رجب المرجب کے آخر اور شعبان المعظم کی ابتدا میں دینی مدارس وجامعات کے داخلی سالانہ امتحانات ہوتے ہیں اور اسی کے ساتھ وفاق ہائے مدارس کے امتحانات بھی منعقد ہوتے ہیں۔ ختمِ بخاری کی تقریبات ہوتی ہیں اور تقسیمِ اسناد ودستارِ فضیلت کے سالانہ جلسے منعقد ہوتے ہیں۔ یہ روایت ہمارے ہاں عرصے سے چلی آرہی ہے۔ دینی مدارس وجامعات سے بیزار لوگ تو پریشان رہتے ہیں کہ اتنی تعداد میں مدارس کی ضرورت کیا ہے، انہیں علم نہیں کہ ہمیں اب بھی ملک کے اندر و بیرونِ ملک رِجالِ کار کی ضرورت ہے۔ جب تک دنیا قائم ہے دین کی ضرورت ہوگی اور بعض مہربانوں کی خواہشات کے برعکس دینی تعلیم بھی اِن شا اللہ تعالیٰ جاری رہے گی۔
ہماری درسیات میں بنیادی طور پر علوم کی دو قسمیں ہیں: ایک علومِ آلیہ اور دوسرے علومِ عالیہ۔ علومِ آلیہ سے مراد وہ علوم ہیں جو قرآن وحدیث اور فقہِ اسلامی کو سمجھنے کے لیے درکار ہوتے ہیں۔ چونکہ ہمارا تمام دینی سرمایہ عربی زبان میں ہے لہٰذا صرف نحو لغت و ادب اور معانی بلاغت وبدیع قدیم منطق اور فلسفہ بھی علومِ آلیہ میں سے ہیں۔ چونکہ ہماری درسیات بالخصوص علمِ کلام میں منطق وفلسفہ کی اصطلاحات ناگزیر ہیں، لہٰذا ان پر عبور کے لیے ان علوم کی تدریس بھی لازمی ہے۔ بین الادیان وبین المذاہب اختلافی ابحاث کے لیے علمِ مناظرہ بھی ہماری درسیات کا حصہ رہا ہے۔ مناظرہ بازاری مجلسوں کا نام نہیں ہے کہ جن میں ایک دوسرے کی تضحیک تحقیر اور توہین کی جاتی ہے اور اس کا اختتام بالعموم نزاع یا دونوں کی فتح پر ہوتا ہے۔ ایسی مجالسِ مناظرہ کبھی نتیجہ خیز نہیں ہوتیں اِلا ماشاء اللہ۔ اِس کے برعکس علمِ مناظرہ کے باقاعدہ اُصول و ضوابط ہیں آداب ہیں ۔یہ خالص تحقیقی اور علمی کام ہوتا ہے، لیکن جب ان علمی شعبوں کو سطحی اور چرب زبان قسم کے لوگ چوراہوں اور عام مجالس میں لے آئیں تو ان کی سنجیدگی اور افادیت ختم ہو جاتی ہے۔ آج کل سوشل میڈیا کی مثال بھی چوراہے کی سی ہے بلکہ یہ اس کی وسیع ترین شکل ہے۔
قرآن وحدیث اور فقہِ اسلامی اور ان سے متعلق علوم پر عبور کے لیے ان علومِ آلیہ میں مہارت ضروری ہے۔ ہر زبان میں گرامر کی ایک اہمیت ہوتی ہے لیکن جتنی جامعیت عربی زبان میں گرامر کی ہے اتنی دنیا کی کسی اور زبان میں نہیں ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ہماری یونیورسٹیوں میں اُردو اور انگریزی میں ایم اے ایم فل اور پی ایچ ڈی کرنے والے بھی متعلقہ زبانوں کی گرامر پر اتنی جامعیت کے ساتھ توجہ نہیں دیتے۔ ہمارے ہاں اُردو زبان کے ماہرین کی قلت کا سبب یہی ہے زبان وبیان کی اغلاط کی بھرمار ہے۔ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کی بہتات نے اُردو زبان کوبہت نقصان پہنچایا ہے۔ زبان کیا ہے بس ایک ملغوبہ ہے ۔اس کی مثال ایک نامی گرامی تجربہ کار میزبان کے یہ ارشادات ہیں جن میں بے مقصد، حشو و زوائد کی بھرما رہے، تکرار ہے۔ انگریزی الفاظ کا بلاضرورت اضافہ ہے۔ ملاحظہ کیجیے وہ مہمان سے سوال کرتے ہوئے کیا کہتے ہیں، یہ آپ نے فیصلہ کرنا ہے کہ موصوف سوال کر رہے ہیں یا جواب عنایت فرمارہے ہیں:
”آپ ملکی معیشت پر گہری نظر رکھتے ہیں، آپ کے تجربے اور مہارت کے سب معترف ہیں، معاشی اُمور میں آپ کی رائے حرفِ آخر ہے۔ آپ کو اقتصادیات پر مکمل عبور حاصل ہے۔ ذرا ہمارے ناظرین کی تسلی کے لیے تفصیل سے وضاحت فرما دیجیے کہ گزشتہ گزرے ہوئے دنوں میں حکومت نے بجلی کی قیمتوں میں جو اضافہ کرا ہے، جس سے بجلی کے بِل ناقابلِ برداشت حد تک عوام کی برداشت سے باہر ہوگئے ہیں، عوام خودکشیاں کررہے ہیں، زندگی کا خاتمہ کررہے ہیں۔ تباہی ہے بربادی ہے، انڈسٹریاں غارت ہو رہی ہیں، صنعتی پیداوار رک گئی ہے برآمدات میں کمی آ رہی ہے۔ ہماری ایکسپورٹ نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے، قرضوں کا بوجھ بڑھتا جا رہا ہے۔ ملک مقروض سے مقروض تر ہوتا جا رہا ہے۔ افراطِ زر میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیا ہے۔ انفلیشن حد سے بڑھ گیا ہے۔ سود کی شرح میں بھی اضافہ کرا گیا ہے۔ بجلی کی قیمتیں آسمان تک پہنچ جانے کے سبب کی وجہ سے معیشت تباہ ہو کر رہ گئی ہے۔ مختصرا تفصیلی وضاحت کر دیجیے کہ حکومت نے بجلی کی قیمتوں میں جو نیا اضافہ کرا ہے اُس سے آئندہ آنے والے دنوں میں ملکی معیشت کی تباہی پر کیا خوفناک اثرات ہوں گے کیا، ہم ڈیفالٹ ہو کر بالکل ہی دیوالیہ نہیں ہو جائیں گے، ذرا فرمائیے گا۔”
اس سوال پر جنابِ احمد حاطب صدیقی نے تبصرہ کیا: بعض لوگ تحریر وتقریر میں تکرار کو زبان وبیان پر قدرت کا اظہار سمجھتے ہیں۔ ایک بزرگ جو اپنے زعم میںدنیا اپنے ساتھ لیے شب گوئی کرتے ہیں اس فن میں یدِ طولی (لمبا ہاتھ) رکھتے ہیں حشو وزوائد کیا ہیں، یہ دیکھنا ہو تو ان کو سننا مفید ہوگا۔ آپ جان سکیں گے کہ سوال کے بہانے طویل تقریر کرکے ادارے کا اچھا خاصا وقت اور اُردو زبان کو برباد کرنے کا کیا طریقہ ہے۔ اگر انہیں کسی ماہرِ معاشیات سے معلوم کرنا ہو کہ بجلی کے نرخ میں اضافے سے معیشت پر کیا اثرات پڑیں گے، تو اس بات کو وہ یوں پوچھیں گے۔ ہرچند کہ انہوں نے مہمانِ محترم کے فرمانے کو کچھ چھوڑا ہی نہیں، پھر بھی مہمانِ عزیز کچھ کہنے کو منہ کھولتا ہے ابھی دو جملے نہیں کہہ پاتا کہ وہ بیس سطروں کا ایک نیا سوال داغ دیتے ہیں۔ تمنا مختصر سی ہے مگر تمہید طولانی۔ اگر سوال اتنے ہی الفاظ پر مشتمل ہوتا جتنے ہم نے ان کی سوالیہ تقریر سے قبل درج کیے ہیں تو مفہوم ادا ہو جاتا۔ مگر گزشتہ گزرے ہوئے دنوں سے لے کر آیندہ آنے والے دنوں تک ہر جملے میں انہوں نے اُردو کا جو اسرافِ زر کیا ہے، اس کا موقع انہیں نہ مل پاتا۔ (فرائیڈے اسپیشل 2 اگست2024ئ)
اس لیے میں نے گزشتہ ایک کالم میں لکھا تھا: ‘ہمارے علم المعانی میں خطابت یا تحریر کے تین درجے بتائے گئے ہیں: (1) الفاظ زیادہ اور معانی کم ہوں اسے اِطناب کہتے ہیں گویا: تمنا مختصر سی ہے مگر تمہید طولانی۔ (2) جتنے الفاظ ہوں اتنے ہی معانی کے حامل ہوں اسے مساوات کہتے ہیں۔ (3) الفاظ کم اور معانی زیادہ ہوں اسے ایجاز کہتے ہیں یعنی دریا کو کوزے میں بند کر دینا۔ اسی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیگر انبیائے کرام علیہم السلام پر اپنی امتیازی فضیلت کے طور پر ‘جامع کلمات’ سے تعبیر فرمایا ہے اور یہ بلاغت کا اعلیٰ درجہ ہے۔ اس اقتباس کا براہِ راست ہمارے موضوع سے تعلق نہیں ہے، مگر اس وجہ سے ہمیں درج کرنا پڑا کہ قارئین پر واضح ہو کہ معیاری ادبی زبان کے لیے متعلقہ زبان کی گرامر کس قدر ضروری ہے۔ مترادفات کہاں مناسب ہوتے ہیں اور کہاں حشو وزوائد کے ذیل میں آتے ہیں۔ سوال کرنے والے کوخود ماہر ومحقق بن کر اپنے آپ کو پیش کرنا چاہیے یا جس شعبے کے ماہر کو بلایا ہے اسے اپنی مہارت کے اظہار کا موقع دینا چاہیے۔
علومِ عالیہ میں تفسیر واصولِ تفسیر حدیث اصولِ حدیث وعلم الجرح والتعدیل فقہ واصولِ فقہ اور علم الکلام شامل ہیں۔ یہ اصلِ دین ہیں اور تمام علومِ آلیہ کا مقصد یہ ہے کہ طالبِ علم ان علومِ عالیہ سے کماحقہ استفادہ کرنے کے قابل ہو جائے۔ ان علوم کے اصل مآخِذ پر دسترس ہو اور ان کے فہم کی صلاحیت کا حامل ہو۔ پھر ان علوم کے تخصصات ہیں جیسے یونیورسٹیوں میں ایم فل پی ایچ ڈی اور پوسٹ ڈائریکٹریٹ ہوتے ہیں۔ فقہ وافتاء کا تخصص الگ سے ہوتا ہے، لیکن ان میں سے کسی بھی شعبے کا تخصص ہو اس کے لیے دیگر تمام علومِ عالیہ سے آگاہی اور ملکہ ضروری ہے، کیونکہ یہ علوم ایک دوسرے کے نہ متباین ہیں اور نہ ضد بلکہ ان کا ایک دوسرے میں تداخل ہے۔ مثلاً: تفسیر و حدیث سے آگہی کے بغیر کوئی مفتی نہیں بن سکتا وغیرہ۔ سوشل میڈیا کی مختلف ایپس اور مصنوعی ذہانت کے ارتقا کے سبب کتاب سے رشتہ کمزور ہوتا جا رہا ہے۔ سب کچھ اسمارٹ موبائل اور انٹرنیٹ میں آگیا ہے۔ لیکن ایک محقق ومدقِق عالم کا ہمیشہ کتاب سے رشتہ مستحکم رہنا چاہیے اور اس میں یہ ملکہ اور مہارت بھی ہوکہ اصل ماخذ سے مسئلہ نکال سکے سمجھ سکے درپیش مسئلے پر اس کی تطبیق کر سکے اور ا سے استدلال کا منہج بھی معلوم ہو۔ (جاری ہے)