شام میں فتنہ انگیزی کی سازشیں شروع کردی ہیں جس میں مالی لالچ، اسرائیل میں پُرکشش تنخواہوں پر کام کی آفرز سمیت مالی تعاون جیسی پیشکشیں شامل ہیں۔ عرب میڈیا کے مطابق چند روز سے اس طرح کی خبریں گردش میں ہیں کہ اسرائیلی فوج کی جانب سے شام کے جنوب میں بعض علاقوں کی آبادی کو پر کشش پیشکشیں کی جا رہی ہیں۔ یہ سلسلہ سابق صدر بشار الاسد کی حکومت کے سقوط کے بعد سے جاری ہے جب اسرائیلی فوج نے جبل الشیخ اور القنیطرہ صوبے کی پہاڑیوں اور دیہی علاقوں کا کنٹرول لے لیا تھا۔اگرچہ اسرائیل کی جانب سے سرکاری طور پر اس حوالے سے کوئی اعلان سامنے نہیں آیا، تاہم شام کے جنوبی حصے میں تعینات اسرائیلی فوج نے وہاں فوجی اڈے قائم کر لیے اور اپنے فوجیوں کے لیے رہائشی عمارتیں بھی بنا لیں۔ القنیطرہ میں ذرائع نے بتایا ہے کہ اسرائیلی فوج نے جنوب کی آبادی کو معاشی پیش کش بھی کی ہے۔بعض شامیوں نے اس پیش کش کو یہ سوچ کر مسترد کر دیا ہے کہ تل ابیب نے ان کی اراضی پر ’قبضہ‘ کر رکھا ہے۔ یاد رہے کہ شام کے بعض جنوبی قصبوں اور دیہات کے لوگوں نے اسرائیلی فوج کی جانب سے پیش کی جانے والی انسانی امداد لینے سے انکار کر دیا تھا۔
اسرائیل مختلف عسکری اور اقتصادی طریقوں سے جنوبی شام میں اپنے وجود کو مضبوط بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہاں وہ اب تک 7 فوجی ٹھکانے قائم کر چکا ہے۔ آٹھ دسمبر کو بشار الاسد کی حکومت کے سقوط کے بعد سے اسرائیلی فوج نے اعلان کیا ہے کہ وہ گولان کی پہاڑیوں میں بفرزون کے اندر کئی ٹھکانوں (ان کی تعداد 10 سے زیادہ ہو چکی ہے) میں پوزیشن سنبھال چکی ہے۔ یہ بفرزون 1974ء سے اسرائیل اور شام کے زیر کنٹرول علاقوں کو الگ کرتا ہے۔ پیر کو شام کے جنوبی صوبوں کے دروز زعماءاور عمائدین نے شامی صدر احمدالشرع کے ساتھ ملاقات بھی کی ہے اور دونوں فریقوں کی جانب ایک دوسرے کے ساتھ تعاون پر اتفاق ہوا ہے۔ جبکہ ان صوبوں میں عوام نے اسرائیلی فورسز کے خلاف بڑے احتجاج کئے۔
دوسری جانب شام میں منگل کے روز قومی کانفرنس کا آغاز ہوا ہے جس میں ملک بھر سے تمام کمیونٹییز اور گروپوں کی نمائندگی کرنے کے لیے 600 شخصیات شریک ہوئی۔ اس کانفرنس میں نئے آئین بنانے کے ساتھ ملک کے اقتصادی بحران کا خاتمہ ، انصاف کی فراہمی اور ملک میں امن وامان کے قیام کو یقینی بنانا شامل ہے۔ شامی صدر احمدالشرع نے ملکی سلامتی کے حوالے سے بات چیت کرتے ہوئے کہاہے کہ شامی حکومت ملکی آبادی کی حفاظت کے حوالے سے کسی قسم کے خطرے کو برداشت نہیں کرے گی۔ شام میں جاری قومی ڈائیلاگ کانفرنس میں کُردوں کے کسی گروپ کو شرکت کی دعوت نہیں دی گئی۔ شام کے مشرقی علاقوں میں مقیم کرد گروپوں کے ساتھ ابھی تک کسی قسم کی قربت پیدا نہیں ہوئی ہے۔ کردوں نے فوج میں شمولیت کے لئے شرطیں رکھ دی ہیں جس کے باعث شامی حکومت کی جانب سے ایسی کسی بھی شرط کو قبول کرنے سے انکار کیا ہے۔