(خطاب مولانا یاسر عبداللہ۔ ضبط و ترتیب: طارق علی عباسی)
رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ قریب ہے، اس لیے نمازِ تراویح و امامت کی تیاری کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ اِمامت اور تراویح کے بنیادی فرائض سے واقفیت حاصل کرنے اور حفاظِ کرام کو رمضان المبارک کی تیاری کس طرح کرنی چاہیے؟ اور حفاظِ قرآن کے ذمہ قرآن کے بنیادی حقوق کیا کیا ہیں؟ اِن عنوانات کو لیے جامع مسجد نجم، شہیدِ ملت روڈ کراچی میں مورخہ 24 جنوری 2025ء کو ایک تربیتی نشست کا انعقاد کیا گیا، جس میں بہت سے حفاظ کرام نے شرکت کی۔ ان حفاظ کرام سے اُستاذِ محترم مولانا محمد یاسر عبداللہ نے بڑے ہی ناصحانہ اور علمی انداز میں تفصیلی خطاب کیا۔ موضوع کی اہمیت کے پیش نظر یہاں اس خطاب کا خلاصہ نقل کیا جاتا ہے۔ مولانا محمد یاسر عبداللہ نے فرمایا:
”اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی حفاظت اپنے ذمے لی ہے۔ علماءیہ فرماتے ہیں کہ قرآن شریف کی حفاظت کا جو وعدہ ہے اس کے ضمن میں حفاظ کی حفاظت کا بھی وعدہ ہے۔ پھر چونکہ یہ دنیا دارُالاسباب ہے، یہاں ہر چیز کسی نہ کسی سبب کے ساتھ جڑی ہوئی ہے تو قرآن شریف کی حفاظت کا ایک سبب حفاظ بھی ہیں، جن کے ذریعے اللہ تعالیٰ قرآن شریف کی حفاظت فرما رہے ہیں۔ قرآن شریف یاد کرنے کے لیے آسان ہے۔ دنیا کی کوئی بھی کتاب یاد کرنا بہت مشکل کام ہے۔ دنیا کے کسی بھی مذہب میں یہ نظیر نہیں ملتی کہ وہ جس کتاب کو مقدس سمجھتے ہیں، کسی نے اس کو یاد کرلیا ہو۔ قرآن کریم کو یاد کرنا اس لیے آسان کردیا گیا تاکہ امتِ محمدیہ کے افراد اس قرآن کریم کو یاد کریں، اسے اپنے سینوں میں محفوظ کریں اور قرآن کریم کا جو حفظ ہے اس سے حفاظتِ قرآن کا خداوندی وعدہ پورا ہو۔
مگر جیسے قرآن کریم کو یاد کرنا آسان ہے، ویسے ہی قرآن آسانی سے بھول بھی جاتا ہے۔ انسان کو احساس بھی نہیں ہوتا اور وہ قرآن بھول جاتا ہے۔ اگر آپ قرآن کریم کو پڑھیں گے نہیں، دَور نہیں کریں گے، منزل کا اہتمام نہیں کریں گے، سنانے کا اہتمام نہیں کریں گے تو قرآن کریم کو بھول جائیں گے۔ بھولنا انسان کی فطرت میں داخل ہے، لیکن اللہ تعالیٰ نے ایسے اسباب ہمیں دے دیے ہیں، ایسے راستے دے دیے ہیں اور ایسے طریقے بتا دیے ہیں کہ اگر ہم ان طریقوں کو اختیار کریں گے تو بھولیں گے نہیں، لیکن اگر کوئی ان اسباب کو اختیار نہ کرے تو وہ قصداً اپنے آپ سے قرآن پاک کو بھلا رہا ہے، اِس لیے اس پر وعید صادق آئے گی۔
دماغ کی مختلف صلاحیتیں:
اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو دماغ عطا فرمایا ہے یہ عجیب و غریب صلاحیتوں سے مالامال نعمت ہے۔ یہ صلاحیتیوں کا مجموعہ ہے۔ نفسیات کے ماہرین کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے دماغ میں تیس قسم کی قوتیں جمع کردی ہیں۔ ہم یہ سوچتے ہیں کہ دماغ کا کام صرف سوچنا اور یاد کرنا ہے، دماغ کے بہت سے کام ہیں اور وہ ہم اس سے لے بھی رہے ہیں، مگر ہماری توجہ نہیں ہوتی۔ مثلاً: دماغ کا کام پہچاننا بھی ہے، دماغ آنکھوں اور دیگر ظاہری حواس کے ذریعے کام کرتا ہے۔ تصور کرنا بھی دماغ کا کام ہے۔ دماغ کا کام چیزوں کو جوڑنا اور ان میں ربط پیدا کرنا بھی ہے۔ دماغ کا کام نتیجہ نکالنا بھی ہے۔ دماغ کا ایک کام تجزیہ کرنا بھی ہے۔ تقابل کرنا اور سمجھنا بھی دماغ کا کام ہے اور ان جیسے دیگر کئی کام دماغ کے ہیں۔ حفظ کرنا بھی خالص دماغی کام ہے۔ حافظے مختلف اقسام کے ہوتے ہیں؛ کچھ لوگوں کو دیکھ کر چیزیں یاد ہوتی ہیں، کچھ لوگوں کے حافظے سماعت پر مبنی ہوتے ہیں، انہیں سننے سے یاد ہوتا ہے۔ نفسیات کے ماہرین کہتے ہیں کہ سننے، دیکھنے، بولنے، چھونے اور چکھنے کی قوتیں جنہیں حواسِ خمسہ کہتے ہیں، ہم ان حواس کو جس چیز میں جتنا زیادہ استعمال کریں گے وہ اتنی بہتر طور پر ہمیں یاد ہوگی۔
حفظ کے مراحل:
کسی بھی چیز کو حفظ کرنے کے کچھ مراحل ہوتے ہیں، مثلاً: یاد کرنے کا پہلا مرحلہ تسجیل ہوتا ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے اسکرین وغیرہ پر لکھ کر اسے محفوظ نہ کرنا۔ یہ پہلا اسٹیپ اور مرحلہ ہوتا ہے جس میں کوئی چیز دماغ کی سطح پر سرسری سی نقش ہوتی ہے۔ پھر جب قرآن شریف کی ایک آیت کو بار بار پڑھا جائے تو وہ دماغ میں محفوظ ہوجاتی ہے۔ اس مرحلے کو تثبیت کہتے ہیں۔ پھر روزانہ پڑھوانے کا درجہ ہے۔ اس کے ذریعے تخزین کا مرحلہ مکمل ہوتا ہے۔ پھر استرجاع کا مرحلہ ہے یعنی جب چاہیں اپنے یاد کیے ہوئے کو دوبارہ زبان پر لانا آپ کے لیے آسان ہو۔ یہ چاروں مرحلے بہت اہم ہوتے ہیں۔
بھولے ہوئے حفظ کو دوبارہ یاد کرنا:
اگر کوئی شخص قرآن کو حفظ کرکے بھول گیا ہے تو یاد رہے کہ اس کے لیے واحد راستہ عزم و ہمت اور دوبارہ محنت کرنا ہے۔ اس کے بغیر کوئی وظیفہ اور دُعا کام نہیں آئے گی۔ البتہ دوسری مرتبہ اسے یاد کرنا اتنا مشکل نہیں ہوتا جتنا پہلی مرتبہ یاد کرنا مشکل ہوتا ہے۔ ہمارے سامنے ایسی مثالیں ہیں کہ بعض حفاظ پورا قرآن بھول گئے، پھر انہیں کافی عرصے بعد خیال آیا کہ ہم سے یہ غلطی ہوگئی، لہٰذا اب دوبارہ یاد کر لیتے ہیں۔ پھر ان میں سے بعضوں نے ڈیڑھ سال میں بعضوں نے دو ڈھائی سالوں میں قرآن دوبارہ یاد کرلیا۔ ناممکن کچھ نہیں، ہمت کرنے کی بات ہے۔ تھوڑی ترتیب بنالی جائے، انفرادی محنت کرنے کے بجائے اپنے ساتھ کسی کو جوڑ لیا جائے، قاری صاحب کے ساتھ ترتیب بنالی جائے یا کسی حافظ سے مدد لی جائے۔
متشابہات کا معاملہ:
قرآن کریم میں بہت ساری آیتیں ایسی ہیں جن میں سے بعض آیتیں تو پوری کی پوری متشابہ ہیں، بعض کے کچھ کلمات اور اجزاءمتشابہ ہیں۔ علمائے کرام یہ بتاتے ہیں کہ قرآن شریف میں دو ہزار آیتوں میں متشابہات ہیں۔ متشابہات کی صورتیں مختلف ہیں، بعض میں تقدیم و تاخیر ہے اور کہیں حروف یا الفاظ کا فرق ہوتا ہے۔ بعض علماءنے متشابہات کو یاد کرنے کی علامتیں متعین کی ہیں۔ حروفِ تہجی وغیرہ کے اعتبار سے یا اس کے علاوہ دیگر مختلف طریقوں سے علامتیں طے کی ہیں۔ ہمارے بزرگوں میں قاری رحیم بخش رحمة اللہ علیہ نے تحفہ حفاظ کے نام سے کتاب لکھی ہے، اس میں بھی انہوں نے متشابہات کے کچھ اُصول ذکر کیے ہیں۔ اسی طرح ایک کتاب رموزِ متشابہات کے نام سے بھی ہے۔ قرآن کریم کا پندرہ لائنوں کا ایک نسخہ ملتا ہے، جس کا نام ’القرآن الکریم مع المتشابہات‘ ہے جسے قاری عبد الحلیم چشتی رحمہ اللہ (المعروف قرآنی کمپیوٹر) نے مرتب کیا ہے۔ اس نسخے سے مدد لی جاسکتی ہے۔ البتہ متشابہات اسی حافظ کو یاد ہوں گے جسے قرآن کریم اچھا یاد ہوگا۔ کچا حافظ خود پریشان اور دماغی انتشار کا شکار ہوجائے گا۔
قرآن مجید کو ترتیل سے پڑھیے!:
قرآن کریم کو ہم آہستہ پڑھنے کی عادت ڈالیں۔ تجوید کی غلطیوں کی دو قسمیں ہوتی ہیں؛ ایک لحنِ خفی اور دوسری لحنِ جلی۔ لحنِ خفی کا مطلب یہ ہے کہ اخفاءکرنا تھا مگر اخفاءنہیں کیا گیا۔ غنہ کرنا تھا مگر غنہ نہیں کیا گیا۔ لحنِ جلی کا مطلب ہوتا ہے زبر کو زیر پڑھ دینا۔ ایک لفظ کی جگہ دوسرا لفظ پڑھنا وغیرہ۔ اس سے بعض اوقات معنی کی بڑی خطرناک غلطیاں ہوجاتی ہیں۔ بعض غلطیاں تو ایسی ہوتی ہیں کہ جن سے نماز ہی فاسد ہوجاتی ہے۔ ہم ایسا ماحول بنائیں کہ جلدی اور تیزی سے پڑھنے کے بجائے اطمینان اور سکون سے تراویح پڑھیں اور سواپارہ ڈیڑھ گھنٹے میں پڑھیں۔ یہ چیز قابلِ فخر ہونی چاہیے، جلد بازی کو باعثِ فخر نہیں بنانا چاہیے۔
تراویح و امامت کی اہمیت کو جانیں:
تراویح کو اللہ تعالیٰ نے تکوینی طور پر قرآن کریم کو یاد کرنے کا ذریعہ بنادیا ہے۔ اس لیے اس کی تیاری کا ابھی سے اہتمام کرنا چاہیے۔ تراویح میں پورا قرآن سنانے کی تیاری کریں۔ اگر کوتاہی کریں گے اور آدھا سنائیں گے تو کچھ عرصے میں باقی آپ بھول جائیں گے۔ نیز امامت کوئی معمولی کام نہیں ہے۔ امام کی مثال ایسی ہے جیسے ٹرین کا انجن۔ اگر انجن ہی خراب ہو تو پٹڑی کے بجائے کہیں اور لے جائے گا۔ اس لیے اپنی ذمے داری کا احساس ہونا چاہیے۔ امام بننے کے لیے امامت کے بنیادی مسائل کا علم بہت ضروری ہے۔ طہارت کے مسائل کا علم ضروری ہے۔ اس لیے مفتی محمد انعام الحق قاسمی صاحب کی کتاب ’تراویح کے مسائل کا انسائیکلو پیڈیا‘ پڑھیں۔ تراویح کے موٹے موٹے مسائل ہمارے علم میں ہونے چاہئیں کیونکہ مسائل سے ناواقفیت سے مشکلیں پیش آتی ہیں۔ اِمامت کو معمولی نہ سمجھیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان باتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!“