میری کار میری مرضی

بودو باش، رہن سہن ،نشست و برخاست ،بول چال اور رویوں میں عامة الناس اپنے بادشوں ، حکمرانوں ، رہ نماؤں اور بڑے بزرگوں کی پیروی کرتے نظر آتے ہیں، ہمارے حکمرانوں کا یہ رویہ ہے کہ تم ہمارے ہاں آؤ گے تو کیا لے کر آؤگے اور ہم تمھارے آئیں گے تو تم کیا دوگے ؟ ترک صدر نے غالباً اس خیال کے تحت تو نہیں لیکن ہمارے صدر اور وزیر اعظم کو الیکٹرک کار تحفے میں دی ہے لیکن ظاہر ہے تحفہ دیکھنے والوں کے ذہن میں یہ سوال تو آتا ہی ہے۔وزیر اعظم نے اپنی کار خود چلائی ، صدر اردوان اپنے میزبان کے ساتھ اگلی نشست پر بیٹھے، صدر زرداری کی گاڑی خاتون اول ان کی بیٹی اور بی بی بے نظیر کی نشانی آصفہ بھٹو نے چلائی ، ان کے ابا حضور پچھلی نشست پر بیٹھے اور ترک صدر آصفہ بھٹو کی دل جوئی کے لیے ان کے ساتھ بیٹھے۔ اب پتا نہیں ان کاروں کا کیا مصرف ہوتا ہے ؟ توشہ خانے میں جمع کروا کے دوبارہ لی جائیں گی ،توشہ خانے کو دور سے سلامی دے دی جائے گی یا پھر اس میں میری کار میری مرضی کا فلسفہ چلے گا؟ خیر جو بھی ہوگا، سامنے آجائے گا۔ ترک صدر کا آنا عوام کیلئے تو جانے کب مبارک ہوگا، صدر و وزیر اعظم کیلئے ہاتھ کے ہاتھ مبارک ہو گیا۔ پاکستان نے اسلام آباد میں ایک انٹر چینج کا نام اردوان کے نام پر رکھ کر ترک صدر کو ایسا تحفہ دیا ہے جو پاکستان میں ہی رہے گا۔
٭٭٭
پی آئی اے نے پیرس کے لیے پروازیں ایک ماہ پہلے شروع کیں ، یورپ کے لیے ایک ہفتہ پہلے اور اب خبر ہے کہ 12 مارچ کو برطانیا باضابطہ اس بات کا جائزہ لے گا کہ پی آئی اے کی پروازیں بحال ہوں یا نہ ، کہا جا رہا ہے پی آئی اے نے فل تیاری کر لی ہے اور 12مارچ سے پہلے اس تیاری کی نوک پلک سنوارنے میں مصروف و مشغول ہے اور پی آئی اے و سول ایوی ایشن خاصا پْرامید ہے کہ برطانیا کے لیے بھی پی آئی اے پروازیں شروع کرسکے گا ، بڑے خان صاحب کی کابینہ کے نابغہ روزگار اور ایک انمول وزیر نے اپنے دورِ ہوا بازی میں ایسا چھکا مارا تھا کہ لوگوں نے پی آئی اے کو گھٹنوں چلتے چلتے زمین بوس ہو تا دیکھا تھا ، گزشتہ دو تین سال کی محنت شاقہ اور سفارت کاری رابطہ کاری کے ذریعے پی آئی اے کو ایک طرح دوبارہ جنم نصیب ہوا ہے۔ اگر پی آئی اے کو فروخت کیا جاتا ہے تو اس کی اب بہتر قیمت لگنے کا امکان ہے اور اگر پورا پی آئی اے نہ بھی نجی سطح کے حوالے کیا جاسکا تب بھی نصف یا دوتہائی کے لگ بھگ معاملات پرائیویٹ سیکٹر کے حوالے کرنے کا امکان بڑھا ہے۔
٭٭٭
بڑے حافظ جی یعنی ہمارے سپہ سالار کا کہنا ہے مجھے کوئی خط نہیں ملا اور اگر مل بھی گیا تو پڑھے بغیر (امانت سمجھ کر ) وزیر اعظم کو بھجوادوں گا (گویاایسے خط پڑھنا اور اس کے جواب دینا وزیر اعظم کا ڈومین ہے) کہا جارہا ہے یہ بات بھی بڑے حافظ جی نے (غالباً) کسی صحافی کے سوال کے جواب میں کہی، ورنہ حافظ جی کو خط پڑھنے کی ضرورت نہ اس میں دل چسپی لینے کی نہ اس پر تبصرے اور اس کا ذکرِ خیر و شر کرنے کی۔ وہ بڑے خوب صورت طریقے اور سلیقے سے فوج کا وقار اور ریاست کا معیار بلند کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ اگر چہ ہماری لبرل برادری، سول سوسائٹی، جمہوریت پر مرمٹنے والے دانش وروں سیاست دانوں اور صحافیوں کو حافظ جی کی یہ ادا پسند نہیں لیکن گزشتہ سوا دو سال میں یہ بات تو سب نے جان ہی لی ہے کہ حافظ جی حافظ جی ہیں، جنرل باوجوہ یا جنرل کیانی نہیں ، انھوں نے خاصی حد تک جنرل ضیاء شہید کی یادوں کو تازہ کیا ہے بلکہ بعض معاملات میں ان سے بڑھ کے مثلاً سول حکومت کو پورا کر و فر دیا ہے اور وزیر اعظم کے منصب و عہدے کے تقاضوں کے مطابق اپنی حمایت کا وزن چھوٹے میاں جی کے پلڑے میں ڈال رہے ہیں اور دوسری جانب کا پلڑا بھی کمال دانش مندی ہو شیاری اور وفا شعاری سے کام کر رہا ہے، بڑے میاں جی ہوتے تو کیا خبر کئی طرح کی کھٹ پٹ شروع ہو جاتی ، اگر چہ بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ بڑے میاں جی کی بیٹی وزیر اعلی پنجاب اپنے چچا سے بھی دو ہاتھ آگے نظر آرہی ہیں اور انھوں نے بڑی حد تک وقار کا بھرم بھی رکھا ہوا ہے۔ الھم زد فزد۔
٭٭٭
فوجی عدالتوں میں سویلین ملزمان کے مقدمات چل سکتے ہیں یا نہیں؟ عدالت عظمیٰ کا آئینی بنچ اس کا جائزہ لے رہا ہے۔ وکیلوں کے دلائل اور جج حضرات کے تبصروں سوالات اور رپورٹ ہونے والی آپس کی بات چیت سے محتاط ماہرین ابھی تک کوئی واضح اندازہ نہیں لگا پارہے کہ کیا فیصلہ آئے گا،البتہ اس معاملے میں دونوں اطراف کے جذباتی، سطحی سوچ کے حامل اور جلد باز مبصرین نے اپنی اپنی دکانیں چمکانے کیلئے ادھر ادھر کی اڑانا شروع کر رکھی ہیں جیسے جج حضرات اور پورا بنچ ان سے مشاورت کر رہا ہویا کم از کم اپنا موڈ بنا اور بتا رہا ہو۔ کہا جا سکتا ہے کہ فیصلہ ابھی امید و یاس کی سرحد پہ کھڑا ہے۔ چوں کہ اس کی اصل اہمیت اور ضرورت 9 مئی 2023ء کو ہونے والے بلوے اور فساد کی وجہ سے ہے اس لیے سوچیں بھی انتہائی سطح پر ہیں، ایک طبقے اور سوچ کو سول عدالتوں پر اعتماد نہیں اور دوسرے کو فوجی ٹرائل میں انصاف نظر نہیں آرہا، چنانچہ رسہ کشی اور کھینچا تانی جاری ہے۔ سماعت کتنی لمبی ہوتی ہے اور فیصلہ کب آتا ہے، کتنے روز محفوظ رکھا جاتا ہے اور جج حضرات کتنا وقت غور و خوض میں لگائیں گے ،اس پر ابھی کوئی بات واضح نہیں، تاہم بڑے خان صاحب کے چاہنے یا ان کے نام پر جینے والے فل پروپیگنڈا پرو گرام چلا رہے ہیں۔