مولانا سید نفیس الحسینی شاہ ، ایک عہد ساز شخصیت (شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی)

حضرت سید نفیس الحسینی شاہ صاحب رحمہ اللہ کو اللہ تعالیٰ نے ظاہر و باطن کی ایسی دل آویز خصوصیات سے نوازاتھا جو خال خال ہی کسی ایک شخصیت میں جمع ہوتی ہیں۔

وہ انتہائی خاموشی کے ساتھ اُمت کی گراںقدر خدمات میں مصروف تھے۔ ان خدمات کا فیض چار سو پھیل رہاتھا اور حقیقت یہ ہے کہ وہ ان حضرات میں سے تھے جن کے وجود کی ٹھنڈک اس فتنوں بھرے دور میں ہم جیسے لوگوں کے لئے ڈھارس کا سبب بناکرتی تھی اور جن کا تصور قحط الرجال کے اس زمانے میں مایوسی کے احساس کو دور کیا کرتا تھا۔ حضرت نفیس شاہ صاحب قدس سرہ کی ابتدائی شہرت اُن کی خطاطی کے حوالے سے ہوئی تھی اور حقیقت یہ ہے کہ خوش نویسی کے میدان میں ان کے شہ پارے اپنے حسن، توازن اور دلکشی سے انسان کو مبہوت کردیتے تھے اورملک و بیرون ملک انہیں ہر جگہ خراج تحسین پیش کیا گیا۔

 لیکن اُن کی اصل خصوصیت جس نے انہیں مقبولیت اور محبویت کے اعلیٰ مقام تک پہنچایا، ان کی روحانیت ، اُن کا اخلاص، دین کے لئے ان سوز و گداز، اُمت کی فکر، بزرگوں سے تعلق اور سادگی و تواضع کے وہ اوصاف تھے جو حضرت شاہ عبدالقادر صاحب رائے پوری قدس سرہ کے فیض صحبت نے پیدا کئے تھے اور جن کی وجہ سے جو اُن کے جتنا قریب ہوتا، اتنا ہی ان کا گرویدہ ہوجاتاتھا۔
میں شروع میں اُنہیں ایک عظیم خطاط ہی کی حیثیت سے جانتاتھا، ان کی خوش نویسی کا ہر شاہکار یقینا اپنی طرف دل کو کھینچتاتھا۔ شایداِکَّا دُکَّا موقع پر دور دور سے ملاقات بھی ہوئی ہو، لیکن ان کے اصل جوہر اُس وقت سامنے آئے جب کچھ عرصہ اُن کی صحبت میں رہنے کا موقع ملا۔یہ موقع سب سے پہلے1974 ء میں حاصل ہوا۔ یہ وہ وقت تھا جب ملک بھر میں قادیانیوں کو غیرمسلم اقلیت قراردےنے کی تحریک چل رہی تھی۔ مجلس ختم نبوت کے پلیٹ فارم پر ملک کے مختلف مکاتب فکر کے علماءاور سیاسی قائدین متحد ہوکر یہ تحریک چلارہے تھے اور شیخ الحدیث حضرت علامہ سید محمد یوسف بنوری صاحب قدس سرہ انتہائی جانفشانی سے اس کی سربراہی فرمارہے تھے۔

مولانا ڈاکٹر عبدالحلیم چشتی۔ حیات و خدمات

قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے لئے 38 ارکان اسمبلی کی طرف سے قرارداد پیش ہوئی تھی اور مرزائیوں کے دونوں گروپوں یعنی قادیانی اور لاہوری جماعتوںنے اپنااپنا بیان اسمبلی میں داخل کیاتھا۔ قرارداد کی تائید میں مسلمانوںکی طرف سے ایک بیان بھی داخل ہوناتھا، اس بیان کو مرتب کرنے کے لئے حضرت مولانا بنوری صاحب قدس سرہ نے بندہ کو کراچی سے راولپنڈی بلایا اور طے پایا کہ بیان کا مذہبی حصہ میں لکھوں اور سیاسی حصہ برادر محترم جناب مولاناسمیع الحق صاحب تحریر فرمائیں۔

وقت بہت کم تھا، تقریباً دس ہی روز کے اندر یہ بیان نہ صرف تیارہونا تھا بلکہ اُسے چھاپ کر ارکان اسمبلی میں تقسیم بھی کرنا تھا۔ اس وقت کمپیوٹر کا رواج نہیں تھا، ا س لیے طے پایا کہ جتنا جتنا بیان لکھاجاتارہے، ساتھ ساتھ اس کی کتابت بھی ہوتی رہے اور کتابت بھی اعلیٰ معیار کی ہو۔ اس کے لیے ضروری تھا کہ کچھ کاتب صاحبان کو راولپنڈی بلاکر ہمارے ساتھ ہی بٹھادیاجائے۔
سوال یہ پیداہوا کہ کون کاتب صاحبان ایسے ہوسکتے ہیں کہ جو اپنا ساراکام چھوڑ کر یہاں ایسی جگہ آبیٹھیں جو اس وقت کے ماحول میں خطرات سے بھی پُر تھی۔ اس سلسلے میں مشورہ ہونے لگا تو میںنے حضرت مولانامفتی محمود صاحب قدس سرہ سے عرض کیا کہ :”حضرت ! اگر اس کے لئے جناب نفیس شاہ صاحب کو دعوت دے دی جائے تو کیا ہی اچھا ہو اور میرااندازہ ہے کہ اگرآپ اُن کو فون کریں گے تو اِن شاءاللہ وہ ضرور منظور کرلیں گے۔“ حضرت مفتی محمود صاحب رحمة اللہ علیہ کے چہرے پر بشاشت ظاہر ہوئی اور انہوںنے بے ساختہ ارشاد فرمایا: ”نفیس توپھر نفیس ہی ہیں۔“

چنانچہ حضرت مفتی محمود صاحبؒ نے انہیں پیغام بھیجا اور پیغام پہنچنے کی دیر تھی کہ حضرت نفیس شاہ صاحب ؒ اپنے شاگردوں کی ایک پوری ٹیم کو لے کر راولپنڈی پہنچ گئے۔ اِدھر ہم بیان کا مسودہ لکھتے جاتے اور شام کے وقت ارکان اسمبلی کے سامنے اسے سنانے کے بعد اس کو حتمی شکل ملتی اور اُدھر حضرت نفیس شاہ صاحبؒ کے شاگرد اس کی کتابت کرتے جاتے اور اس طرح رات دن یہ کام جاری رہا اور دس روز میں دو سو صفحے کی کتابت ’ملّتِ اسلامیہ کا مو¿قف‘ کے نام سے مرتب بھی ہوگئی۔ اس کی کتابت بھی ہوئی اور وہ چھپ کر تیار بھی ہوگئی۔
یہ یادگار اور تاریخی عشرہ اس طرح گزار کہ حضرت نفیس شاہ صاحب ؒ کو بہت قریب سے دیکھنے اوراُن کی صحبت اُٹھانے کا موقع ملا اوراسی کے نتیجے میں ان کی محبت دل میں سما گئی۔ اگر چہ ہم دن رات اپنے کام میں اس طرح مشغول تھے کہ کسی اور طرف توجہ دینے کا وقت ہی نہیں تھا۔ لیکن اس مشغولیت میں بھی ان کی دلنواز ادائیں ان کی گفتگو اور ان کی زبان سے بزرگوںکے تذکرے دل میں گھر کرگئے۔دس دن چونکہ ہم نے ہم پیالہ و ہم نوالہ بن کر گزارے تھے، اس لئے اس کے بعد باہمی تعلق میں مزید اضافہ ہوا۔ ان کے ساتھ کبھی لاہور اور کبھی کراچی میں بہت سی مجلسیں رہیں اور وہ بھی بندہ پر بہت شفقت فرمانے لگے۔

یہ بے تکلفی یہاں تک بڑھی کہ جب میں نے اپنے ماہنامہ ”البلاغ“ کا مفتی¿ اعظم نمبر شائع کرنے کا ارادہ کیاتو انہی سے درخواست کی کہ وہ اپنے شاگردوں کے ساتھ کراچی تشریف لا کر اس نمبر کی کتابت اپنی نگرانی میں کروائیں اور اس طرح ایک مرتبہ پھر راولپنڈی کی یاد تازہ ہوجائے۔ یہ درخواست اگرچہ اس لحاظ سے بڑی عجیب لگتی تھی کہ ملک کا وہ مایہ ناز خطاط جس کے فن پاروں کا لوہا دنیا میں مانا جاتا تھا، وہ اپنا ساراکام چھوڑ کر اپنے ایک نیاز مند کی درخواست پر رختِ سفر باندھ لے اور کراچی میں آکر مقیم ہوجائے۔ لیکن انہوںنے محبت کا یہ حیرت انگیز حق اداکیا کہ اپنے شاگردوں کے ساتھ کراچی آکر تقریباً دو ماہ تک دارالعلوم میں مقیم رہے اوراس وقت مقیم رہے جب دارالعلوم کا مہمان خانہ آج کی طرح آرام دہ نہیں تھا اوراس طویل عرصے میں چودہ سو صفحات پر مشتمل ’مفتی اعظم نمبر‘ اپنی نگرانی میں تیار کرایا۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت نفیس شاہ صاحب قد س سرہ کو شعر کا بھی بڑا بلند ذوق عطا فرمایا تھا، چونکہ اس کوچے سے مجھے بھی طبعی لگاﺅ رہاہے، اس لئے ان کے ساتھ ان مجلسوںمیں ان کی بلند معیار شاعری سے بھی لطف اندوز ہونے کا موقع ملا۔ یہاں تک کہ جب ان کے اشعار کا مجموعہ ”برگ گل“ کے نام سے شائع ہونے لگا تو انہوںنے مجھے بھیجا کہ میں اس پر پیش لفظ لکھوں اور وہ میرے پیش لفظ ہی کے ساتھ شائع ہوا۔میں نے اُن کے بارے میں کسی جگہ لکھاتھا کہ ”اُن کے ہاتھوں سے پھول کھِلتے اور منہ سے پھول جھڑتے ہیں“۔ واقعہ یہ ہے کہ اس جملے میں مبالغے کا کوئی شائبہ نہیں تھا۔ ان کی باتیں سننے سے دل نہیں بھرتاتھا اور جب کبھی کسی جگہ اُن سے ملاقات ہوجاتی تو دل کھِل اُٹھتاتھا۔
وہ 1957ء میں اپنے شیخ حضرت مولاناعبدالقادر صاحب رائے پوری قدس سرہ سے بیعت ہوئے تھے۔بیعت کہنے کو توبہت سے لوگ ہوجاتے ہیں لیکن انہوں نے اپنے شیخ سے بھرپور فیض حاصل کیا اور ایک ہی سال میں اپنے شیخ کامل سے بیعت و ارشاد کی اجازت حاصل ہوگئی۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں خطاطی کے جس فن سے نوازا تھا اس پر انہیں بہت سے ملکی و غیر ملکی اعزازات حاصل ہوئے ، لیکن اس کی بناءپر طبیعت میں کوئی پندار پیدا ہونے کے بجائے طبیعت کی سادگی، تواضع اور درویشی میں اور اضافہ ہوگیا۔

 پھر کیفیت یہ ہوگئی کہ خطاطی اور کاتب حضرات کو اصلاح دینا تو ایک بہانہ تھا، ورنہ ان کا مستقر ایک ”دکان معرفت“ بن گیا، جہاں سے نہ جانے کتنے تشنگانِ سلوک دوائے دل لے جاتے تھے، لیکن ان کی کسی ادامیں پیروں اور مشائخ کے کروفر کا کوئی گزر نہیں تھا اور دیکھنے والا پہچان بھی نہیں سکتاتھا کہ وہ طریقت و معرفت کے کیسے جام لنڈھائے بیٹھے تھے۔ نہ جانے کتنی زندگیاں اُن کی صحبت کے فیض سے بدلیں، کتنے انسانوں میں انقلاب آیا اور کتنے افراد ان کے چشمہ معرفت سے سیراب ہوئے۔ ان کی متعدد تالیفات بھی ایسے موضوعات پر منظر عام پر آئیں جن پر لکھنا انہی کا حصہ تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ اُمت مسلمہ کے مسائل کے لئے اُن کی آنکھیں ہر دم کھلی تھیں اور وہ اُمت کو پیش آنے والے حالات سے پوری طرح باخبر رہ کر نہایت خاموشی کے ساتھ اجتماعی جدوجہد میں اپنا حصہ لگاتے رہتے تھے۔
جون 2007 ء میں انہوںنے اُزبکستان کا دورہ کیا اور وہیں سے آپ کے کان میں تکلیف شروع ہوئی جو دماغ تک پہنچ گئی۔ اس وقت سے علالت کا سلسلہ چلتارہا، یہاں تک کہ آخر میں بے ہوشی کی حد تک جاپہنچا۔مورخہ 26 محرم الحرام مطابق  5 فروری 2008ء  کو صبح میں بخاری شریف کے درس میں تھا کہ ایک ساتھی نے یہ جانکاہ خبر سنائی کہ آج ہی صبح حضرت نفیس شاہ صاحبؒ دنیا سے رُخصت ہوگئے۔ اِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیہِ رَاجِعُون ۔ دل پر ایک بجلی سی گری ، ایسے بزرگوں کا وجو دنہ جانے کتنے فتنوں کے لیے آڑ بنا رہتا ہے اوران کا دنیا سے اُٹھ جاناپوری اُمت کا نقصان ہوتاہے۔ ان کے لئے درس بخاری ہی میں دعائے مغفرت اور ایصال ثواب کے ساتھ یہ دعا بھی زبان پرآئی:

اَللّٰہُمَّ لا تحرمنا اجرہ ، ولا تفتنا بعدہ ۔ آمین!