حضرت مولانا ڈاکٹر محمد عبدالحلیم چشتی علم دوست شخصیت، نامور محقق عالم دین تھے۔
آپ شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی قدس سرہٗ کے شاگردِ رشید ، جامعہ علومِ اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے شعبہ تخصص فی علوم الحدیث کے مشرف و نگران اور محدثِ جلیل و ماہنامہ بینات کے مدیرِ اول حضرت مولانا محمد عبدالرشید نعمانی رحمۃ اللہ علیہ کے چھوٹے بھائی تھے جبکہ ایک طریل عرصہ جامعۃ الرشید میں استاذ الحدیث کے عظیم منصب پر فائز رہے۔
خاندانی پس منظر و ابتدائی تعلیم:
آپ کی پیدائش ذو القعدۃ ۱۳۴۷ھ مطابق ۱۶ اپریل ۱۹۲۹ء کو ہندوستان کے شہر جے پور راجھستان میں ہوئی۔ ڈاکٹر صاحب کا گھرانہ علم و فضل کا گہوارہ تھا۔ آپ کے والد جناب عبدالرحیم صاحب بھی حافظ اور خطاط تھے۔ آپ کے ۴ بھائی تھے، بڑے بھائی حضرت مولانا محمد عبدالرشید نعمانی رحمۃ اللہ علیہ تھے، جو جلیل القدر محدث، بلند پایہ محقق اور وفات تک جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے شعبہ تخصص فی علوم الحدیث کے مشرف و نگران تھے۔
حضرت چشتی صاحبؒ نے ابتدائی تعلیم مدرسہ تعلیم الاسلام جے پور میں حاصل کی۔ ۱۹۴۰ء میں مدرسہ نظامیہ حیدرآباد دکن میں داخلہ لیا، جہاں عربی کی کچھ تعلیم حاصل کی۔ مدرسہ تعلیم الاسلام جے پور سے منشی فاضل کا کورس کیا۔ اس کے بعد اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے آپؒ نے ۱۳۶۳ھ میں دارالعلوم دیوبند میں داخلہ لیا اور ۱۳۶۹ھ میں شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی قدس سرہٗ اور دیگر اکابر علماء سے حدیث کی کتب پڑھ کر دورہ حدیث سے فراغت پائی۔
آپ نے ۱۹۶۷ء میں کراچی یونیورسٹی سے اسلامیات میں ایم۔اے کیا۔ ۱۹۷۰ء میں لائبریری سائنس میں ماسٹر کیا۔ ۱۹۸۱ء میں آپ کو پی۔ ایچ۔ ڈی کی ڈگری حاصل ہوئی۔
پاکستان بننے کے بعد پاکستان ہجرت کی اور ابتداء میں رنچھوڑ لائن کے علاقہ میں رہائش اختیار کی۔ ۱۹۴۹ء میں دو سال تک ریڈیو پاکستان میں ملازم رہے اس کے بعد لیاقت نیشنل لائبریری میں ۱۴ سال تک گورنمنٹ کی ملازمت اختیار کی۔ اس کے بعد کراچی یونیورسٹی میں کافی عرصے تک خدمات انجام دیں۔ کچھ عرصہ کراچی یونیورسٹی کی مسجد کی خطابت کے فرائض بھی انجام دئیے۔ ۱۹۷۷ء میں کراچی یونیورسٹی سے رخصت لے کر نائجیریا تشریف لے گئے، جہاں بیرو یونیورسٹی کی لائبریری میں سینئر فہرست ساز کی حیثیت سے ۱۰ سال خدمات انجام دیں۔ ۱۹۸۷ء کے لگ بھگ پاکستان واپس تشریف لے آئے۔
درس و تدریس سے وابستگی:
۱۴۱۲ھ/۹۱-۱۹۹۲ء میں حضرت مولانا ڈاکٹر محمد حبیب اللہ مختار شہید رحمۃ اللہ علیہ کے ایماء اور خواہش پر تخصص فی علوم الحدیث کے مشرف و نگران کی حیثیت سے آپ جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن تشریف لائے اور تادمِ واپسیں آپ جامعہ سے منسلک رہے۔ آپ کی نگرانی و اِشراف میں سینکڑوں متخصصین نے علومِ حدیث اور تحقیق کے میدان میں آپ سے استفادہ کرکے علمی رسوخ حاصل کیا۔ آپ کی زیرِ نگرانی علمِ حدیث کے موضوع کی مناسبت سے درجنوں پی ایچ ڈی کی سطح کے گراں قدر علمی وتحقیقی مقالہ جات لکھے گئے، جو تحقیق کے میدان میں اپنا لوہا منواچکے ہیں، ان میں سے کئی مقالہ جات طبع بھی ہوچکے ہیں، یہ تمام علمی کاوشیں ان شاء اللہ! آپ کے لیے صدقۂ جاریہ ہیں۔

کتابوں کی دنیا ہی اُن زندگی تھی۔ انہوں نے اپنی پی ایچ ڈی کا مقالہ بھی ’’ عہدِ عباسی کے اسلامی کتب خانے‘‘ کے موضوع پر لکھا تھا ۔ پاکستان کی سطح پر لائبریری سائنس میں اولین پی ایچ ڈی آپ ہی کے حصہ میں آئی۔ چھ سو کتب کے استفادہ سے تقریباً تیس ہزار حوالہ جات سے مزین اسلامی تہذیب و ثقافت اور تاریخ پر یہ مقالہ بہترین اور مستند مأخذ کی حیثیت رکھنے والی دستاویز ہے ۔
تصانیف و مقالہ جات:
آپ ایک بلند پایہ محقق تھے اور کئی کتابوں کے محقق ومصنف تھے، آپ کی تصانیف درج ذیل ہیں:
۱:- ’’اسلامی قلم رو میں’ ’اقرأ و علّم بالقلم‘‘ کے ثقافتی جلوے‘‘ (دو جلدیں) [جو پہلے ’’اسلامی کتب خانے‘‘ کے عنوان سے چھپی تھی]، ۲:- تذکرہ علامہ جلال الدین سیوطیؒ، ۳:- حیاتِ امام جزریؒ، ۴:- حیاتِ وحیدا لزماںؒ ، ۵:- زادالمتقین في سلوک طریق الیقین (ترجمہ و تشریح)، ۶:- سید احمد شہیدؒ کی اردو تصانیف ، اُردو ادب پر ان کی تحریک کا اثر، ۷:- عُدۃ الحصن الحصین، محمد بن جزری (ترجمہ و تشریح )، ۸:- عہدِ نبوی میں صحابہ کرامؓ کی فقہی تربیت ، ۹:- فوائدِ جامعہ شرح عجالہ نافعہ، ۱۰:- مشارق الأنوار (اردو ترجمہ)، ۱۱:- نصیحۃ المسلمین ، مولانا خرم علی بلہوری (ترتیب وتحقیق)، ۱۲:- البضاعۃ المزجاۃ مقدمۃ مرقاۃ المفاتیح (مکتبہ امدادیہ، ملتان)۔
عمر رسیدگی اور ضعف کے باوجود آپ کا تصنیف وتالیف اور مطالعہ کا سلسلہ مستقل جاری رہا۔ آپ کو کتابیں پڑھنے اور جمع کرنے کا بے حد شوق تھا۔ ہر ماہ باقاعدگی سے دفتر ماہنامہ بینات تشریف لاکر خود تازہ شمارہ بھی وصول فرماتے اور نئی چھپنے والی کتب کے بارے میں بھی استفسار فرماتے تھے۔
آپ کے ذاتی کتب خانے میں کتابوں کا ایک اچھا خاصا ذخیرہ تھا، جو کئی کمروں پر محیط تھا، اپنی تمام ذاتی کتب آپ نے جامعہ علومِ اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے کتب خانہ کے لیے اپنی زندگی میں ہی وقف کردی تھیں۔ یہ تمام کتب ان شاء اللہ! حضرتؒ کے لیے ذخیرۂ آخرت اور صدقۂ جاریہ ہیں ۔
منفرد انداز تدریس:
آپ کا اندازِ درس بھی منفرد اور دلکش ہوتا تھا۔ آپ کے درس میں لمبی لمبی تقریریں نہیں ہوتی تھیں بلکہ آپ کی عادت تھی کہ طلبا سے سوال و جواب کرکے اُن کو بیدار رکھتے تھے ۔ اس طریقہ سے طلبا کو سوچنے سمجھنے پر اُبھارتے اور دورانِ درس طلبا سے عبارت پڑھواتے، طلبا ہی سے تشریح کرواتے تھے، اس لیے طالبِ علم درس سے پہلے ہی مطالعہ کرکے آیا کرتے تھے۔ جہاں جہاں مناسب خیال فرماتے خود تشریح فرماتے، مگر جامع مانع مقصودی گفتگو فرماتے۔ تخصص فی علوم الحدیث میں سالِ اول کے طلبہ کو ’’شرح نخبۃ الفکر، مقدمۃ ابن الصلاح، ثلاث رسائل في علوم الحدیث، أصول السرخسي، الرفع والتکمیل ، الأجوبۃ الفاضلۃ في الأسئلۃ العشرۃ‘‘ وغیرہ سبقاً پڑھایا کرتے تھے۔
بخاری اور مسلم کے ’’ أصح الکتب بعد کتاب اللّٰہ ‘‘ ہونے کی بحث کسی قدر تفصیل سے بیان فرمایا کرتے تھے، بلکہ تخصص فی علوم الحدیث کے داخلہ کے لیے آنے والے امیدواروں کے شفوی جائزے میں یہ سوال تقریباً ہر طالب علم سے پوچھتے تھے۔ فرماتے کہ : صحیح بخاری اور صحیح مسلم کے ’’أصح الکتب بعد کتاب اللّٰہ‘‘ ہونے کی بات متقدمین میں سے کسی نے نہیں کہی، بلکہ سب سے پہلے ابن صلاح ؒ نے یہ بات کہی ہے ، حالانکہ اصحیت کا معیار روات ہیں ، نہ کہ مصنف ۔ اگر صحیح بخاری اور صحیح مسلم کے علاوہ کسی اور کتاب کی سند میں زیادہ ثقہ راوی ہوں تو وہ روایت ان دو کتابوں کی روایت سے بھی زیادہ قوی ہوسکتی ہے۔
حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ سے آپ کو عشق کی حد تک محبت تھی، اُن کے ذکر پرآب دیدہ ہوجاتے۔ حضرت مدنیؒ کی انتہائی محبت ہی تھی کہ آپؒ کی اپنی طبع شدہ اسنادِ حدیث کا جو کچھ ہدیہ جمع ہوجاتا، کچھ عرصہ بعد حضرت مدنیؒ کی اہلیہ کو بھجوادیا کرتے تھے۔ جب تک وہ حیات رہیں، یہ سلسلہ جاری رہا۔
آپ ایک سادہ منش، پیکرِ تواضع، نمود و نمائش اور شہرت طلبی سے کوسوں دور اور ستائش کی تمنا سے بے پروا تھے۔ انتہائی علمی اور تحقیقی شخصیت ہونے کے باوجود تصوف سے خصوصی شغف اور لگاؤ تھا۔ ہر سال ماہِ رمضان میں اپنے شیخ حضرت شاہ نفیس الحسینی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضری کے لیے اُن کی خانقاہ لاہور تشریف لے جایا کرتے تھے اور رمضان وہیں گزارتے تھے۔
وفات اور سفر آخرت:
۲۴ صفر ۱۴۴۲ھ مطابق ۱۲ اکتوبر ۲۰۲۰ء بروز پیر اس دنیائے رنگ وبو کی تقریباً ۹۴ بہاریں گزار کر راہیِ عالمِ آخرت ہوگئے۔ آپ کے پسماندگان میں ۴ بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں۔ آپ کی نمازِ جنازہ آپ کے صاحبزادے مولانا ڈاکٹر محمد ثانی نے پڑھائی اور اس کے بعد کراچی یونیورسٹی کے قبرستان میں آپ کے بڑے بھائی حضرت مولانا ڈاکٹر محمد عبدالرشید نعمانی رحمۃ اللہ علیہ کی قبر کے قریب آپ کو سپردِ خاک کیا گیا۔ رحمۃ اللہ علیہ رحمۃ واسعۃ
آپ کی رحلت تمام امت کے لیے ایک بڑا سانحہ ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ آپ کی جملہ حسنات کو قبول فرمائے، آپ کو جنت الفردوس کا مکین بنائے۔ آمین