امریکی صدر غزہ کو فلسطینیوں سے خالی کرکے اس کی زمین پر قبضے کے منصوبے پر مُصر ہیں۔ ٹرمپ کی وجہ سے اس خبر کا عالمی میڈیا میں بھی چرچا ہے لیکن دوسری جانب مغربی کنارے کو فلسطینیوں سے خالی کرکے اس پر مکمل قبضہ کرنے کا صہیونی منصوبہ زور وشور سے جاری ہے، جس پر ساری دنیا بالخصوص عالمی میڈیا بھی اس پر گونگا شیطان بنا ہوا ہے۔
مغربی کنارے میں تقریبا 8 دہائیوں کے بعد سب سے بڑی جبری اجتماعی نقل مکانی کی کارروائیاں جاری ہیں اور تادم تحریر 40 ہزار سے زاید فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے نکال باہر کیا جاچکا ہے۔ فراس ابوسعدی بھی ان بے گھر ہونے والے افراد میں شامل ہیں۔
اس کا علاقہ طولکرم کیمپ مسلسل اسرائیلی فوجی حملوں کا سامنا کر رہا ہے جہاں قبضہ کار اس کیمپ میں فساد اور تباہی مچا رہے ہیں اور اس کے رہائشیوں کو بے گھر اور منتشر کر رہے ہیں۔ ابوسعدی اپنے خاندان کے ساتھ جو 9 افراد پر مشتمل ہے، اپنی والدہ بزرگ اور چھوٹے بچوں کے ساتھ، اپنی شادی شدہ بہن کے گھر ذنابہ کے مضافات میں پناہ گزین ہے۔ یہ علاقہ کیمپ کے قریب واقع ہے۔ اس خاندان کو جان بچانے کے لیے اپنا گھر چھوڑنا پڑا ہے۔ جب اسرائیلی فوج نے ان پر ظلم و تشدد کیا۔ بلڈوزر نے گھروں کو مسمار اور سڑکوں کو تباہ کر دیا۔ ابوسعدی نے اپنے ساتھ صرف وہ دستاویزات اور دیگر ضروری اشیاءلے لیے جو ہلکی اور زیادہ اہمیت کی حامل تھیں۔ اس کے علاوہ وہ کچھ کپڑے بھی لے کر نکلے کیونکہ فوجی آپریشن اچانک تیز اور سخت تھا اور انہوں نے بمشکل اپنی جان بچائی جب وہ اسرائیلی فوج کی گولیوں اور محاصرے کے درمیان پھنسے ہوئے تھے۔
٭سب سے بڑی نقل مکانی: 1948ء کی نکبہ اور 1967ء کی نکسہ کی طرح ہزاروں فلسطینیوں نے اسرائیلی فوج کے ’آئرن ڈوم‘ آپریشن کے باعث جبراً اپنے گھروں کو چھوڑ دیا ہے اور جنین، طولکرم اور طوباس کے پناہ گزین کیمپوں سے نقل مکانی کی۔ یہ سب مغربی کنارے میں پچھلے 5 دہائیوں میں سب سے بڑی نقل مکانی کی کارروائی ہے۔ اس مرتبہ نقل مکانی کو انتہائی خطرناک، زیادہ پرتشدد اور ظالمانہ قرار دیا گیا ہے، جو کہ پہلے کی کئی دیگر نقل مکانی کی کارروائیوں سے زیادہ شدت اختیار کر چکی ہے، جنہوں نے شمالی مغربی کنارے کے کیمپوں (جنین، طولکرم اور الفارعة) کو 7 اکتوبر 2023ء میں غزہ پر اسرائیلی حملے کے بعد نشانہ بنایا تھا۔ اس دوران اسرائیلی فوج نے بدترین دہشت گردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے شہریوں کے گھروں سے گھس کر انہیں باہر نکالا۔ پھر گھروں کو مسمار کر کے ان پر تشدد کیا۔ فلسطینی اپنے گھروں سے نکل کر مختلف مقامات پر پناہ گزین ہوئے، جہاں کچھ نے اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کے گھروں میں پناہ لی، جبکہ دیگر نے مساجد، کلبوں اور اسکولوں جیسے پناہ گاہوں کا رخ کیا۔ کچھ لوگ پہاڑوں اور میدانوں کی طرف بھاگ گئے، جہاں انہوں نے خیمے لگائے، جنہیں غذائی اشیاءکی کمی، ضروریات کے فقدان اور مختلف نوعیت کی مشکلات کا سامنا ہے۔
یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ ابوسعدی (31 سال) اور ان کے خاندان کو نقل مکانی کرنا پڑی ہو، کیونکہ ہر حملے کے دوران وہ اپنے گھر کو چھوڑ دیتے ہیں اور پھر تخریب کاری اور بربادی کے باوجود واپس آ جاتے ہیں، مگر ابوسعدی کہتے ہیں: اس مرتبہ یہ سب سے طویل اور خطرناک تھا۔ ہم نے اسرائیلی فوج کے ظلم و زیادتی کے دوران نقل مکانی کی اور کیمپ میں سخت محاصرہ تھا جو کسی بھی حرکت کو روک رہا تھا۔‘ یہ نقل مکانی ان کے لیے مزید پریشانی کا سبب بنی ہے، کیونکہ ان کی معاشی حالت بھی سخت ہو چکی ہے۔ مسلسل چھاپوں کی وجہ سے وہ کام نہیں کر پا رہے اور اسرائیلی فوج نے کیمپ اور اس کی اقتصادی سہولتوں کو تباہ کردیا ہے، جو ان کی آمدنی کا واحد ذریعہ تھیں۔ ابوسعدی مزید کہتے ہیں: نقل مکانی نے ہمارے لیے مادی، نفسیاتی اور سماجی بوجھ پیدا کیا۔ ہمارے میزبانوں کے لیے بھی یہ مشکل ہے، کیونکہ جگہ تنگ ہے، کام کے مواقع ختم ہو گئے ہیں۔ نقل مکانی کی مدت طویل ہو چکی ہے اور واپسی کا کوئی امکان نہیں دکھائی دے رہا تھا۔ وہ بڑا نقصان جو اسرائیلی فوج نے کیمپ میں تباہی مچا کر چھوڑا ہے، وہ اس کے علاوہ ہے۔‘
طولکرم کیمپ کے تقریباً 90 فیصد رہائشی نقل مکانی کر چکے ہیں۔ وہاں ایسے افراد کے لیے 6 پناہ گاہیں قائم کی گئی ہیں جنہیں کہیں اور پناہ نہیں مل سکی تھی۔ مساجد، اسکول، کلب اور عوامی صحت کے مراکز کو پناہ گزینوں کے استقبال کے لیے کھول دیا گیا ہے جبکہ ان کے اصل مستفیدین جیسے طلبہ، ملازمین اور مریضوں کے لیے یہ دروازے بند کر دیے گئے ہیں۔ ضمیری نے الجزیرہ کو بتایا:’پناہ گزینوں کو اپنی ضروریات کی کمی کا سامنا ہے، جو کچھ فراہم کیا جا رہا ہے وہ صرف انتہائی محدود ہے، کیونکہ یہ سب عطیات اور حکومتی و عوامی اداروں کی طرف سے فراہم کردہ امداد پر منحصر ہے اور یہ امداد اتنی کم ہے کہ ضرورت کے لحاظ سے بہت ناکافی تھی۔
‘ واضح رہے کہ آئرن ڈوم آپریشن 21 جنوری 2024ء سے جاری ہے۔ اس دوران کیمپوں میں مقامی حکام کے تخمینوں کے مطابق 44 فلسطینی شہید ہوچکے ہیں، درجنوں کو گرفتار کیا گیا ہے اور جنین اور طولکرم کے کیمپوں کے 90 فیصد سے زیادہ رہائشیوں کو بے گھر کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ، الفارعة اور نورشمس کیمپوں میں بھی درجنوں خاندان اپنے گھروں سے بے دخل ہوگئے ہیں، جہاں سیکڑوں گھروں کو مکمل یا جزوی طور پر تباہ کردیا گیا ہے۔
٭سخت محاصرہ: خیمہ بستیوں میں زندگی مکمل طور پر رک گئی ہے، جہاں اسرائیلی فوج نے بھرپور یلغار کی ہے۔ ساتھ ہی ان کے قریب کے علاقے بھی متاثر ہیں۔ اسکولوں اور طبی مراکز کو بند کر دیا گیا ہے اور ملازمین کی نقل و حرکت میں رکاوٹیں ہیں۔ مغربی کنارے کے شمالی علاقے میں واقع الفارعة کیمپ کی حالت بھی بہتر نہیں ہے، جہاں اسرائیلی فوج آٹھویں دن سے مسلسل یلغار کررہی ہے۔ اس کے ساتھ مکمل محاصرہ بھی ہے جس کے نتیجے میں خوراک، پانی، بجلی اور مواصلات کی فراہمی کو روک دیا گیا ہے اور بنیادی ڈھانچے کو مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا ہے۔ صہیونی فوجی گھروں میں داخل ہو کر اور شہریوں کو خوف و ہراس میں مبتلا کر رہے ہیں۔
پچھلے ہفتے کیمپ میں سب سے بڑی جبری اجتماعی نقل مکانی ہوئی، جب اسرائیلی فوج نے درجنوں خاندانوں کو اسلحے کے ذریعے اپنے گھروں کو چھوڑنے پر مجبور کیا اور ان گھروں کو فوجی چھاونیاں اور میدانِ تفتیش کے مراکز میں تبدیل کردیا۔ باسل منصور جو کہ کیمپ کے رہنماﺅں میں سے ایک ہیں، الجزیرہ کو بتاتے ہیں کہ اسرائیلی فوج نے 40 سے زائد خاندانوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کردیا ہے۔ گھروں پر حملہ کرکے مالکان پر دباو ڈالا گیا۔ انہیں کیمپ کے کھیل کے میدان میں لے جایا گیا اور پھر وہ طوباس شہر منتقل ہوگئے، جہاں وہ ابھی بھی مقیم ہیں۔
اسی طرح الفارعة کیمپ کے قریب واقع طمون گاﺅں میں فلسطینی دیہاتوں میں پہلی بار اجتماعی نقل مکانی دیکھنے کو ملی، جب اسرائیلی فوج نے ایک مکمل محاصرہ اور یلغار کے دوران شہریوں کو گھروں سے نکال کر گھروں کو فوجی چھاونیاں بنا لیا۔ ایک خاتون اُم ہانی اور ان کے 10 بچوں نے کافی کوششوں کے بعد جنین کیمپ سے طمون میں اپنے رشتہ داروں کے پاس پناہ لی، لیکن وہاں بھی وہ ایک دوسری نقل مکانی کا سامنا کرنا پڑا۔ فوج نے طمون گاﺅں پر حملہ کردیا اور پھر انہیں جنین کے مشرقی دیہاتوں میں دوبارہ پناہ لینا پڑی، جہاں وہ شدید مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ مغربی کنارے میں اسرائیلی فوج کی کارروائیاں ابھی بھی جاری ہیں اور فلسطینی پناہ گزینوں کی امدادی تنظیم (اونروا) نے بتایا ہے کہ اسرائیلی فوج نے شمالی مغربی کنارے سے تقریباً 40 ہزار سے زاید فلسطینی پناہ گزینوں کو جبراً بے گھر کر دیا ہے۔