امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک مرتبہ پھر غزہ اور اہلِ غزہ کے متعلق استعماری عزائم کا اظہار کیا ہے۔ بلاشبہ یہ امریکی رعونت اور طاقت پر مشتمل حماقت یا پاگل پن کا تفاخر ہے جو ایک صدی کے ستائے ہوئے مظلوموں اور ستم رسیدہ انسانوں کے جذبات و احساسات ہی نہیں بلکہ ان کے عقیدے، ایمان اور حب الوطنی کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔ قبل ازیں حماقت کے اس مظاہرے پر ڈونلڈ ٹرمپ کو جہاں دنیا بھر سے لعنت و ملامت موصول ہوئی، وہاں مسلم امہ کی مزاحمت کے استعارے غزہ کے حریت پسندوں کی جانب سے دوٹوک الفاظ میں کہا گیا تھا کہ غزہ پر قبضہ اور اہلِ غزہ کا جبری انخلا، ایک ایسا خواب ہے جس کی کوئی تعبیر نہیں ہے۔
حماس کے ترجمان نے ایک مرتبہ پھر امریکی عزائم کے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ غزہ ناقابلِ تسخیر رہے گا۔ فلسطینی غزہ کو چھوڑ کر کہیں نہیںجائیں گے۔ امریکا کو ناکامی کا منہ دیکھنا ہوگا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ایک ایسے وقت میں جب غزہ پر قبضے کی خواہش مند اسرائیل کی دہشت گرد فوج کو فوجی قوت کے باوجود اہم تزویراتی مقامات سے انخلا پر مجبور ہونا پڑا ہے اور حماس نے ایک مرتبہ پھر غزہ کا کنٹرول سنبھال لیا ہے، امریکی صدر کی جانب سے غزہ پر قبضے کا خیال ایک نئی جنگ کے آغاز کا سبب بن سکتا ہے۔ ٹرمپ اور نیتن یاہو جو توہین آمیز اور اشتعال انگیز زبان استعمال کررہے ہیں، وہ عالمی سطح پر نئے تصادم کی راہیں ہموار کرسکتی ہے۔ یاد رہے کہ نیتن یاہو سعوی عرب کے متعلق بھی توہین آمیز گفتگو کر چکا ہے۔
یہ سوال اہمیت کا حامل ہے کہ اسرائیل جو کہ امریکا سے اربوں ڈالر مالیت کا مزید اسلحہ طلب کر رہا ہے، کیا فوری طور پر کوئی نئی جنگ چھیڑنے کی پوزیشن میں ہے؟ یاد رہے کہ ممالک کی اکثریت جنگ کے خلاف ہے۔ اقوامِ متحدہ کے جنرل سیکرٹری نے اپیل کی ہے کہ غزہ میں جنگ بندی کو یقینی بنایا جائے اور مزید انسانی جانوں کے ضیاع کو روکا جائے کیوں کہ انسانیت اس جنگ سے اکتا چکی ہے اور وہ دوبارہ خون خرابہ نہیں دیکھنا چاہتی۔ دنیا میں امن کے قیام کا خواہش مند ہر شخص یہی چاہتا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں جنگ کے شعلے دوبارہ نہ بھڑکیں اور غزہ کے معصوم بچوں کا قتلِ عام پھر سے نہ دیکھنا پڑے، تاہم جہاں تک امریکا اور اسرائیل کا تعلق ہے تو انھیں اہلِ غزہ کا سکون ہضم نہیں ہو رہا۔ اہل غزہ اپنے وطن، آزادی اور آبرومندانہ زندگی کی خاطر ستر ہزار سے زائد شہدا کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں۔ تباہ شدہ غزہ کے کھنڈرات میں ہر جانب انسانوں کی یادیں اور خواب بکھرے ہوئے ہیں لیکن انہی کھنڈرات سے مزاحمت کی وہ غیرمتزلزل قوت نمودار ہو رہی ہے جس نے سلطنتِ عثمانیہ کے زوال کے بعد پہلی مرتبہ علاقائی دہشت گرد اسرائیل اور اس کی پشت پر موجود واشنگٹن، لندن، پیرس اور اقوامِ سفید کے دیگر مراکز کو تاریخی ہزیمت سے دوچار کیا ہے۔ یوں غور کیا جائے تو ستر ہزار شہدا کی جانوں کا نذرانہ رائیگاں نہیں گیا۔ ان شہدا نے اپنے لہو سے مسلم امہ کو ایک مرتبہ پھر یاد دلایا ہے کہ وہ آبرومندانہ طرزِ زندگی کو ترجیح دے کر ہی اپنی آزادی کا پرچم سربلند رکھ سکتے ہیں بصورتِ دیگر امریکی استعمار انھیں گاجر اور چھڑی کے کھیل میں ذلت و رسوائی کا نشانہ بناتا رہے گا۔
امریکی غرور اور حماقت کے مظہر ڈونلڈ ٹرمپ کا لب ولہجہ اور اقوامِ عالم کے ساتھ تمسخرانہ اندازِ گفتگو میں پوشیدہ کھوکھلا پن اہلِ بصیرت کی نگاہوں سے پوشیدہ نہیں ہے۔ فلسطین کے قضیے میں امریکا کی جانب داری بھی واضح ہے۔ انیس سے اڑتالیس میں برطانوی استعمار نے اسرائیل کو جنم دیا جس کے بعد اسے امریکی سامراج نے گود لے لیا۔ ان دونوں طاقتوں کی پشت پناہی کی وجہ ہی سے اسرائیل نے دہشت گردی کے ذریعے فلسطینیوں کو ان کی زمینوں سے بے دخل کیا اور مسلسل نئی آبادیوں کی تعمیر جاری رکھی۔ اس دوران فلسطینیوں نے اسرائیل کے خلاف ہر ممکن مزاحمت کی۔ پچھتر برس کی مسلسل آزمائشوں اور تکالیف کے بعد اہلِ غزہ نے پہلی مرتبہ اسرائیل کو اپنی شرائط کے مطابق جنگ بندی کرنے اور فوجی قبضہ ختم کروانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس فتح نے حریت پسند تنظیموں کا حوصلہ بہت بلند کردیا ہے۔ قیاد ت کی شہادت کے باوجود حریت پسندوں کی حکمتِ عملی، ان کی منظم و مربوط نقل و حرکت اور جرأت مندانہ پیغامات اس بات کی نشان دہی کرتے ہیں کہ اگر اسرائیل نے جنگ چھیڑنے کی کوشش کی تو اسے بھاری فوجی نقصان کے سوا کچھ بھی حاصل نہ ہوگا۔
اس تمام ماحول میں سعودی عرب کے متعلق نیتن یاہو کی زبان درازی قابلِ غور ہے۔ کسی بھی نئے تنازع کی صورت میں مسلم ممالک سعودی عرب کا ساتھ دیں گے۔ گزشتہ ہی روز دفترِ خارجہ کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں پاکستان کے نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار نے واضح کیا کہ پاکستان اپنے ہر قدم پر اپنے دیرنیہ دوست سعودی عرب کے ساتھ ہے اور اسرائیل کی جانب سے سعودی عرب کی حدود میں فلسطینی ریاست کے قیام کے احمقانہ بیان کی شدید مذمت کرتا ہے اور مطالبہ کرتا ہے کہ فلسطینیوں کو ان کے وطن میں ایک آزاد ریاست کے قیام کی اجازت دی جائے کیوں کہ یہ ان کا حق ہے۔ مصر نے اس ماہ کے آخر تک غزہ کی صورتِ حال پر غور اور گفت و شنید کے لیے مسلم ممالک کا اجلاس طلب کر لیا ہے، عرب لیگ، پاکستان اور ایران کی جانب سے اس اجلاس کی مکمل تائید کی گئی ہے۔ امریکا اور اسرائیل کے حکمران اس وقت پست اور اوچھے بیانات دے کر صورتِ حال سے کوئی نیا فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن محسوس یہ ہو رہا ہے کہ ٹیکنالوجی کی قوت کے بل زمین کے خدا بننے کے دعوے داروں کو آج بیانیے کی ترتیب سجھائی نہیں دے رہی۔ امریکی صدر ایک ہی وقت میں متضاد بیانات دے کر یہ ثابت کرنے کی کوشش میں ہے کہ امریکا آج بھی جو چاہے کر سکتا ہے لیکن اسے یوکرین کے محاذ پر پیوٹن کے سامنے جھکنے پر مجبور ہونا پڑ رہا ہے۔ ان حالات میں سعودی عرب کو چاہیے کہ وہ اسرائیل کی جانب سے توہین اور تمسخر کا جواب کسی عملی اقدام کے ذریعے دے۔ اہل غزہ کی مزاحمت خطے میں ایک نئی قوت کے ظہور کو ثابت کر چکی ہے۔ عرب ممالک کو اس نئی قوت کو تسخیر کرنے کی کوششوں میں تضییعِ اوقات کی بجائے اسے دوست بنا لینا چاہیے۔ شام کے انقلاب نے اس قوت کے قدم جما دیے ہیں۔ عرب ریاستوں کو بھی اب بزدلی کا چولہ اتار پھینکنا چاہیے۔ جہاں تک امریکی عزائم کا تعلق ہے تو وہ آج سے نہیں، کئی دھائیوں سے منافقت کے پردے میں پوشیدہ تھے، اہلِ غزہ کی مزاحمت نے انسانی حقوق کے بزعمِ خود عالمی ٹھیکے داروں کے منہ سے نقاب اتار دیا ہے، اسی لیے ان کی زبانیں جھاگ اگل رہی ہیں۔