غزہ پر دوبارہ یلغار کا خطرہ۔ اسلامی دنیا کا امتحان

امریکا کے غیر متوازن اور خبطی مزاج کے حامل صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جنگ بندی معاہدے کو ختم کرکے ہفتے کے دن سے ایک بار پھر غزہ پر صہیونی جارحیت شروع کرانے کا عندیہ دیا ہے اورغزہ اور مغربی کنارے سے فلسطینیوں کو بے دخل کرکے علاقے پر قبضہ کرنے کے اپنے شیطانی عزائم کو دہرایا ہے۔

امریکا کا ایک بار پھر صدر منتخب ہونے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ میں انسانیت کے خلاف سنگین ترین جرائم کے مرتکب صہیونی بھیڑیے نیتن یاہو کو سب سے پہلے غیر ملکی سربراہ کے طور پر وہائٹ ہاؤس کا مہمان بنایا ،غزہ میں ستر ہزار سے زائد انسانوں کا خون پینے پر اس کی پیٹھ ٹھپتھپائی اور اس کے ساتھ بیٹھ کر یہ نادر شاہی فرمان جاری کردیا کہ وہ غزہ کے فرزندان زمین باشندوں کو مصر اور اردن جلاوطن کرکے غزہ میں عیاشی و فحاشی کے اڈے تعمیر کرے گا اور مصر،اردن اور سعودی عرب جیسے ممالک کو مجبور کرے گا کہ وہ اس کا یہ شیطانی منصوبہ نہ صرف تسلیم کرلیں بلکہ اس کے لیے اپنی سرزمین اور خزانے کا ایک بڑاحصہ بھی مختص کردیں۔ مسمی ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ اعلان اس انداز سے کیا جیسے نومبر کے صدارتی انتخابات میں وہ ریاستہائے متحدہ امریکا کا صدر نہیں بلکہ پوری دنیا کا بلاشرکت غیرے بادشاہ منتخب ہوا ہو۔ ٹرمپ کی ہلاشیری سے شہ پاکرصہیونی بھیڑیا نیتن یاہو بھی شیر ہوگیا اور اس نے نہ صرف فلسطینیوں بلکہ سعودی عرب، قطر اور مصر کے خلاف انتہائی توہین آمیز زبان استعمال کی۔
مقام شکر ہے کہ ٹرمپ کی اس ہذیان گوئی پر عالمی برادری نے سخت ردعمل دیا،سعودی عرب ، اردن اور مصر نے ٹرمپ کے منصوبے کو دوٹوک الفاظ میں مسترد کیا، ترک صدر رجب طیب اردوان نے کہا کہ دنیا کی کوئی طاقت فلسطینیوں کو اپنی سرزمین سے بے دخل نہیں کرسکتی۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے اسے احمقانہ سوچ قرار دیا، روس نے اس کی شدید مخالفت کی اور چین نے صاف کہا کہ دنیا میں جنگل کاقانون نہیں بننے دیا جائے گا۔اس سخت عالمی ردعمل کے بعد ٹرمپ انتظامیہ وضاحتوں اور تاویلات پر اتر آئی اور کوشش کی گئی کہ ٹرمپ کے اس احمقانہ بیان کی کوئی قابل قبول توجیہ کی جائے، خود ٹرمپ کو کہنا پڑا کہ اسے غزہ کو خالی کرانے کے منصوبے پر عمل کی کوئی جلدی نہیں ہے مگر ایسا لگتا ہے کہ صہیونی لابی کو ٹرمپ کی حماقت اورکم عقلی سے فائدہ اٹھانے کی بہت جلدی ہے اور اس نے ہر صورت میں امریکا کوآگ سے کھیلنے پر آمادہ کرنے کا تہیہ کیا ہوا ہے۔چنانچہ دورہ ٔ واشنگٹن سے واپسی کے بعد جنگ بندی معاہدے سے متعلق نیتن یاہو حکومت کی ٹون بالکل ہی تبدیل ہوگئی اور اس نے معاہدے کی کھلم کھلی خلاف ورزیاں شروع کردیں۔مغربی کنارے کے متعدد علاقوں میں اس کی نسل کشی کی مہم ”آپریشن آئرن ڈوم” کے نام سے ویسے بھی جاری تھی، اس نے خود غزہ کے اندر بھی جنگ بندی معاہدے کی دھجیاں اڑاتے ہوئے پندہ ماہ بعد اپنے ملبے میں تبدیل کیے گئے گھروں کی طرف واپس آنے والے فلسطینیوں کو بہانے بہانے سے نشانہ بنانا شروع کردیا۔علاوہ ازیں معاہدے کی شقوں کے مطابق شمالی غزہ میں امداد کی رسائی میں بھی اس کی جانب سے دیدہ و دانستہ رکاوٹیں ڈالی گئیں۔
اس صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے اسلامی مقاومتی تنظیم حماس کو مجبوراً یہ اعلان کرنا پڑا کہ معاہدے پر عمل درآمد کی ضمانت کے ساتھ ہی بقیہ اسرائیلی قیدیوں کی رہائی ممکن ہوسکے گی۔اسرائیل اور اس کے سرپرست امریکا سے شاید قیدیوں کی رہائی کے مناظر دیکھے نہیں جاتے جو صہیونی ریاست کی ناکامی کے اشتہار کے طور پر پوری دنیا میں دیکھے جاتے ہیں،اس لیے اسرائیل کی فرمائش پر اب ڈونلڈ ٹرمپ نے معاہدے کو ایک طرف رکھتے ہوئے یہ انوکھا فرمان جاری کردیا ہے کہ حماس ہفتے کے روز تک تمام بقیہ صہیونی قیدیوں کو رہا کردے ورنہ غزہ کو جہنم بنادیا جائے گا۔بظاہر ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل ڈونلڈ ٹرمپ کے قبضے کے منصوبے کو آگے بڑھاتے ہوئے غزہ پر ایک بار پھر وحشیانہ بمباری شروع کرے گا،اس مقصد کے لیے اسرائیل کو دو ہزار پونڈ وزنی تباہ کن بموں کی ترسیل ٹرمپ کے خصوصی ایگزیکٹیو آرڈر کے بعد شروع ہوچکی ہے۔ٹرمپ کا شاید یہ خیال ہے کہ غزہ کے شہری اس تباہ کن بمباری کی تاب نہ لاتے ہوئے ایک بار پھر غزہ سے جنوب کی طرف انخلا کردیں گے جس کے بعد مصر کو رفح بارڈر کھولنے اور غزہ سے آنے والے پناہ گزینوں کے ریلے کو صحرائے سینا میں بسانے پر مجبور کیا جائے گا جبکہ مغربی کنارے کے فلسطینی شہریوں کو اردن کی سرحد کی طرف دھکیل دیا جائے گا جہاں اردن کی حکومت انہیں پہلے سے وہاں موجود لاکھوں فلسطینی پناہ گزینوں کے ساتھ آباد کرے گی۔اس مقصد کے لیے درکار اربوں ڈالرز کا سرمایہ سعودی حکومت کا بازو مروڑ کر اس سے حاصل کیا جائے گا۔اس طرح فلسطین کو فلسطینیوں سے پاک کرنے کا ناپاک منصوبہ کامیاب ہوگا۔ یہ دراصل اسی نام نہاد ”ابراہیمی منصوبے ” کی قدرے تبدیل شدہ صورت ہے جو ٹرمپ کے گزشتہ دور میںان کے یہودی داماد جیراڈ کشنر نے پیش کیا تھا اور جس پر بدقسمتی سے بعض اسلامی و عرب ممالک نے بھی مبینہ طور پر ٹرمپ سرکار سے کچھ خفیہ عہدوپیمان کیے تھے۔ اس منصوبے میں اگر بچ جانے والے فلسطینیوں کے لیے فلسطین کے اندر فلسطینی اتھارٹی ہی کی طرح نام نہاد ریاست کی گنجائش رکھی گئی تھی تو نئے نقشے اور منصوبے میں اس کو بھی بالکل صاف کردیا گیا ہے ۔
سعودی عرب، مصر اور اردن جیسے متعلقہ ممالک نے نئے منصوبے کو بروقت اور کھلے لفظوں میں مسترد کرکے بہتر حکمت عملی کا مظاہرہ کیا ہے تاہم ٹرمپ کی احمقانہ تجویز اور غزہ کو جہنم بنادینے کی دھمکی جیسے باؤلے پن کا علاج کرنے کے لیے اسلامی ممالک کو اب بیانات سے آگے جاکر فوری اور عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔یہ ایک تلخ سچائی ہے کہ ان ممالک کے پاس ٹرمپ کا راستہ روکنے کے لیے درکار عسکری و معاشی طاقت نہیں ہے تاہم سفارتی محاذ پرچین،روس اور دیگر عالمی قوتوں کو ساتھ ملاکر اور خود اسلامی ممالک کا وسیع اتحاد قائم کرکے ٹرمپ سرکار کو ایک مضبوط پیغام دیا جاسکتا ہے۔ اگر کینیڈا اور میکسکو جیسے ممالک ٹرمپ کی دھمکیوں کے آگے کھڑے ہوسکتے ہیں تو اسلامی ممالک کیوں نہیں ہوسکتے۔ یہاں ذہن میں رکھنے کی بات یہ ہے کہ ان ممالک کے پاس ٹرمپ کے شیطانی منصوبے کو روکنے کا ابھی وقت ہے کہ وہ غزہ پر دوبارہ جارحیت رکوانے کے لیے فوری طور پر میدان میں آئیں۔غزہ میں وحشیانہ بمباری کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوگیا توحالات پھر کسی کے قابو میں نہیں رہیں گے۔ایسا نہ ہو کہ اردن اور مصر میں بھی شام جیسا انقلاب برپا ہوجائے اور پورے خطے کا نقشہ ہی تبدیل ہوکر رہ جائے۔