ٹرمپ کا حالیہ بیان، جس میں انہوں نے غزہ پٹی کے باشندوں کو وہاں سے بے دخل کرنے اور اس علاقے کو ”ترقی یافتہ” بنانے کی بات کی، عالمی سطح پر شدید تنقید کا باعث بنا ہے۔ ان کے الفاظ سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ کسی ریئل اسٹیٹ ڈویلپر کی طرح سوچ رہے ہیں، جو زمین پر قابض ہو کر اسے اپنے تجارتی مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے۔
غزہ ایک ایسا علاقہ ہے جو دہائیوں سے اسرائیلی حملوں، محاصرے اور مسلسل تباہی کا شکار ہے۔ یہاں کے باشندے بنیادی سہولیات سے بھی محروم ہیں اور اسرائیلی حملوں کی وجہ سے انفراسٹرکچر بری طرح تباہ ہو چکا ہے۔ 2007سے، جب سے حماس نے اس علاقے کا کنٹرول سنبھالا، اسرائیل نے غزہ پر سخت پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ نتیجتاً وہاں غربت، بے روزگاری اور بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بڑھتی جا رہی ہیں۔
ٹرمپ نے اپنے بیان میں کہا کہ غزہ کے باشندوں کو کسی دوسرے ملک میں منتقل کر دیا جائے اور اس علاقے کو دوبارہ ترقی دی جائے تاکہ یہ ایک جدید اور پرکشش جگہ بن سکے۔ کسی بھی قوم کو اس کے آبائی علاقے سے زبردستی نکالنا ایک غیر انسانی عمل ہے۔ فلسطینی پہلے ہی کئی دہائیوں سے ظلم کا شکار ہیں اور ان کی زمینوں پر غیر قانونی اسرائیلی بستیاں قائم کی جا رہی ہیں۔ اب اگر غزہ کے عوام کو بھی بے دخل کر دیا گیا، تو یہ کھلی ناانصافی ہوگی۔ ٹرمپ کے الفاظ سے ایسا لگتا ہے جیسے وہ غزہ کی تعمیرِ نو کو محض ایک کاروباری موقع کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔
کسی قوم کو اس کی مرضی کے خلاف بے دخل کرنا جنیوا کنونشن سمیت کئی بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ اقوام متحدہ نے بھی کئی بار اسرائیلی اقدامات کی مذمت کی ہے اور یہ بیان ان اصولوں کے منافی ہے۔ اس طرح کی تجاویز خطے میں مزید کشیدگی اور عدم استحکام کا باعث بن سکتی ہیں۔ اگر فلسطینیوں کو کسی اور ملک میں بھیجنے کی کوشش کی گئی تو یہ عرب ممالک، خاص طور پر مصر، اردن اور لبنان، کے لیے ایک بڑا مسئلہ بن سکتا ہے، کیونکہ وہ پہلے ہی لاکھوں فلسطینی پناہ گزینوں کو سنبھال رہے ہیں۔ فلسطینی عوام نے اس بیان پر شدید غصے کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنی سرزمین سے کسی قیمت پر دستبردار نہیں ہوں گے۔ حماس اور دیگر فلسطینی تنظیموں نے بھی ٹرمپ کے اس بیان کی مذمت کی ہے اور اسے صہیونی عزائم کی حمایت قرار دیا ہے۔
مسلم حکمرانوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ فلسطینی عوام کے حقوق کے تحفظ کے لیے عملی اقدامات کریں۔ محض زبانی بیانات اور قراردادیں پاس کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا، بلکہ مسلم ممالک کو سفارتی دباؤ ڈالنا ہوگا تاکہ امریکہ اور اسرائیل کے خلاف ایک مضبوط محاذ کھولا جا سکے۔ اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) اور دیگر بین الاقوامی پلیٹ فارمز پر فلسطینی عوام کے خلاف ہونے والی ناانصافیوں کو روکنے کے لیے عملی کوششیں کی جانی چاہئیں۔ مسلم ممالک کو اسرائیل اور اس کے حمایتی ممالک کے ساتھ تجارتی اور معاشی تعلقات پر نظر ثانی کرنی چاہیے اور فلسطینیوں کے حق میں مالی امداد فراہم کرنی چاہیے۔ مسلم دنیا کو اپنی مشترکہ دفاعی حکمت عملی ترتیب دینی چاہیے تاکہ فلسطینیوں کو مکمل طور پر بے یار و مددگار نہ چھوڑا جائے۔ میڈیا کے ذریعے فلسطینی کاز کو مزید اجاگر کرنا انتہائی ضروری ہے تاکہ دنیا کو اسرائیلی اور امریکی عزائم کے بارے میں آگاہی مل سکے۔ اقوام متحدہ میں مسلم ممالک کو ایک مؤثر آواز بلند کرنی چاہیے تاکہ فلسطینیوں کے حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔
یہ انتہائی افسوسناک ہے کہ بین الاقوامی طاقتیں اس معاملے پر کھل کر بات نہیں کر رہیں۔ امریکہ کا یہ منصوبہ نہ صرف فلسطینیوں کے بنیادی حقوق کو پامال کرتا ہے بلکہ عالمی انصاف کے اصولوں کے بھی خلاف ہے۔ اگر عالمی برادری نے خاموشی اختیار کی، تو اس سے دیگر طاقتوں کو بھی ایسی ناانصافیوں کے لیے شہ ملے گی۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ بیان ایک سنگین سازش کی عکاسی کرتا ہے، جس کا مقصد فلسطینیوں کو ان کی زمین سے بے دخل کر کے وہاں تجارتی مقاصد حاصل کرنا ہے۔ یہ ایک غیر منصفانہ اور ناقابل قبول تجویز ہے جو نہ صرف عالمی قوانین کے خلاف ہے بلکہ مشرق وسطیٰ میں مزید بدامنی اور کشیدگی کو جنم دے سکتی ہے۔ فلسطینی عوام کو اپنی سرزمین پر رہنے کا پورا حق حاصل ہے اور انہیں جبراً بے دخل کرنے کی کوئی بھی کوشش انسانیت کے خلاف جرم ہوگی۔ عالمی برادری، خاص طور پر مسلم ممالک، کو اس معاملے پر سخت مؤقف اپنانا چاہیے اور فلسطینیوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے عملی اقدامات کرنے چاہیے۔