مصر کی فوجی مشقیں، اسرائیلی سفیر نے تل ابیب کو خبردار کردیا

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے فلسطینیوں کو بے دخل کرکے غزہ پر امریکی اور اسرائیلی قبضے کے منصوبے کے منظر عام پر آنے کے بعد مشرق وسطیٰ کے حالات میں غیرمعمولی تبدیلی محسوس کی جارہی ہے۔

مصر اور اُردن کی جانب سے صدر ٹرمپ کی تجویز کے مسترد ہونے کے باوجود بھی امریکی صدر اپنے فیصلے پر مصر ہیں جبکہ پیر کو ٹرمپ نے فلسطینی تنظیم حماس کو دھمکی دی ہے کہ اگر ہفتے کے روز اسرائیلی یرغمالیوں کو رہائی نہ دی گئی تو جنگ بندی معاہدہ ختم ہو جائے گا۔

ادھر اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو اور دیگر حکام نے بھی جنگ بندی معاہدہ ختم ہو سکتا ہے۔ دوسری جانب منگل کو وہائٹ ہاؤس میں اردنی فرمان روا شاہ عبداللہ منگل کو دویم کی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ملاقات کی ہے۔ ملاقات میں ڈونلڈ ٹرمپ نے وہی مطالبہ دُہراتے ہوئے کہاہے کہ اُردن کو فلسطینی باشندوں کو جگہ دینی ہوگی۔ اردنی فرمان روا نے سفارتی انداز میں امریکی صدر کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے بتایا کہ اردن کینسر میں مبتلا دو ہزار فلسطینی بچوں کے علاج کے لئے فکر مند ہے اور اس حوالے سے کچھ کرنا چاہیے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اردن کے فرمانروا شاہ عبداللہ دوم سے ملاقات کے دوران غزہ کی پٹی پر امریکی کنٹرول اور اس کے باشندوں کی مستقل منتقلی کے لیے اپنے منصوبے کا اعادہ کیا ہے، جبکہ اردن سمیت واشنگٹن کے عرب اتحادیوں میں ان کے منصوبے کی وسیع تر مخالفت بھی جاری ہے۔ اردنی فرمانروا کے ساتھ ملاقات میں امریکی صدر نے ایک با پھر کہاکہ وہ غزہ کی پٹی کا کنٹرول سنبھالنے، علاقے کے مکینوں کو منتقل کرنے اور جنگ زدہ علاقے کو نئی شکل دینے کے اپنے منصوبے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ الجزیرہ کے مطابق اردنی فرمان روا نے کہاہے کہ اس حوالے سے مصر کے فیصلے کا انتظار کرنا چاہیے۔ جبکہ وہ سعودی عرب کے ولی عہد کے ساتھ بھی بات چیت کریں گے۔

تاہم دوسری جانب امریکی صدر ٹرمپ نے کہا کہ اگر اردن نے فلسطینیوں کو آباد کرنے سے انکار کیا تو وہ اس کی امداد روکنے پر غور کریں گے۔ خیال رہے کہ شاہ عبداللہ نے پہلے کہا تھا کہ وہ زمینوں کو ضم کرنے اور فلسطینیوں کو بے گھر کرنے کے کسی بھی اقدام کو مسترد کرتے ہیں۔ منگل کو فلسطینیوں کو وصول کرنے کے بارے میں پوچھے جانے پر انہوں نے کہا کہ انہیں وہ کرنا ہے جو ان کے ملک کے لیے بہتر ہے۔ اردنی فرمان روا نے بتایا کہ عرب ممالک ٹرمپ کے منصوبے کے جواب کے ساتھ واشنگٹن آئیں گے۔ اردنی بادشاہ نے اعلان کیا کہ مصر ایک منصوبہ تیار کر رہا ہے کہ غزہ کی پٹی کو کنٹرول کرنے کے ٹرمپ کے منصوبے کے حوالے سے امریکہ کے ساتھ کیسے کام کیا جائے؟

العربیہ کے مطابق شاہ عبداللہ الثانی نے کہا کہ ‘ٹرمپ اس منصوبے کو پیش کرنے کے لیے مصر کے آنے کے منتظر ہیں۔ میں نے کہا کہ ہم سعودی عرب میں اس بات پر بات کریں گے کہ ہم صدر اور امریکا کے ساتھ کیسے کام کریں گے’۔ اردن کے بادشاہ عبداللہ دوم نے ایکس پلیٹ فارم پر بیانات میں اعلان کیا کہ امریکی صدر کے ساتھ بات چیت کے دوران انہوں نے غزہ اور مغربی کنارے میں فلسطینیوں کی نقل مکانی کے خلاف اردن کے مضبوط موقف کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔ مشرق وسطی کے امور پر نظر رکھنے والے مبصرین نے توقع ظاہر کی ہے کہ امریکی صدر کی جانب سے غزہ کی تعمیر نو کے حوالے سے سامنے آنے والی تجویز اور فلسطینیوں کی بیرون ملک آباد کاری سے انکار کی صورت میں امریکا کے ساتھ اتحادی عرب ریاست کی امداد بند کرنے کی دھمکی کے بعد دونوں رہنماؤں کے درمیان ملاقات میں تناؤ پیدا ہوگا۔
ادھر عرب میڈیا نے لکھا ہے کہ مصری حکام صدر عبد الفتاح السیسی کے اٹھارہ فروری کے دورۂ واشنگٹن کو مؤخر کرنے پر غور کر رہے ہیں۔ عرب اور عبرانی میڈیا کے مطابق مصر نے بڑے پیمانے پر جنگی مشقیں شروع کردی ہیں۔ مصر کے وزیر دفاع لیفٹننٹ جنرل عبدالمجید صقر نے تھرڈ فیلڈ آرمی کے اہل کاروں پر زور دیا ہے کہ وہ لڑائی کے لیے اعلیٰ درجے کی تیاری کی سطح برقرار رکھیں، تا کہ مسلح افواج مختلف حالات کے تحت سونپی جانے والے مشنوں کو پورا کر سکیں۔ وزیر دفاع نے منگل کو تھرڈ فیلڈ آرمی کے مراکز کا دورہ کیا جہاں موبیلائزیشن کمانڈ سینٹرز کے منصوبے کے مرکزی مرحلے پر عمل جاری تھا۔ مصری فوج کے ترجمان بریگیڈیئر جنرل غریب عبدالحافظ نے ایک بیان میں بتایا کہ مذکورہ مرحلے کا نفاذ کئی روز تک جاری رہا۔ یہ مسلح افواج کی تشکیلوں اور یونٹوں کی کومبیٹ لائن تربیت کے سلسلے میں تھی۔ عرب میڈیا کے مطابق تھرڈ فیلڈ آرمی کا اہم ترین مشن سیناء صوبے اور ملکی سرحد کو محفوظ بنانا ہے جو غزہ کی پٹی کے مقابل واقع ہے۔

ادھر عرب میڈیا نے کہاہے کہ مصر کے پاس غزہ کی پٹی کی آبادی کو نکالے بغیر وہاں کی تعمیرنو کے لیے دو منصوبے موجود ہیں۔ مصر یہ باور کرا چکا ہے کہ وہ زمین کا کوئی ٹکڑا مختص نہیں کرے گا جہاں غزہ کی آبادی رہے۔ یاد رہے کہ مصر اب تک غزہ کے حوالے سے 3 تجاویز مسترد کر چکا ہے۔ ان سب میں جبری ہجرت اور عدم واپسی شامل ہے۔ مصر نے واشنگٹن سے کہا ہے کہ وہ پابندیاں عائد کرنے کے حوالے سے ٹرمپ کے بیان کی وضاحت پیش کرے۔ اس حوالے سے مصر رواں ماہ 27 جنوری کو مسئلہ فلسطین کی پیش رفت کے حوالے سے عرب لیگ کے ایک ہنگامی سربراہ اجلاس کی میزبانی کرے گا۔ اجلاس میں فلسطین کے قضیے میں تازہ اور سنگین صورت حال زیر بحث آئے گی۔ اس کے علاوہ جبری ہجرت کو مسترد کرنے کے سلسلے میں قرار داد اور یکساں عرب موقف جاری کیا جائے گا۔

دوسری جانب مصر میں نائب اسرائیلی سفیر کے طور پر کام کرنے والی اسرائیلی سفارت کار خاتون روتھ واسرمین لینڈا نے خبردار کردیاہے کہ مصر کی جنگی مشقیں معمولی نہیں ہیں۔ اسرائیلی ریڈیو پروگرام میں یہودی صحافی گاڈی نیس کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے اسرائیلی سفارت کار نے بتایا کہ جنگ کے لئے جن دو چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے جنگی قوت اور تیاری وہ دونوں مصر کے پاس موجود ہیں۔ مصر میں اس وقت جو تیاریاں جاری ہیں اور عوامی سطح پر بھی جو ہلچل مچی ہوئی ہے اسے معمولی اور ہلکا نہیں لینا چاہئے۔

مشرق وسطیٰ کے ماہرین کے مطابق اردنی فرمان روا کے دورہ واشنگٹن میں امریکی صدر امداد کی بندش کی دھمکی تو دے گئے ہیں، تاہم ماضی کو دیکھا جائے تو ٹرمپ کے گزشتہ دور میں بھی اردن اور مصر امریکی منصوبے ڈیل آف دی سنچری کو مسترد کرچکے ہیں۔ لہٰذا اس مرتبہ بھی امکان ہے کہ عرب ممالک کا مشترکہ موقف دیکھ کر امریکی صدر اپنے جارحانہ فیصلے سے واپسی پر رضامند ہو جائے۔