گزشتہ سے پیوستہ:
ریاست جموں و کشمیر کی آبادی ایک کروڑ سے زیادہ بتائی جاتی ہے جس کی غالب اکثریت مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ آبادی کا ایک بڑا حصہ پاکستان اور دیگر ممالک میں مہاجر کے طور پر زندگی بسر کر رہا ہے اور دنیا کے کسی بھی حصے میں رہنے والے کشمیری اپنے اس مطالبہ پر پوری طرح متفق اور اس کے لیے سرگرم عمل ہیں کہ انہیں اقوام متحدہ کے وعدے کے مطابق آزادانہ حق خود ارادیت کے ذریعے سے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا موقع دیا جائے۔ کشمیر دنیا کے خوبصورت ترین خطوں میں سے ہے اور یہ ایسی جنت نظیر وادی ہے جس کے بارے میں کسی فارسی شاعر نے کہا تھا کہ
اگر فردوس بر روئے زمیں است
ہمیں است و ہمیں است و ہمیں است
مگر آج یہ جنت ارضی انڈیا کی چھ لاکھ فوج کی سنگینوں تلے آگ اور خون کا میدان کارزار بن چکی ہے اور اس خطے کے مظلوم مسلمان اپنی آزادی اور دینی تشخص کے لیے قربانیوں کی ایک نئی تاریخ رقم کر رہے ہیں۔
یہ تو مسئلہ کشمیر کا تاریخ پس منظر ہے جس کا تعلق ماضی سے ہے اور اس خطے کے عوام کے مسلمہ حقوق سے ہے، مگر اس مسئلے کا ایک معروضی تناظر بھی ہے جسے اس موقع پر سامنے رکھنا ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ:
(١) جس طرح پون صدی قبل تقسیم ہند کے موقع پر بین الاقوامی قوتوں بالخصوص مغربی استعمار کا مفاد اس میں تھا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کی فضا بہرحال قائم رکھی جائے اور اسی مقصد کے لیے طے شدہ پلان کے مطابق کشمیر کا مسئلہ سازش کے ذریعے سے کھڑا کیا گیا اور پھر اسے کبھی حل نہ کرنے کی پالیسی اختیار کر لی گئی، اسی طرح آج ان قوتوں کا مفاد اس میں ہے کہ یہ کشیدگی کم ہو اور پاکستان اور بھارت ایک دوسرے کے قریب آکر اس بین الاقوامی ایجنڈے پر عملدرآمد کی مشترکہ طور پر راہ ہموار کریں جو ”گلوبلائزیشن” کے نام سے پوری دنیا پر مغرب کی حکمرانی مسلط کرنے کے لیے منظم طور پر آگے بڑھایا جا رہا ہے۔(٢) مغربی حکمرانوں کو پاکستان کی ایٹمی طاقت کھٹک رہی ہے کیونکہ یہ مسلم دنیا کی ایٹمی قوت سمجھی جا رہی ہے۔ اس لیے پاکستان کو ایٹمی طاقت سے دستبردار ہونے پر آمادہ کرنے کے لیے مسئلہ کشمیر کو کسی نہ کسی طرح حل کرنا ضروری سمجھا جا رہا ہے۔(٣) مغربی استعمار کو پاکستان کی فوج کا موجودہ سائز، صلاحیت اور جہاد کے عنوان سے اس کی تربیت کھٹک رہی ہے اور پاک فوج کی ڈاؤن سائزنگ اور اس کا ذہنی رخ بدلنے کے لیے کشمیر کا ٹارگٹ اس کی نگاہوں سے اوجھل کرنا ضروری سمجھا جا رہا۔ اس لیے بھی مسئلہ کشمیر کا کوئی نہ کوئی حل ضروری خیال کیا جاتا ہے۔
(٤) جہاد کے عنوان سے روسی جارحیت سے نجات حاصل کرنے کے بعد افغان مجاہدین نے وہاں جو اسلامی نظریاتی حکومت قائم کر لی ہے، اس تجربے کا کشمیر میں اعادہ مغربی استعمار کے نزدیک ناقابل برداشت ہوگا۔ اس لیے بین الاقوامی حلقوں کے نزدیک یہ ناگزیر ہوگیا ہے کہ کشمیر میں کوئی بھی تبدیلی جہاد کے عنوان سے نہ ہو اور بین الاقوامی سیاسی رابطوں کے ذریعے سے اسی طرح کا کوئی حل کشمیریوں پر مسلط کر دیا جائے جیسے ”جنیوا معاہدہ” کے تحت روسی افواج کو افغانستان سے واپسی کا راستہ دے کر کابل میں ایک کمزور سی حکومت بٹھا دی گئی تھی اور افغان مجاہدین کے مختلف گروپوں کو مستقل طور پر آپس میں لڑاتے رہنے کا اہتمام کر لیا گیا تھا۔ (٥) مغربی حکمرانوں کو چین کے خلاف اپنا حصار مضبوط کرنے اور جنوبی ایشیا کو ایک بلاک کی صورت میں چین کے خلاف کھڑا کرنے کے لیے بھی پاکستان اور بھارت کی دوستی اور اشتراک کار درکار ہے اور یہ مسئلہ کشمیر کے کسی نہ کسی حل کے سوا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ چین کے خلاف عسکری مہم جوئی کے لیے جغرافیائی طور پر وادی کشمیر سب سے مضبوط اور موزوں عسکری مرکز ثابت ہو سکتی ہے اور وہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ پاکستان اور بھارت کسی نہ کسی صورت میں اسے بین الاقوامی کنٹرول کے نام سے مغربی ملکوں کے سپرد کرنے کے لیے تیار ہو جائیں۔
(٦) بھارت کو ریاست جموں و کشمیر سے دستبرداری میں اپنی روایتی ہٹ دھرمی اور پاکستان دشمنی کے ساتھ ساتھ یہ مشکل پیش آرہی ہے کہ اس کے اپنے مختلف علاقوں میں آزادی کی تحریکات چل رہی ہیں۔ اس لیے کشمیر کو آزادی دینے کی صورت میں مختلف علاقوں کی ان تحریکاتِ آزادی کا راستہ روکنا مشکل ہو جائے گا اور اس کے نتیجے میں بھارت اسی طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو سکتا ہے جس طرح جہاد افغانستان کے نتیجے میں سوویت یونین کے حصے بخرے ہوگئے تھے۔ (٧) پاکستان کے لیے قائد اعظم محمد علی جناح کے بقول کشمیر ”شہ رگ” کی حیثیت رکھتا ہے اور کشمیری عوام کے ساتھ پاکستان کے لازوال دینی، ثقافتی اور جغرافیائی رشتوں اور تعلقات کے ساتھ ساتھ یہ حقیقت بھی سامنے ہے کہ کشمیر اس کے بیشتر دریاؤں کا سرچشمہ ہے اور مستقبل قریب میں پانی کے عالمی سطح پر پیدا ہونے والے متوقع عظیم بحران سے قبل اپنے دریاؤں کے سرچشموں سے دستبرداری پورے پاکستان کو بنجر بنانے اور ایتھوپیا اور سوڈان جیسے خوفناک قحطوں کو قبول کرنے کے مترادف ہوگا۔