گزشتہ دنوں دار السراج للنشر والتوزیع نے اسما عثمان الشرقاوی کی ”کاملات عقل ودین”کے نام سے موسوم کتاب کی قاہرہ میں منعقد شدہ بین الاقوامی کتاب میلے کے دوران اشاعت روکنے کا اعلان کیا۔
فیصلے کی وجہ یہ بیان کی گئی کہ بعض افراد نے کتاب کے نام کو اس حدیث کے متضاد سمجھا جس میں عورتوں کو ”ناقصات العقل والدین”یعنی دین اور عقل کے اعتبار سے ناقص کہا گیا ہے۔ دار السراج نے ایک رسمی بیان میں وضاحت دی کہ کتاب میں اگرچہ کسی بھی طرح حدیث نبوی کی توہین یا اس کی اہمیت کو کم کرنے کی کوشش نہیں کی گئی ہے بلکہ مقصد اس حوالے سے پائے جانے والے مختلف خیالات پر بحث کرنا ہے، تاہم وسیع پیمانے پر تنقید اور ردعمل کے بعد قارئین کے جذبات کے احترام میں یہ فیصلہ کیا گیا۔
ہم یہاں پہلے اس حدیث کو نقل کرتے ہیں جس میں خواتین کو ”ناقصات العقل والدین”کہا گیا ہے اور پھر یہ واضح کرنے کی کوشش کریں گے کہ عورتوں کو ایسا کیوں کہا گیا ہے۔ حدیث کے راوی حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید الاضحی یا عید الفطر کے موقع پر عیدگاہ تشریف لائے، تو عورتوں کی ایک جماعت کے پاس سے آپ کا گزر ہوا، آپ نے انہیں مخاطب کرکے فرمایا: اے عورتوں کی جماعت صدقہ کیا کرو، اس لیے کہ میں نے تم میں سے اکثر کو دوزخ میں دیکھا ہے، انہوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول اس کا سبب کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: تم لعن طعن بہت کرتی ہو اور شوہر کی ناشکری کرتی ہو، میں نے عقل اور دین میں ناقص ہونے کے باوجود ایک ہوشیارمرد کو بے وقوف بنانے میں تم سے بڑھ کر کسی کو نہیں دیکھا، یہ سن کر انہوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ہماری عقل اوردین کی کمی کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: کیا عورت کی گواہی مرد کی گواہی سے نصف نہیں ہے ؟ انہوں نے کہا: جی ہے، آپ نے فرمایا: بس یہی اس کی عقل کا نقصان ہے، پھر پوچھا: کیا ایسا نہیں کہ جس وقت عورت حیض کی حالت میں ہوتی ہے، تو نہ نماز پڑھ سکتی ہے اور نہ ہی روزہ رکھ سکتی ہے؟ انہوں نے عرض کیا: جی ہاں ایسا ہی ہے، آپ نے فرمایا کہ یہی اس کے دین کا نقصان ہے۔”
یہ حدیث بخاری اور مسلم جیسی معتبر کتابوں میں مروی ہے اور اس کے متن اور سند کی صحت میں کوئی اختلاف نہیں ہے، تاہم اس کے ظاہر کو دیکھ کر بعض دین دشمنوں نے دو قسم کے اعتراضات اٹھائے ہیں۔ پہلا اعتراض عورت کے عقل کی کمی سے متعلق ہے کہ حدیث میں عورت کو کم عقل یا بیوقوف بتایا گیا ہے۔ یہ اعتراض نہ صرف عورت پر بلکہ اسلام پر بھی بہت بڑا ظلم ہے۔ اسلام کی نظر میں کیا واقعی عورت کمتر ہے، اس کے لیے ہمیں عورت کے حوالے سے اسلام کے عمومی مزاج کو دیکھنا پڑے گا اور جب ہم عمومی مزاج کو دیکھتے ہیں تو واضح نظر آتا ہے کہ اسلام میں عورت کی عزت وتکریم، اس کے حقوق اور اس کی دیکھ بھال کے بارے میں بڑی تعلیمات موجود ہیں۔ دین اسلام عورت سمیت اللہ تعالی کی تمام مخلوقات کے لیے رحمت ہے، عورت کے حوالے سے اسلام کے متوازن نقطہ نظر کی مثال کسی اور مذہب میں نہیں ملتی۔ خود دین اسلام کے قرآنی دستور میں کئی سورتیں خواتین اور ان کے حقوق پر مشتمل ہیں۔ ایک سورت کا تو نام ہی سورہ النساء (خواتین کی سورت) ہے۔ اس سے بڑا اعزاز اور کیا ہو سکتا ہے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور خاص ان کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت فرمائی ہے۔
جہاں تک حدیث کی بات ہے تو اس میں عورت کی توہین نہیں بلکہ اس کے ایک نازک مگر مثبت پہلو کو بیان کیا گیا ہے کہ عورتوں کے بیشتر فیصلے چونکہ عقل کی بجائے جذبات کی بنیاد پر ہوتے ہیں، اس لیے بعض امور میں ایک مرد کی گواہی کے مقابلے میں دو عورتوں کی گواہی رکھی گئی ہے۔ یہ عورت کی ایک مثبت خصوصیت ہے، جو انسانیت کے لیے رحمت ہے۔ بالفرض اگر عورت اپنی عاطفیت کو عقل پر فوقیت نہ دیتی تو نہ وہ بچوں کی پرورش کر پاتی، نہ دودھ پلا پاتی اور نہ ہی کائناتی نظام صحیح طریقے سے چل پاتا۔ پھر یہ کہ حدیث میں نہ تو خواتین کے علم کو ناقص کہا گیا ہے اور نہ ہی گواہی کو مطلقاً نصف کہا گیا ہے، بلکہ اس کے برعکس اگر روایت حدیث کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ عورت کو علم کے حوالے سے مرد کے برابر مقام دیا گیا ہے۔
چنانچہ جس طرح احادیث مبارکہ کے باب میں ایک عادل اور ضابط مرد کی روایت قبول ہوتی ہے، بالکل اسی طرح عورت کی روایت بھی قبول کی جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ تاریخ اسلام میں احادیث مبارکہ روایت کرنے والی کئی معزز خواتین گزری ہیں جن میں امہات المومنین سر فہرست ہیں۔ اگر ان کا علم ناقص ہوتا تو ان کی روایت قبول نہ کی جاتی۔ اسی طرح عورت کی گواہی کا نصف ہونا بھی مطلق نہیں ہے بلکہ صرف معاملات اور مالیات کے امور سے متعلق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جن امور ا علم عام طور پر صرف خواتین ہی و ہوتا ہے، ان میں ایک عورت کی گواہی بھی شرعا کافی سمجھی جاتی ہے، جیسے رضاعت اور حضانت وغیرہ کے مسائل میں،چنانچہ شیخ الاسلام امام نووی لکھتے ہیں: جو امور مردوں کے علم سے باہر ہیں اور جنہیں عموماً خواتین ہی جانتی ہیں، ان میں ان کی گواہی انفراداً قبول کی جاتی ہے، جیسے زچگی، بکارت، بیوگی، جنسی تعلق، طہر، حیض اور دودھ پلانا۔روض الطالبین و عمد ةالمفتین۔
پس یہاں اہمیت علم، اختصاص اور واقعہ کو قریب سے دیکھنے کی ہے، نہ کہ محض جنس کے لحاظ سے، البتہ مالی اور تجارتی معاملات جیسے اقالہ، رہن، قرض وغیرہ، کا تعلق چونکہ مردوں سے ہے اور ان میں مردوں کی ہی زیادہ شرکت ہوتی ہے۔ اس لیے وہاں مردوں کی گواہی کو عورتوں کی گواہی پر ترجیح دی گئی ہے۔ مقصد کسی بھی جنس کے حق میں تعصب یا فرق کرنا نہیں بلکہ ہر معاملے کو حقیقت پسندانہ طور پر دیکھنا اور ان کے درمیان انصاف کا توازن قائم رکھنا ہے۔
دوسرا اشکال یہ ہے کہ حدیث میں عورت کے دین کے نقص اور کمی کو بیان کیا گیا ہے، جس سے بظاہر یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ عورت کم دین والی اور اللہ کا خوف نہ رکھنے والی ہوتی ہے، لیکن حقیقت میں اس کا مقصد یہ ہے کہ عورت بعض شرعی اعذار کی وجہ سے کچھ عبادات جیسے نماز، روزہ وغیرہ ترک کر دیتی ہے جس کی وجہ سے اس کا وقت مردوں کے برابر عبادت میں نہیں گزرتا۔ ورنہ اسلام میں عورت کے عمل، نیکی اور دینداری کو بھی وہی درجہ حاصل ہے جو مرد کو اس حوالے سے حاصل ہے۔ ارشاد ربانی ہے:”جو شخص بھی نیک عمل کرے مومن ہونے کی حالت میں، ہم اسے پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے اور ایسے لوگوں کو ان کے بہترین اعمال کے مطابق ان کا اجر ضرور عطا کریں گے۔”
حقیقت یہ ہے کہ عورت کے بغیر زندگی مکمل ہے اور نہ ہی ہماری بقا اس کے بغیر ممکن ہے۔ عورت انعامات کا وہ دریا ہے جو کبھی خشک نہیں ہوتا، یہ وہ بیج ہے جو کامیابی اور کامرانی کی فصل اگاتا ہے۔ یہ وہ ہستی ہے جس نے عظیم شخصیتیں اور ہیرو جنم دیے ہیں۔ اس کا مقام عظیم اور اس کی قدر بے حد بڑی ہے۔ کائنات کا توازن اس بات کا متقاضی ہے کہ مرد اور عورت دونوں موجود ہوں اور بلا شبہ وہ اس توازن کا سب سے خوبصورت حصہ ہیں!