ذرا ملاحظہ کیجیے کیا ہی خوب منظر تھا! جب پاکستان میں ہر دل عزیر ترک صدر رجب طیب اردوان اپنی اہلیہ محترمہ اور مختلف شعبہ جات کے ماہرین کے ساتھ دو روزہ دورے پر پاکستان پہنچے تو ہمارے صدر محترم جناب آصف علی زرداری اور وزیر اعظم جناب چھوٹے میاں جی، وفاقی کابینہ کے بڑے وزرا کے ساتھ بنفس نفیس ہوائی اڈے پر موجود تھے، ترک صدر کا طیارہ پاکستانی حدود میں داخل ہو ا تو مشاق طیارے اپنے جلو میں لے کر انھیں اسلام آباد ہوائی اڈے پر پہنچے۔ معزز اور کریم مہمان کو 21 توپوں کی پر جوش سلامی دی گئی۔ حسب روایت مختلف اسکولوں کے بچوں نے ترک پرچم کے ساتھ مہربان مہمان کا استقبال کیا۔
بڑے وقت سے اس دورے کا انتظار تھا، بازگشت تھی، آخر وہ دن آگیا، ترکیہ پاکستان کے بہترین دوستوں میں شمار ہوتا ہے اور ترک صدر ان عالمی سربراہ شخصیات میں ہیں جو کروڑوں پاکستانیوں کے دل میں بستی ہیں، ان سے بہہہت زیادہ اور بڑی بڑی توقعات بھی رکھتے ہیں۔ کہا جا رہا ہے ترک صدر کے دورہ پاکستان میں پہلے سے قائم تعلقات میں مزید گرم جوشی ہوگی، استحکام ہوگا، ترقی کے لیے مشورے بھی ہوں گے تعاون بھی ہوگا۔ پاکستان اور ترکیہ دونوں ایک دوسرے کے دست و بازو بنیں گے۔ اللہ کرے اچھی امیدیں اور نیک خواہشات کارآمد اور بارآور ہوں۔
٭٭٭
گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر نے کہا ہے کہ خواتین کی یونیورسٹیوں سے مرد پروفیسروں کو ہٹایا جا رہا ہے۔ ماشاء اللہ گورنر صاحب کی نیت جیسی بھی ہو اور فیصلے کا پس منظر جو بھی ہو، کام بہت زبردست ہے اور لاکھوں دلوں کی مراد بر آئی ہے، حقیقت یہ ہے کہ مرد اساتذہ طالبات کو بلیک میل کرتے ہیں اپنی ٹھرک پوری کرنے کے لیے ایسے ایسے ستاتے ہیں کہ شاید شیطان بھی انھیں پیر بنانے پر تیار ہو جائے، طالبات اور بچیاں اساتذہ کو اپنا رہ نما ، مخلص ہمدرد سمجھتی ہیں ان سے استفادہ کرتی ہیں لیکن جوابی طور پر ان سے جو سلوک ہوتا ہے وہ بہت ہی گھٹیا ہوتا ہے۔ باقی تعلیمی ادارے خواہ کالج ہوں، یونیورسٹیاں ہوں یا اسکول، وہاں کی مجالس منتظمہ بھی گورنر پنجاب کے اس فیصلے کو اپنے ہاں رائج کریں۔ تعلیمی تقاضے تعلیمی ضروریات کے لیے سازگار ماحول اور بہترین رویہ پہلی چیز ہونی چاہیے اور غلطی جس کی بھی ہو اس کی شخصیت، تعلقات کا لحاظ کیے بغیر تنبیہ ہونی چاہیے لیکن ایک بہت بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ خود سربراہانِ ادارہ ہی اگر ایسی گری سوچ رکھتے ہوں تو ان کے پاس اگر ایسی کوئی شکایت آئے گی تو شکایت کنندہ آسمان سے گری کھجور میں اٹکی والی حالت کا شکار ہو جائے گی۔ اس کی تلافی کون کرے گا، یہاں تو شکایت لے کر تھانے جانے والی اور قانون کا دروازہ بجانے والی خواتین افسوس کرتی ہیں کہ ہم یہاں آئے ہی کیوں تھے!!
٭٭٭
چمپئنز ٹرافی سے پہلے ذرا ہاتھ کھولنے اور جانچ پڑتال کے لیے سہ فریقی سیریز کے پہلے میچ میں پاکستانی ٹیم کے ساتھ جو ہوا وہ ٹھیک ٹھاک ڈراؤنا خواب تھا، نیوزی لینڈ نے پہلے جم کے پاکستانی گیند بازوں کی دھنائی کی اور پھر بڑے سلیقے سے مخالف ٹیم کی وکٹیں ا ڑائیں، دودھ کا جلا چھاچھ پھونک کر پینے پہ مجبور ہوتا ہے اگرچہ ضروری نہیں کہ پاکستانی ٹیم بھی ایسے جلے سے سبق سیکھ ہی لے لیکن گزشتہ روز جنوبی افریقا کی ٹیم پاکستانی صیادوں کے دام میں آہی گئی۔ اور پاکستانی ٹیم کے کپتان و نائب کپتان نے تاریخی کھیل دکھایا اور 353 رن کا ہدف سنچریاں بنا کر حاصل کیا اور 6 وکٹوں سے کامیابی حاصل کی، دیکھتے ہیں اس اعتماد کو پاکستانی ٹیم فائنل میں استعمال کرے گی یا پہلے میچ کی یاد تازہ کرے گی، روایت تو یہی ہے کہ پرانی یاد تازہ کی جاتی ہے۔ لیکن منی ورلڈ کپ میں جانے کے لیے روایت توڑ کھیل دکھانا چاہیے۔ ورنہ پاکستانی شائقین دعائیں کم بددعائیں زیادہ دینے میں ماسٹر ہیں ایسے ایسے طعنے اور کوسنے دیں گے کہ کھلاڑیوں کو نانیوں دادیوں سمیت بہت کچھ یاد آجائے گا، اگرچہ بعض لوگ سمجھتے ہیں پاکستانی سیاست دانوں کی طرح پاکستانی کھلاڑی بھی شرم اور غیرت پروف ہوتے ہیں لیکن بھئی ضروری تو نہیں نا کہ ہمیشہ ہی ایسا ہو۔ اس بار کچھ نیا ہو جائے تو کیا حرج ہے!!!
٭٭٭
لیجیے جناب! آپ اپنے دام میں ایک صیاد آگیا، ایک ڈمپر کراچی کی راشد منہاس سڑک پر برج سے ٹکرا گیا، ڈمپر کے ساتھ ڈرائیور بھی زخمی ہوگیا، کلینڈر صاحب نے اپنے پیٹی بھائیوں والا کردار خوب نبھایا اور پتلی گلی سے نکل لیے، ڈرائیور صاحب ہسپتال میں ہیں یہ خوشی کی خبر ہرگز نہیں، لیکن ان جیسے ڈرائیوروں کو یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ کسی کا یوں ٹکریں مارنا کوئی عقل مندی اور بہادری نہیں، بھئی سیدھا سیدھا چلیں، زمین پہ ہیں تو زمین ہی سمجھیں اور اڑنے کی چاہت ہے تو کسی ترقی یافتہ ملک چلے جائیں اور جہاز اڑائیں۔ دوسری جانب سندھ حکومت چند گھنٹوں کے احتجاج کے سامنے نہ صرف بیٹھ بلکہ لیٹ گئی، اگر ہیوی ٹریفک والوں کی یونین وغیرہ کے صدور جنرل سیکرٹری حضرات سے پہلے مشاورت ہو جاتی اور اس کا حل نکالنے کے لیے ان سے تجاویز اور حل مانگا جاتا تو بھلے وہ خود کتنے ہی سنگ دل ہوں اپنی عزت دیکھ کر حکومت کے سامنے بچھ بچھ گئے ہوتے لیکن انھوں نے حکومت کو گٹھنوں کے بل گرا دیا اور فیصلہ واپس کروا دیا۔