توہینِ مذہب کے مقدمات کا ایک حساس پہلو

ان دنوں توہینِ مذہب میں درج مقدمات کے حوالے سے یہ بحث جاری ہے کہ توہینِ قرآن کریم اور توہینِ رسالت کے بعض مقدمات پر اس پہلو سے نظر ثانی کی ضرورت ہے کہ جس طرح کسی بھی گستاخ کو بہرحال اس کے کیفر کردار تک پہنچانا ہماری دینی و قانونی ذمہ داری ہے، اسی طرح کسی بے گناہ کو سزا سے بچانا بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ اس لیے ان مقدمات کا دونوں حوالوں سے قومی سطح پر جائزہ لینے اور ممتاز دینی و قانونی ماہرین کا اعلی سطحی کمیشن قائم کرنے کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے تاکہ گستاخوں کو ان کے سنگین و قبیح جرم کی جلد از جلد سزا دینے کے ساتھ ساتھ بے گناہوں کی گلوخلاصی کا بھی اہتمام ہو سکے۔ اس سلسلہ میں ربع صدی قبل کے دو مقدمات کے بارے اپنا ایک کالم دوبارہ قارئین کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں، اس سے مسئلہ کے اس پہلو کی حساسیت کا کسی حد تک اندازہ کیا جا سکتا ہے:

……دراصل مغرب اس معاملے میں مسلمانوں کے جذبات کی شدت اور حساسیت کا پوری طرح اندازہ نہیں کر رہا اور وہ اس بات کا ادراک نہیں کر پا رہا کہ مسلمان قرآن کریم اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حرمت اور تقدس کے مسئلے پر اس قدر جذباتی اور حساس ہیں کہ وہ اس کے تحفظ کے جذبے کے تحت کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ جناب رسول اکرم کی ناموس اور حرمت کے سوال پر دنیا بھر کے مسلمان اپنے جذبات کا جس انداز سے اظہار کر رہے ہیں وہ سب کے سامنے ہے جبکہ قرآن کریم کے حوالے سے مسلمانوں کی حساسیت کا اندازہ ایک حالیہ واقعہ سے کیا جا سکتا ہے۔
قدرت اللہ اینڈ کمپنی لاہور میں قرآن کریم کی طباعت و اشاعت کا ایک بڑا ادارہ ہے جس نے گزشتہ دنوں قرآن کریم کا ایک نسخہ سعودی عرب کی طرز پر شائع کیا ہے جو مسئلہ بن گیا ہے۔ سعودی عرب کا رسم الخط اور انداز تحریر جنوبی ایشیا سے مختلف ہے۔ قرآن کریم کے متن میں تو کسی جگہ کوئی فرق نہیں اور نہ ہو سکتا ہے، لیکن بعض سورتوں کے ناموں اور بعض الفاظ کے طرز تحریر میں فرق ہے جس سے جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کو سعودی عرب کی طرز پر طبع شدہ قرآن کریم کی تلاوت میں دقت پیش آتی ہے، چنانچہ حرمین شریفین میں بھی اس فرق کو ملحوظ رکھتے ہوئے عام لوگوں کو تلاوت کے لیے دونوں طرز کے نسخے الگ الگ فراہم کیے جاتے ہیں، مثلا قرآن کریم کی بعض سورتوں کے ناموں میں فرق ہے۔ ہمارے ہاں جس سورہ کو بنی اسرائیل کے نام سے پڑھا جاتا ہے، سعودی نسخوں میں اس سورہ کو الاسرا کے نام سے لکھا گیا ہے۔ اسی طرح سورة المومن کا نام سورہ الغافر، سورہ حم السجدہ کا نام سورہ فصلت، سورہ الدھر کا نام سورہ الانسان، اور سورہ اللہب کا نام سورہ المسد لکھا گیا ہے۔ ان سورتوں کے یہ سب نام درست ہیں اور احادیث و آثار میں ان کا تذکرہ موجود ہے لیکن چونکہ ہمارے ہاں جنوبی ایشیا میں جو رسم الخط اور مصحف صدیوں سے رائج چلا آرہا ہے اس کے مطابق یہ نام معروف نہیں ہیں، اس لیے قدرت اللہ اینڈ کمپنی کی طرف سے اس نسخے کی اشاعت کے ساتھ ہی یہ مسئلہ کھڑا ہوگیا ہے کہ قرآن کریم کی سورتوں کے نام تبدیل کر دیے گئے ہیں۔ اس پر معروف قانون دان جناب ایم ڈی طاہر نے لاہور ہائی کورٹ میں رٹ دائر کر دی اور پنجاب اسمبلی میں پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والی ایم پی اے محترمہ فرزانہ پراچہ نے تحریک التوا کا نوٹس دے دیا۔ محکمہ اوقاف اور وزارت مذہبی امور نے بھی اس کا نوٹس لیا اور قدرت اللہ اینڈ کمپنی نے صورتحال کی نزاکت کو محسوس کرتے ہوئے حکومت پنجاب کے قائم کردہ قرآن بورڈ سے رجوع کر لیا اور ذمہ دار مفتیان کرام سے بھی رابطہ قائم کیا۔ اس پر جامعہ اشرفیہ لاہور کے مولانا مفتی حمید اللہ خان نے لکھا:
سوال میں ذکر کردہ قدرت اللہ کمپنی کا چھپا ہوا تجویدی قرآن مجید میں نے بغور بعض جگہوں سے دیکھا ہے، جن سورتوں کے نام مرتب نے تبدیل کیے ہیں، روایات سے ان کا ثبوت تو اپنی جگہ مسلم ہے لیکن یہ ہمارے ملک میں غیر معروف ہیں جس کی وجہ سے عوام میں تشویش کی لہر دوڑ گئی اور مزید فتنہ پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔ وہ یہ تو کر سکتے تھے کہ معروف نام لکھ کر بین القوسین غیر معروف نام ذکر کر دیے جائیں لیکن مرتب نے ایسا نہیں کیا۔ نیز رسم الخط میں خط عثمانی کی اتباع بالاجماع واجب ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے باوجود دلی خواہش اور جائز ہونے کے خانہ کعبہ کی (ابراہیمی بنیادوں پر) ازسرنو تعمیر نہیں فرمائی تھی کہ کہیں امت میں فتنہ برپا نہ ہو جائے، لہٰذا سد الفتنہ (فتنہ کے امکان کو روکنے) کے لیے مذکورہ قرآن مجید کی اشاعت پاکستان میں فی الفور بند کی جائے یا اس کی اصلاح کی جائے۔
پنجاب قرآن بورڈ کے چیئرمین مولانا محمد حنیف جالندھری نے اس پر مختلف مکاتب فکر کے علمائے کرام کا ایک اجلاس لاہور بورڈ کے دفتر میں طلب کر لیا جس میں مولانا مفتی محمد خان قادری، مولانا عبد المالک خان ایم این اے، پروفیسر عبد الجبار شاکر، محترم میاں نعیم الرحمان اور راقم الحروف نے شرکت کی۔ اجلاس میں ساری صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد جس رائے کا اظہار کیا گیا اس کا خلاصہ یہ ہے: مذکورہ سورتوں کے تبدیل شدہ نام اگرچہ روایات سے ثابت ہیں لیکن ہمارے ہاں متعارف نہیں ہیں۔ اسی طرح سعودی رسم الخط ہمارے ہاں بعض دیگر حوالوں سے بھی معروف نہیں ہے اس لیے اس سے عام مسلمانوں میں غلط فہمیاں پیدا ہو سکتی ہیں، لہٰذا آئندہ اس قسم کے نسخے کی اشاعت سے گریز کیا جائے اور قدرت اللہ اینڈ کمپنی ایک وضاحتی نوٹ چھپوا کر مطبوعہ قرآن کریم کے ہر نسخے پر چسپاں کرے۔ اجلاس میں، جس میں محکمہ اوقاف پنجاب کے سیکشن آفیسر جناب محمد صدیق منہاس اور دیگر بعض افسران نے بھی شرکت کی، قرآن کریم کی حرمت و تقدس کے حوالے سے لاہور میں ہونے والا ایک اور واقعہ بھی زیر بحث آیا جو قارئین کی دلچسپی کی خاطر پیش خدمت ہے۔
لاہور کے ایک کاروباری بزرگ جناب ناظم الدین پنجاب قرآن بورڈ کے ممبر ہیں اور قرآن کریم کے پرانے اوراق کو بے حرمتی سے بچانے کے لیے ایک عرصہ سے سرگرم عمل ہیں۔ انہیں گزشتہ ہفتے لاہور میں قرآن کریم کی بے حرمتی کے ایک واقعہ کی نشاندہی پر پولیس نے گرفتار کر لیا۔ یہ داستان خود انہی کے قلم سے ملاحظہ کیجیے جو انہوں نے مذکورہ بالا اجلاس میں پنجاب قرآن بورڈ کے چیئرمین مولانا محمد حنیف جالندھری کو پیش کی۔
کل بعد نماز جمعہ نہر میں پڑے شہید قرآنی اور مقدس اوراق کے بارے میں پر پولیس کو اور خبریں اخبار کو اطلاع دی تو خود مجھے ہی پولیس نے اس واقعہ کا ملزم سمجھا اور کئیگھنٹے جوہر ٹان اور تھانہ گرین ٹان میں تفتیش کرتی رہی۔ میرے دو ہمسائے جو وہاں سے گزر رہے تھے مجھے دیکھ کر رکے انہیں بھی میرے ساتھ یہ شرمندگی چھ گھنٹے تھانے میں رہ کر برداشت کرنا پڑی جنہیں وہ میرے ساتھ تھانہ لے گئے۔ میں نے انہیں یہ باور کرانے کی بہت کوشش کی کہ میں ایک ذمہ دار آدمی ہوں اور زندگی کا بہت قیمتی وقت اس عظیم کارخیر میں اللہ کی رضا کے لیے خرچ کرتا ہوں۔ میں تو اسے (قرآن کریم کو) توہین اور بے ادبی سے بچانے کے لیے اپنی بہترین کوشش کر رہا ہوں اور پنجاب قرآن بورڈ کا ممبر بھی ہوں مگر میرا موبائل اور گاڑی اپنے قبضے میں رکھی، کچھ ریکارڈ میری گاڑی میں شہید قرآن عظیم اور نشر و اشاعت سے متعلق تھا جو میں ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتا ہوں وہ اسے چیک کرتے رہے۔ اس واقعے سے جہاں میری ہمسایوں کے سامنے بے عزتی ہوئی وہاں گھر والے بھی سخت پریشان رہے، مسلسل چھ گھنٹے پوچھ گچھ کی گئی پھر رہائی ملی۔
مولانا محمد حنیف جالندھری نے اجلاس میں بتایا کہ جناب ناظم الدین نے اس حراست کے دوران کسی طرح انہیں موبائل فون پر اطلاع کروا دی تھی جس پر انہوں نے آئی جی پنجاب پولیس سے خود بات کی اور بڑی مشکل سے یہ سمجھا پائے کہ ناظم الدین صاحب ایک شریف شہری ہیں، پنجاب قرآن بورڈ کے معزز رکن ہیں اور ایک عرصے سے قرآن کریم کے بوسیدہ نسخوں اور اوراق کو بے حرمتی سے بچانے کے لیے رضاکارانہ خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ تب جا کر انہیں لاہور پولیس کی تفتیش سے نجات ملی ورنہ خدا جانے انہیں دہشت گردی کے کون سے کیس میں ڈال دیا جاتا کیونکہ تفتیش کے دوران ان سے مسلسل یہی پوچھا جا رہا تھا کہ ان کا تعلق کس دہشت پسند تنظیم سے ہے؟
اجلاس میں اس واقعہ کو انتہائی افسوسناک قرار دیتے ہوئے پنجاب پولیس کے اس طرز عمل پر شدید احتجاج کیا گیا اور حکومت پنجاب اور آئی جی پولیس سے اس کا فوری نوٹس لینے کا مطالبہ کیا گیا، چنانچہ اس قسم کے واقعات قرآن کریم اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عقیدت و محبت اور ان کے جذبات کی شدت و حساسیت کی علامت ہیں جس کا مسلم حکومتوں اور مغرب کو بہرحال احترام کرنا ہوگا۔