یہ حقیقت ہے کہ جس نے بھی غزہ کے پھول سے بچوں اور بچیوں کی دل دہلادینے والی تصویریں دیکھیں وہ صہیونیوں کی درندگی اور عالمِ اسلام کی بے بسی پر آنسو بہائے بغیر نہ رہ سکا۔ اس وقت میرے سامنے بیسیوں تصاویر رکھی ہیں۔ یہ تصویر ایک معصوم سی بچی کی ہے جس کی عمر بمشکل دس یابارہ برس ہوگی۔ اس بچی کے سر، ناک اور منہ سے خون بہہ رہا ہے۔ اس کی دونوں ٹانگیں شدید زخمی ہیں اور یہ ایک تباہ حال گھر کے سامنے اینٹوں، بجری اور ریت کے ڈھیر پر پڑی ہے۔ بچی کی دونوں آنکھیں کھلی ہیں اور اس کا لباس تار تار ہے۔ بچی کی یہ تصویر زبانِ حال سے 57 اسلامی ممالک کے حکمرانوں کو بہت کچھ کہہ رہی ہے۔
ایک تصویر میں دو سال کے گلاب سے بچے کی گردن سے خون بہہ رہا ہے۔ اس کے والدین اسپتال لے جانے کی کوشش کررہے ہیں لیکن صہیونیوں نے ان پر میزائل داغا جسے زخمی بچہ، ماں باپ سمیت شہید ہوجاتا ہے۔ یہ لاش عالمی ضمیروں سے سوال کناں ہے: ”میرا جرم کیا ہے؟”
ایک اور تصویر میں صہیونیوں کی اسکول پر فضائی بمباری سے شہید ہونے والے 8 بچوں کی سفید کپڑوں میں لپٹی لاشیں رکھی ہیں۔ کفن سے بچوں کا منہ کھلا رکھا ہوا ہے۔ ان کے چہرے اتنے خوبصورت ہیں کہ دل پیار کرنے کو جی چاہتا ہے۔ وہ اسلامی دنیا کے 58 ممالک اور سوا ارب مسلمانوں سے پوچھ رہے ہیں کیا یونہی ہمیں مسلا جاتا رہے گا اور تم خاموش تماشائی بنے رہوگے؟
ان بچوں کی لاشیں دنیا کے 245 آزاد ممالک سے انسانیت کے ناتے پوچھ رہی ہیں ہمیں کیوں مارا گیا؟ ایک کتے اور بلے کے مارے جانے پر احتجاج کرنے والی نام نہاد انسانی حقوق کی تنظیمیں کیوں مہر بہ لب ہیں؟ کیا اس لیے کہ ہم مسلمان ہیں؟ ایک تصویر میں دس سالہ بچے کی میت کو دفنانے کے لیے لے جایا جارہا ہے۔ اس کے دوستوں نے میت کاندھوں پر اُٹھارکھی ہے۔ اس کے کلاس فیلو احتجاج کررہے ہیں۔ ایک پلے کارڈ پر درج ہے: ”اقوامِ متحدہ نے دونوں آنکھیں کیوں بند کی ہوئی ہیں؟” دوسرے پر لکھا ہے: ”عرب حکمرانو! تاریخ سے سبق حاصل کرو۔”
ایک تصویر میں ایک بوڑھی خاتون اپنی گود میں دو زخمی بچیوں کو لیے پریشان وحیران کھڑی ہیں۔ پس منظر میں اسرائیل کی وحشیانہ بمباری سے وسیع علاقے میں آگ لگی ہوئی ہے۔ اس کے گھر سے شعلے بلند ہورہے ہیں۔ بوڑھی خاتون بڑی حسرت سے اپنے گھر کو دیکھ رہی ہے جو جل رہا ہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے اس کا سارا خاندان شہید ہوچکا ہے۔ صرف یہ دو نواسیاں یا پوتیاں باقی رہ گئی ہیں۔ وہ بوڑھی خاتون زبانِ حال سے کہہ رہی ہے: ”منصف ہو تو اب حشر اُٹھا کیوں نہیں دیتے؟”
ایک تصویر بچوں کے اسپتالوں کی ہے۔ اس میں بیسیوں بچے زیرعلاج تھے لیکن صہیونی بمبار سے یہ اسپتال بھی تباہ ہوگیا اور نتیجے میں بیمار بچے بھی شہید ہوگئے۔ انسانی حقوق کا ڈھنڈورا پیٹنے والو! بتائو تو سہی کہیں ایسا بھی ہوا ہے کہ بیمار اور معذوروں پر بمباری کرکے انہیں شہید کیا گیا ہے؟
یہ دیکھیں! غزہ سے تعلق رکھنے والا ”حسین” نامی بچہ جو یکم محرم کو صہیونی ٹینکوں نے روند ڈالا مگر کوئی پوچھنے والا نہیں۔ یہ پہلی دفعہ ایسا نہیں ہوا ہے کہ صہیونیوں کی بمباری سے بچے مارے گئے ہیں۔ پہلے بھی متعدد بار ایسا ہوچکا ہے۔اسرائیل نے بدترین جارحیت کا ارتکاب کیا تھا۔ اس جنگ میں بچوں کے پرخچے اُڑگئے ۔ ان معصوم بچوں کی روحیں آج بھی امریکا اور اس کے زیر اثر اقوامِ متحدہ سے پوچھ رہی ہیں: ”ہمارے قاتلوں کو کون اور کب کٹہرے میں لائے گا؟ اسرائیلی غنڈوں کو کب نکیل ڈالی جائے گی؟”کون نہیں جانتا زمانہ جاہلیت سے آج تک، ہر جگہ اور ہر شخص کے لیے۔ محبت ہو یا نفرت، سفر ہو یا حضر، دوستی ہو یا دشمنی، امن ہو یا جنگ… ہر ایک کے اُصول وضوابط ہوتے ہیں۔
مسلّمہ جنگی اُصولوں کے مطابق بوڑھوں، معذوروں، عورتوں اور بچوں کو امان ہوتا ہے لیکن انصاف اور انسانی حقوق کے علمبردار امریکا وبرطانیہ کے لے پالک صہیونی غنڈوں نے فلسطین کے بچوں کو خاک وخون میں تڑپاکر دنیا کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے ہم کسی قاعدہ وقانون کو نہیں مانتے۔ یہاں جنگل کا قانون ہے۔ طاقت کے سامنے سب ہیچ ہے۔ ہم کسی کی نہیں مانتے۔ کون ہوتا ہے اقوامِ متحدہ جو ہمارے خلاف قرارداد منظور کرے۔