اداریہ ۔ دھونس ، دباﺅ اور منافقت کی امریکی سیاست

اداریہ ۔ دھونس ، دباﺅ اور منافقت کی امریکی سیاست

امریکی صدر ٹرمپ نے عالمی مجرم نیتن یاہو کی خوشنودی کے لیے غزہ پر امریکا اور اسرائیل کے مشترکہ تسلط کی جس مجرمانہ اور احمقانہ خواہش کا اظہار کیا تھا ، وہ عالمی سطح پر امریکا کے خلاف اظہارِ مذمت کا ایک نیا سبب بن گئی ہے اور روس ، چین ، سعودی عرب، ترکیہ اور آسٹریلیا تک نے اس خواہش کو دیوانے کا خواب قرار دیا ہے۔

مشرق و مغرب سے لعنت و ملامت وصول کرنے کے بعد اب امریکی حکومت اور وائٹ ہاو¿س کے ترجمانوں کی وضاحت سامنے آئی ہے کہ امریکا کا مقصد غزہ پر قبضہ نہیں بلکہ تعمیرِنو کے لیے سہولت اور آسانی کے پیشِ نظر صدر ٹرمپ نے غزہ سے انسانی آبادی کے انخلا کی بات کی تھی تاہم حماس کی جانب سے دوٹوک انداز میں کہہ دیا گیا ہے کہ ایسی کوئی بھی کوشش محض وقت کا ضیاع ہی ہوگا۔  فلسطینی عوام کسی بھی صورت غزہ سے انخلا نہیں کریں گے۔ اس ضمن میں سعودی عرب کا موقف بھی امریکی خواہش کے یکسر خلاف ہے۔ سعودی حکومت کی جانب سے اس وضاحت کے بعد کہ وہ فلسطین پر اس کے عوام کے حق کو تسلیم کرتا ہے اور ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیا م سے قبل وہ کسی بھی صورت اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم نہیں کرے گا، یہ بات واضح ہوتی ہے کہ امریکا دھونس، دباو اور منافقانہ پالیسیوں کے ذریعے مشرقِ وسطیٰ میں من چاہی پالیسیوں پر عمل نہیں کروا سکے گا۔
انسانی حقوق کی پاس داری، فرد کی آزادی، اظہارِ رائے کے تحفظ اور خواتین کے احترام جیسے نعروں کا سہارا لے کر امریکا اور مغربی ریاستوں نے فلسطین کے عوام کے خلاف اسرائیل کا کھل کر ساتھ دیا اور یہ ثابت کر دیا کہ وہ جان لاک یا اس جیسے دیگر مفکرین کے بتائے ہوئے فلسفوں پر کس قدر عمل پیرا ہیں؟ درحقیقت جمہوریت اور دین و مذہب سے آزادی حاصل کرنے کے لیے مغربی مفکرین کے فلسفے ایک آسان ذریعہ ضرور ثابت ہوئے تاہم جدید نظریات نے دنیا کی ان طاقت ور ریاستوں اور ان کے مقتدر طبقات کی بالادستی اور تسلط کی خو میں کوئی تبدیلی یا اصلاح نہیں کی۔

ماضی کی مانند یہ اقوام آج بھی جابرانہ ہتھکنڈوں، استعماری عزائم اور دنیا کے وسائل پر تسلط کی خواہش کے تحت کمزور اقوام کوکچلنے اور ان پر اپنا اقتدار قائم رکھنے کے لیے کوشاں ہیں اور اپنی جارحانہ پالیسیوں کو وہ اپنے مفادات کے تحفظ کا نام دیتی ہیں۔ قضیہ فلسطین صرف ایک انسانی آبادی کا معاملہ نہیں ہے بلکہ یہ عالمی سیاست، بین الاقوامی گٹھ جوڑ اور عالمی تنازع کا ایک اہم مرکز ہے اور مشرقِ وسطیٰ میں بسنے والے دیگر کروڑوں انسانوں کی زندگیاں اس تنازع سے براہِ راست یا بالواسطہ جڑی ہوئی ہیں اور یہ سلسلہ کئی دہائیوں سے اسی طرح چلا آ رہا ہے۔
اس تمام پسِ منظر میں امریکا کی جانب سے اس قضیے میں براہِ راست مداخلت کا کوئی جواز موجود نہیں اور نہ ہی اسے فلسطینی عوام نے جوکہ اس خطے کے اصل حق دار ہیں، اپنی نمائندگی کا کوئی اختیار دیا ہے تاہم اس کے باوجود امریکی صدر ٹرمپ فلسطینیوں کے متعلق اشتعال انگیز رویہ اختیار کرتے ہوئے ان کی قسمت کے فیصلے سنانے کی کوشش کر رہے ہیں، تجزیہ کاروں کے مطابق امریکی صد ر کا یہ رویہ عالمی سطح پر موجود تنازعات کو مزید پیچیدہ اور سنگین بنانے کا باعث ہو سکتا ہے۔ تنازعات میں اضافہ دنیا کے اربوں انسانوں کے لیے نئے مسائل پیدا کرے گا۔ انسانی آبادی کی اکثریت پہلے ہی قدرتی آفات، مہنگائی، موسمی تغیرات، بیماریوں اور جنگوں کی وجہ سے طرح طرح کے مصائب کا سامنا کر رہی ہے۔ بے روزگاری کے پھیلاو نے دنیابھر میں جرائم کی شرح بڑھا دی ہے۔

انسانی احترام کو پامال کیا جا رہا ہے اور کمزور اقوام پر طاقت ور قوموں کے تسلط میں اضافہ ہوگیا ہے، ایسے میں امریکا کی جانب سے تنازعات میں اضافے کی کوشش فی الاصل دنیا میں فساد کو بڑھانے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ مفادات کے تحفظ کے نام پر کیا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی معاملات میں امریکا کا کردار اس کی بیان کردہ قومی اقدار کے یکسر خلاف دکھائی دیتا ہے اور اسی وجہ سے امریکی پالیسیوں کو بین الاقوامی سفارتی معاملات میں اعلیٰ قسم کی منافقت کا درجہ حاصل ہے۔ اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے مطابق امریکا کو غزہ میں نسلی صفائی کے کسی بھی منصوبے سے دور رہنا چاہیے، گویا عالمی سطح پر یہ تسلیم کیا جا رہا ہے کہ امریکا عالمی قوانین کے برخلاف اسرائیل کے ساتھ مل کر فلسطینیوں کی نسل کشی میں شریک ہے۔
یہ سوال اہم ہے کہ امریکی صدر کو آخر غزہ سے فلسطینیوں کے جبری انخلا کے منصوبے پر اصرار کیوں ہے؟

تجزیہ کاروں کے مطابق امریکی صدر کو یقین ہے کہ وہ دھونس اور دباو کے ذریعے عرب ممالک کو رام کر نے میںکامیاب ہو جائیں گے۔ مصر اور اردن کو دی جانے والی امریکی امداد اس معاملے میں اہم کردار ادا کرے گی تاہم امریکا کے پاس اہلِ غزہ کے عزم وثابت کا شاید کوئی حل نہ ہو۔ غزہ کے لیے امریکی امدادی تنظیم کو فنڈ روکنے سے بھی یہ معاملہ حل نہیں ہوگا کیوں کہ سعودی عرب ، قطر اور ترکیہ امریکی صدر کی خواہش کے برخلاف اہلِ غزہ کی امداد جاری رکھیں گے۔ بہرحال یہ منظر نامہ ثابت کرتا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کے معاملات میں امریکی اجارہ داری کامیاب نہیں ہوگی۔ اب مسلم امہ کو ہمت سے کام لینا چاہیے اور دھونس، دباو اور منافقت کے کھیل کو باہمی اتحاد سے مسترد کر دینا چاہیے۔