ٹرمپ کی ایسی تیسی (ندیم تابانی)

ٹرمپ وہی کر رہے ہیں، جس کی ہر با خبر شخص کو اْن سے توقع تھی، مسلمان تنظیموں، اداروں اور ووٹروں نے بھیڑ چال میں اندھا دھند اْن کی حمایت کی، دھڑا دھڑ ووٹ ڈالے، کچھ خوش نما نعروں کے دھوکے میں آئے، کچھ ٹرمپ کے نعروں کا مفہوم ہی غلط سمجھے اور کچھ ذاتی و سیاسی مفاد میں ٹرمپ کے گن گا نے لگے، چنانچہ اب امریکی صدر پر دنیا کا سب سے بڑے بد معاش بننے کا بھوت سوار ہے، اسرائیل کو تھپکی، ہلہ شیری دے رہے ہیں، معاہدے پر عمل یہودی نہیں کر رہے اور ایسا جان بوجھ کر ہو رہا ہے تاکہ جو کسر رہ گئی تھی وہ بھی پوری کی جائے۔ عرب اور دیگر مسلم ممالک حسب سابق رسمی بیان بازی سے آگے بڑھنے کی زحمت ہی نہیں کر رہے ورنہ سب مل کر دو دو طمانچے، گھونسے ہی لگائیں ٹرمپ کی ایسی تیسی ہو جائے لیکن ان طمانچوں اور گھونسوں کی بسم اللہ کون کرے؟
٭٭٭
بڑے خان صاحب بڑی سرکار کے نام خط پہ خط لکھے جارہے ہیں، واقفان ِ حال کادعوی ہے وہاں سے جواب آیا ہے، نہ ہی آنے کا امکان ہے، پہلا خط لکھنے کے بعد بڑے خا ن صاحب کا حال کچھ یوں تھا
کسی کو بھیج کے خط ہائے یہ کیسا عذاب آیا
کہ ہر ایک پوچھتا ہے نامہ بر آیا؟ جواب آیا؟
ہر طرف یہی چرچا تھا، یہی پوچھا جا رہا تھا خط پہنچا یا نہیں، پہنچا تو جواب آیا، یا نہیں آیا، خان صاحب نے سوچا انتظار کے ساتھ ساتھ کیوں نہ ایک اور خط لکھ دوں، چنانچہ دوسرا خط لکھ مارا اور اس کے بعد خان صاحب کی کیفیت کچھ یوں ہونے لگی
نامہ بر تو ہی بتا تونے تو دیکھے ہوں گے
کیسے ہوتے ہیں وہ خط جن کے جواب آتے ہیں
اب میڈم علیمہ خان کے بقول ان کے برادر ایک اور خط لکھ رہے ہیں، توقع ہے تیسرے خط کے بعد کچھ ایسی کیفیت بن جائے گی
کیا بھول گئے ہیں وہ مجھے پوچھنا قاصد!
نامہ کوئی مدت سے میرے کام نہ آیا
اور ایسا نہیں کہ خان صاحب بس تین خط لکھ کر چھوڑ دیں، جواب نہ آ نے پرایسا بھی کرسکتے ہیں
توقع ہے دھوکے میں آکر وہ پڑھ لیں
کہ لکھا ہے نامہ انہیں خط بدل کر
یہ ترکیب بھی کارگر نہ ہوئی تو کیا پتا بڑے خان صاحب بس خط ہی کو مشغلہ بنا لیں، ہر ہفتے یا کم از کم ہر ماہ خط لکھیں ایسے میں زبانِ حال کچھ یوں ہو گی
خط لکھیں گے گرچہ مطلب کچھ نہ ہو
ہم تو عاشق ہیں تمھارے نام کے
دوسری طرف باخبر حضرات خان صاحب کی ترجمانی کچھ اس طرح کر رہے ہیں
میرا خط اس نے پڑھا، پڑھ کے نامہ بر سے کہا
یہی جواب ہے اس کا، کوئی جواب نہیں
٭٭٭
کراچی میں ڈمپروں نے آفت ڈھا اور قیامت مچا رکھی ہے، ایسا لگتا ہے کسی نے قبرستان کی آبادی بڑھانے کا انھیں لائسنس دے رکھا ہے، مطالبے پہ مطالبہ احتجاج اور شور شرابا ہو رہا ہے انھیں بند کیا جائے، دن کے وقت سڑکوں پہ نظر نہ آئیں لیکن جناب! ڈمپروں کے کان پہ جوں رینگ رہی ہے نہ ٹریفک پولیس اور سرپرستان پولیس کے، دن کے وقت پابندی کے مطالبے کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ راہ گیروں، سائیکل، موٹر سائیکل والوں کو رات میں نشانہ بنانا شروع کر دیں، بلکہ مطلب یہ ہے کہ دن میں رش زیادہ ہوتا ہے اور یہ کم بخت راستہ بنانے کے چکر میں راستہ صاف کر جاتے ہیں، باخبر حضرات کا کہنا ہے اکثر ڈمپر ڈرائیوروں کے پاس لائسنس بھی نہیں ہوتا، انھیں پولیس والے بھی کم ہی روکتے ہیں اور روکیں بھی تو ذرا دور سے ہی اشارہ کرتے ہیں کہ ایسا نہ ہو روکنے والے کو ہی چلتا کردیں۔ ماضی میں ایسے واقعات ہو چکے ہیں کہ ٹریفک پولیس کے اہلکار ان کے ہتھے چڑھ چکے۔ سندھ حکومت کو اس بابت سنجیدگی سے کچھ سوچنا ہوگا، آج یعنی منگل کو صبح سویرے مال بردار دو ٹرک قانون ہاتھ میں لینے والے شہریوں کے ہتھے چڑھ گئے اور نذر آتش ہو گئے۔
٭٭٭
پی ٹی آئی رہنما کے بیانات سے الگ رہا تھا 8فروری کو نہ جانے کیسا طوفان اور آندھی آئے گی، لیکن سابقہ اپیلوں، پروگراموں کی طرح یہ دن بھی پی ٹی آئی کے منہ پر طمانچے کی طرح پڑا، پورے پاکستان میں لاکھوں ووٹروں اور کروڑوں حامیوں کی دعوے دار پارٹی کے طوفانی جلسے میں تقریبا دس ہزار لوگ آئے اور پروپیگنڈا پور کے ساتھ مل کر چاند پر تھو تھو کرنے لگے۔ ایسا تھوک ہمیشہ اپنے منہ پہ ہی آتا ہے۔ اب کی بار بھی یہی ہورہا ہے اور اب اپنی اوپر کی منزل خالی ہونے کا ثبوت فراہم کرنے کے لیے اسلام آباد پر چڑھائی کا پروگرام بنا رہے ہیں اور بیرون ملک بیٹھے طو فان مچانے کا دعوی کرنے والے طوطے نہ صرف انتظار کر رہے بلکہ مختلف طریقوں سے لابنگ کر کے کچھ صحافیوں کو تیار کر رہے ہیں کہ ہندوستانی وزیر اعظم مودی کو دورہ امریکا کے موقع پر اکسائیں کہ وہ ان کی سرپرستی کرکے ٹرمپ کے منہ سے اپنے لنگوٹیے یار کے حق میں کچھ جملے یا چند الفاظ ہی نکلوائیں تاکہ حجت تو پوری ہو، اس فرمائشی پروگرام کا نتیجہ کیا نکلے گا اور پاکستان کے حافظ جی اس فرمائش کاکیا حشر نشر کرتے ہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا۔