ہندوستان ہمیشہ سے قومی یکجہتی اور گنگا جمنی تہذیب کا گہوارہ رہا ہے۔ لیکن افسوس کہ ادھر گزشتہ چند برسوں سے سیاسی مقاصد اور مفادات کے حصول کے لئے دانستہ طور پر صدیوں پرانی ایسی شاندار روایت کو ختم کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ اس وقت ہمارے ملک (بھارت) میں جس طرح فرقہ واریت، مذہبی جنون، عدم رواداری اور منافرت کا زہر پھیل رہاہے۔ وہ ہمارے ملک کی برسہا برس سے چلی آ رہی گنگا جمنی تہذیب، رواداری کی روایات، معاشرت و تہذیبی قدروں اور یکجہتی پر منفی اثرات مرتب کر رہے ہیں۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ ہمارا ملک ہندوستان ہمیشہ سے باہمی یگانگت، اتحاد و اتفاق اخوت و محبت اور دوستی و یکجہتی کے لئے جانا جاتا ہے۔ یہاں کی تمام تہذیبیں مل کر ایک تہذیب میں مدغم ہو گئی ہیں، جسے ہندوستانی تہذیب کا نام دیا گیا، نہ کہ مختلف خانوں میں منقسم کیا گیا ہے۔ لیکن ان تمام پرانی قدروں اور روایت کو یکسر فراموش کرتے ہوئے پورے ملک میں ہندو مسلمان کے درمیان کے آپسی اتحاد واتفاق کوختم کرنے کی ہر ممکن کوششیں کی جا رہی ہیں جس کی گزشتہ دس اگیارہ برسوں میں ہزاروں مثالیں سامنے آ چکی ہیں اور جنھیںوقتاََ فوقتاََ ملک و بیرون ممالک کے سیکولر دانشوروں نے ردّ کرتے ہوئے احتجاجی بیان بھی جاری کئے ہیں۔
ان دنوںملک کے اندر منافرت کا زہر پھیلانے والوں میں ایک ہوڑ سی لگی ہوئی ہے کہ کون ملک کی صدیوں پرانی گنگا جمنی تہذیب کو تار تار کرتے ہوئے سیاسی اور معاشی منعفت حاصل کر سکتا ہے۔ اتر پردیش جو کبھی تہذیب اور تمدن کی ریاست ہوا کرتی تھی، جہاں کبھی شیریں زبان (اردو) بولی اور سمجھی جاتی تھی۔ اس ریاست کے وزیر اعلیٰ جو گروا لباس پہنتے ہیں اور یوگی کہلاتے ہیں، وزیر اعلیٰ بننے سے قبل سے ہی اس شخص کے دل دماغ اور زبان پر ہر وقت مسلمانوں کے لئے نازیبا اور ان سے منافرت بھرے الفاظ ہوا کرتے تھے۔ توقع تھی کہ وزیر اعلیٰ کی ذمہ دار کرسی پر بیٹھ کر وہ ملک کے آئین کے مطابق اپنے فرائض منصبی پورا کریں گے لیکن افسوس کہ ہو رہا ہے اس کے ٹھیک برعکس اور اب وہ منافرت بھرے پرانے بیانات میں پوری طاقت سے رنگ بھرنے میں مصروف ہیں اور ریاست کی ترقیاتی منصوبوں پر عمل کرنے کی بجائے مسلمانوں کو کس طرح خوف و دہشت میں مبتلا رکھا جائے، کس طرح ان کے مکانوں، دکانوں، مساجد، درگاہوں، مدرسوں کو مختلف بہانوں سے بلڈوز کربے پناہ اور بے بس کیا جائے، اسی فکر میں رہتے ہیں۔ اس شخص کے اندر مسلمانوں کے تئیں اس قدر زہر اور منافرت بھرا ہوا ہے کہ ریاست کے ہر پرب تہوار میں بھی یہاںکے مسلمانوں کے تئیں عام لوگوں کے دلوں میں شک وشبہات پیدا کر نے کی کوشش ہوتی ہے۔
زیادہ دن نہیں ہوئے جب ہندؤں کے عقیدت سے بھرے ساون کے مہینے میں کانوڑیاترا کے دوران ایک متنازعہ حکم نامہ جاری کیا تھاکہ کانوڑ یاترا کے دوران راستے میں پڑنے والی دکانوں ہوٹلوں کے مالکان کے نام کا بورڈ لگانا ضروری ہے۔ ایسا فرمان ہندوستان کو نازی دور کے جرمنی کی سمت لے جانے کی یاد تازہ کر دیتا ہے۔ 1938ء میں ہٹلر نے جرمنی کے یہودیوں کے لئے ایک مخصوص قسم کا شناختی نشان جاری کیا تھا۔ اس کے کیا منفی اثرات مرتب ہوئے تھے، یہ تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے۔ بہرحال اتر پردیش کے اس متنازعہ اور متعصبانہ فرمان کے خلاف زبردست احتجاج ہوا اور سپریم کورٹ نے مداخلت کرتے ہوئے حکومت کو نوٹس جاری کرتے ہوئے یہ حکم سنایا تھا کہ کانوڑ یاترا کے دوران دکانوں، ہوٹلوں، ڈھابوںکے مالکان کو نام ظاہر کرنا ضروری نہیں ہے۔ حالانکہ مغربی اتر پردیش کی یہ شاندار روایت رہی ہے کہ کوئی کانوڑ لے کر اپنے گاؤں پہنچتا ہے تو اس گاؤں کے ہندو مسلمان سب کے سب اس کا استقبال کرتے ہیں۔ لیکن جب متعصب ذہن میں منافرت کے کیڑے کاٹتے رہتے ہوں تو ایسی ا چھی اور رواداری والی مثبت باتوں کی کیا اہمیت رہ جاتی ہے۔
میرے اس تمہید کا مقصد صرف یہ بتانا ہے کہ تم ہم سے نفرت کرتے رہو لیکن ہم اپنی پرانی روایت یکجہتی اور رواداری کو نہیں چھوڑیں گے۔ اس بات کا ثبوت گزشتہ 29جنوری کو مونی آمسویا کی شب کو الہٰ آباد کے مسلمانوں نے اس وقت دیا جب مہاکمبھ کے میلہ میں کروڑوں عقیدت مند نہانے پہنچے اور انتظامیہ مہمانوں ( وی وی آئی پی) کو سہولیات پہنچانے میں مصروف تھے۔ ایسے وقت میں بے قابو بھیڑ بدانتظامی کے شکار ہوئی اور زبردست بھگدڑ مچی، اس بھگڈر کے جو افسوسناک بلکہ دل دہلا دینے والے سانحات سامنے آئے اور کتنی ہلاکتیں ہوئیں، کتنوں نے اپنوں کو کھو دیا، جو گرا پھر اٹھا نہیں۔ ہرطرف لاشیں ہی لاشیں بکھری پڑی تھیں، ہر چہار جانب چیخ وپکار، کوئی کسی کامددگار نہیں تھا۔ ہر طرف افراتفری، بے بسی، بے کسی کا ماحول تھا۔ لوگ بس بھاگ رہے تھے اور انتظامیہ نے شہر کے کئی راستوں کو بند کر رکھا تھا۔ ایسے بدترین حالات اور انتظامات کے دوران دوردراز علاقوں سے آنے والے عقیدت مند شدت سے پریشان اور بے پناہ ہونے والوں میں بوڑھے بچے عورتیں سب کے سب افراتفری میں مبتلا تھے۔ افسوسناک بات یہ بھی ہوئی کہ بقول تانیا متل( یوپی ٹورزم پروموٹر) ”بھاگتی بھیڑ کو دیکھ کر سادھو سنتوں نے اپنے اپنے آشرم کے دروازے بند کر لئے تاکہ امڑتی بھیڑ ان کے آشرموں میں نہ داخل ہو جائے۔”
ایسے نازک وقت میں کمال کی ہمت، حوصلہ کے ساتھ اپنی روایتی گنگا جمنی تہذیب کا بھرپور مظاہرہ کرتے ہوئے الہٰ آ باد کے کئی محلّوں مثلاً روشن باغ، حل آباد، رانی منڈی اور شاہ گنج وغیرہ کے مسلمانوں نے ان تھکے ہوئے پریشان حال ہندو عقیدت مندوں کے لئے اپنے اپنے گھروں کے دروازے کھول دئے۔ صرف گھروں کے دروازے ہی نہیں کھولے بلکہ انھیں بستر، کمبل، لحاف وغیرہ کے ساتھ ساتھ ان کے کھانے پانی کا بھی انتظام کیا۔ ایک اندازے کے مطابق اس طرح الٰہ آ باد کے مختلف علاقوں میں ایسے پریشان حال پچیس ہزار عقیدتمندوں کی مدد کی گئی۔ الٰہ آباد کے یہ وہ مسلمان ہیں جن کے کمبھ میلہ میں داخلہ کو حکومت، انتظامیہ اور سادھو سنتوں نے ممنوع قرار دیا تھا۔ یہی وہ مساجد، مدارس، خانقاہ، درگاہ وغیرہ ہیں جنھیں بند کرنے اور منہدم کئے جانے کی دھمکیاں حکومت کی جانب سے اکثر ملتی رہتی ہیں۔ قدیم روایت کے تحت کمبھ میلہ میں غسل کئے جانے کی ایک تاریخ ہے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا تھا کہ اس تاریخی میلہ میں مسلمانوں کے داخلہ کو ممنوع قرار دیا گیا ہو۔ لیکن یہ بھی عجیب قدرت کا معجزہ ہوا کہ میلہ خود یہاں کے مسلمانوں کے پاس پہنچا۔ گنگا جمنی تہذیب کے علمبردار اٰلہٰ آباد کے مسلمانوں کے ذریعہ ایسی شاندار انسانی اور اخلاقی مثال پیش کئے جانے پر ایک صحافی شیتل سنگھ نے بڑی اچھی بات کہی ہے کہ ”اٰلہٰ آباد کے مسلمانوں کے سمجھدار حصے نے ہندؤں کے درمیان ان کے فرقہ واریت کی لاعلاج بیماری سے سڑ چکے حصّہ کی نفرت پھیلانے کی مہم کا محبت سے جواب دے کر شاندار مثال پیش کی ہے۔”
سابق جسٹس مارکنڈے کاٹجو نے اپنے تاثرات رقم کرتے ہوئے اور فرقہ پرستوں کو آئینہ دکھاتے ہوئے لکھا ہے کہ ”ہندو ووٹ حاصل کرنے کے لئے ہندوستانی معاشرے کو مذہبی خطوط پر پولرائز کرنے کی گزشتہ دس برسوں سے حکمراں جماعت کی تمام کوششوں کے باوجود مسلمانوں کو دہشت گرد اور ملک دشمن قرار دئے کے باوجود، بہت سے مسلمانوں کی مآب لنچنگ کے باوجود، ان کے گھروں کو بلڈوز ر سے تباہ و برباد کرنے کے باوجود، موقع بموقع ان کی پٹائی کے باوجود، زبردستی جئے شری رام کے نعرے لگوانے کی کوششوںکے باوجود، من گھڑت اور فضول الزامات میں کئی سالوں تک عمر خالد جیسوں کو جیل میں ڈالنے کے باوجود مسلمانوں کا کیا ردّعمل رہا؟کسی کو توقع ہوگی کہ ان ذہنوں میں ہندوؤں کے لیے ان پر ہونے والے مظالم کے لیے نفرت بھری ہوگی۔ لیکن 29جنوری 2025ء کو کمبھ میلے میں بھگدڑ کے بعد الٰہ آباد میں جو کچھ ہوا جس میں نامعلوم تعداد میں ہندو یاتری ہلاک ہوئے اور متعدد لاپتہ ہیں، مسلمانوں کا رد عمل اس کے برعکس تھا۔ درحقیقت یہ ایک شاندار واقعہ تھا جس کا ظہور مسلمانوں کے عمل سے ہوا۔ مسلمانوں سے کہا گیا تھا کہ وہ کمبھ میلہ کے علاقے سے دور رہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ان میں اس فیصلہ سے ناراضگی پیدا ہوئی ہوگی، لیکن بھگدڑ کے متاثرہ ہندوؤں کو ان لوگوں نے جس طرح ہاتھوں ہاتھ لیا اور اپنے گھروں اور مسجدوں کے دروازے ان پر کھول دئے اس سے فرقہ پرستوں کے منھ پر زوردار طمانچہ رسید ہوا ہے”۔