اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو نے شام میں صہیونی فورسز کی جاری مداخلت کے لیے جواز پیش کرتے ہوئے کہاہے کہ اسرائیل جنوبی شام میں رہنے والے دروز قبائل کو تحفظ فراہم کریں گے۔ صہیونی وزیراعظم نے دعویٰ کیا ہے کہ دروز ہمارے اتحادی ہیں اور وہ غزہ اور لبنان کے محاذ پر ہمارے شانہ بشانہ لڑرہے ہیں۔
اتوار کو صہیونی فورسز کے تربیتی کورس کے اختتام پر بیان دیتے ہوئے نیتن یاہو نے کہاہے کہ دمشق کے جنوبی علاقوں کو فری زون قرار دے دیا جائے گا۔ صہیونی وزیراعظم کے ساتھ وزیر یسرائیل کاٹس نے بھی دمشق کے جنوبی علاقوں کو فری زون قراردیاہے جبکہ نیتن یاہو کے مطابق اسرائیل کسی بھی صورت شام کی جدید حکومتی فورسز کی ان علاقوں میں تعیناتی کی اجازت نہیں دے گا۔
اسرائیل کی جانب سے شام میں حملوں کا سلسلہ 2006ء سے جاری ہے جس میں مارچ 2011ء سے شروع ہونے والی شامی عوامی تحریک اور بعدازاں جاری رہنے والی خانہ جنگی کے دوران اضافہ ہوا۔ گزشتہ برس دسمبر میں معزول شامی صدر بشار الاسد کا تختہ الٹ دیا گیا تو اسرائیلی حملوں میں ایک بار پھر شدت آگئی اور اسرائیلی حملوں میں شامی فضائیہ کے 75 فیصد ہتھیاروں اور طیاروں کو تباہ کردیا گیا۔ نیز اسرائیلی فورسز نے گولان سے متصل قلمون اور جبل الشیخ کے اس فری زون میں مداخلت کرتے ہوئے فوجی چھاونیاں بنانی شروع کردیں جو شام اور اسرائیل کے درمیان 1974ء میں ہونے والے معاہدے کے تحت ایک غیرفوجی علاقہ تھا۔ الشرق الاوسط کے مطابق اسرائیل اب تک سات کلومیٹر سے زائد شامی علاقوں میں گھس کر قبضہ کرچکا ہے۔ اس سے قبل اسرائیلی وزراءمتعدد دفعہ یہ کہہ چکے ہیں کہ اسرائیل ان علاقوں کو مستقل قبضہ کرکے رکھنا نہیں چاہتا، تاہم اتوار کو صہیونی ریاست نے لہجہ بدلتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل جنوبی شام کی دروز کمیونٹی کو تنہا نہیں چھوڑے گا۔
دروز کون ہیں اور اُن کا اسرائیل کے ساتھ کیا تعلق ہے؟: مشرق وسطیٰ کے اُمور پر نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں اور ماہرین کے مطابق اسرائیلی وزیراعظم کا یہ بیان کوئی اتفاقی بیان نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے باقاعدہ خفیہ ہوم ورک کی داستان پھیلی ہوئی ہے، جو صہیونی اداروں کی طویل خفیہ منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے۔ 23 فروری کو شام کے جنوبی صوبہ سویداءمیں ایک نئی عسکری کونسل کی تشکیل ہوئی ہے جس نے پورے شامی منظر نامے میں ہلچل مچادی ہے۔ سویداءمیں تشکیل پانے والی عسکری کونسل کے بارے میں شامی میڈیا کا کہناہے کہ یہ علیحدگی پسند کونسل ہے جو اسرائیلی وزیراعظم کے اعلان کے ساتھ ہی وجود میں آئی ہے۔ سویداء میں سرگرم ہونے والی اس ملٹری کونسل میں دروز کمیونٹی کے کچھ نوجوان شامل ہیں لیکن دروز کمیونٹی کی مجموعی حمایت اسے حاصل نہیں ہے۔
دروز کمیونٹی کے روحانی سربراہ شیخ حکمت الہجری نے اس کونسل کی شدید مخالفت کی ہے۔ سویداءمیں بننے والی عسکری کونسل کے بارے میں شامی ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ شام کو دروز، کردوں اور علویوں کے نام پر تقسیم کرنے کا صہیونی منصوبہ ہے، جس پر جدید مشرق وسطیٰ کے منصوبے کے تحت صہیونی تنظیمیں کام کررہی ہیں۔ اس منصوبے کے اعلان سے چار روز قبل امریکی یہودیوں کے ایک اہم وفد نے شام کا دورہ بھی کیا ہے۔ اس وفد میں شام سے جانے والے یہودیوں کے ربیع یوسف الحمراءبھی تھے جبکہ ان کے ساتھ بدنام زمانہ امریکی صہیونی رِبی اچیر لوباتین بھی تھا جو اسرائیل کا سرگرم حامی اور گولان ہائٹس پر اسرائیلی قبضے کے سرگرم حامی ہے۔ شامی یہودی وفد کا یہ دورہ 33 برس بعد ہوا ہے جس کے فوراً بعد اسرائیلی وزیراعظم کا بیان اور پھر سویداءمیں دروز نوجوانوں پر مشتمل علیحدگی پسند تنظیم کا اعلان وہ عوامل ہیں جن کی کڑیاں آپس میں ملتی ہیں۔
دروز‘ شام، لبنان اور مقبوضہ فلسطین میں رہنے والے لوگ ہیں۔ یہ دراصل عربوں ہی کا قبیلہ ہے۔ عربی بولتے ہیں۔ دروز اسماعیلی فرقے سے ہی الگ ہونے والی شاخ ہے جسے اسرائیل نے 1948ء میں عربوں کے درمیان تفرقہ بازی پھیلا نے کی غرض سے الگ مذہب کے طور پر رجسٹرڈ کیا تھا اور اسے اسرائیل میں ہی بسانے کی کوشش کی تھی۔ اس وقت بہت سے دروز نے انکار کیا اور اسرائیل سے نکل کر شام، لبنان اور اُردن میں جابسے جبکہ کچھ دروز اسرائیل میں ہی باقی رہ گئے۔ دروز مجموعی طور پر عربوں کی طرح اسرائیل کے مخالف ہیں اور وہ اسرائیل کو ایک قابض قوت قرار دے رہے ہیں، تاہم اسرائیل میں رہنے والے دروزوں کی کافی تعداد اسرائیلی آرمی میں کام کررہی ہے اور اسرائیل کو درست سمجھتے ہیں۔
اسرائیل مشرق وسطیٰ میں عربوں کے مقابلے جن کمیونٹیز کو تعاون دے کر انہیں علیحدہ کرنے کے لئے سرگرم ہے اُن میں کردوں کے ساتھ دروز بھی نمایاں ہیں۔ دروز کی سب سے بڑی تعداد اس وقت شام میں ہے۔ شام میں دروز کی تعداد 7 لاکھ بتائی جاتی ہے جن کی اکثریت سویدا صوبہ میں ہے۔ لبنان میں تین سے پانچ لاکھ دروز ہیں۔ لبنانی دروز کے سیاسی و روحانی ذمہ دار ولید جنبلاط وہ نمایاں شخصیت ہیں جنہوں نے دسمبر میں دمشق کا دورہ کرکے شامی سربراہ احمدالشرع کے ساتھ ملاقات کی تھی۔ اسرائیل میں ڈیڑھ لاکھ تک دروز رہتے ہیں جن میں سے 20 ہزار گولان یائٹس میں ہیں۔ اسرائیل نے انہیں صہیونی ریاست کی نیشنلٹی دے رکھی ہے تاہم گولان کے یہ بیس ہزار دروز اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتے اور اب تک یہ اسرائیل کے بجائے شامی شہری کہلاتے ہیں اور شامی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کا استعمال کررہے ہیں۔
سات اکتوبر 2023ء کے غزہ پر اسرائیلی حملے کے بعد اسرائیلی دروز کے سربراہ شیخ طریف موفق کا ایک بیان سامنے آیا تھا جس میں اسرائیل میں رہنے والے دروز کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ جنگ میں شامل ہونے کی اپیل کی گئی تھی۔ تاہم لبنانی اشتراکی پارٹی کے سربراہ اور دروز روحانی شخصیت ولید جنبلاط نے اِس بیان کو سختی سے مسترد کردیا تھا اور اسرائیل میں رہنے والے دروز سے کہا تھا کہ وہ اسرائیل کا کسی قسم ساتھ دینے سے گریز کریں، تاہم اس کے باوجود اسرائیلی فورسز کی صفوں میں دروز موجود ہیں۔ غزہ جنگ میں القسام بریگیڈ کے ہاتھوں اسرائیلی فوج کے بریگیڈ 104 کے کمانڈر احسان دقسہ کے مارے جانے پر اسرائیلی میڈیا نے بہت شور مچایا اور دروز کے بارے میں مبالغہ آمیز بیانات اور رپورٹیں جاری کیں۔