آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کا دن منایا جارہا ہے۔
یہ دن 1990ء سے منایا جارہا ہے اور اس کا مقصد دنیا کو یہ پیغام دینا ہے کہ پاکستان کے عوام کشمیریوں کے حق خود رادیت کی جدوجہد میں ان کے ساتھ ہیں اور جب تک کشمیر کا مسئلہ بین الاقوامی اصولوں اور اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق حل نہیں ہوجاتا اور کشمیر کے تین کروڑ مسلمانوں کو آزادی اور خود مختاری کا مسلمہ پیدائشی حق نہیں دیاجاتا،پاکستانی قوم بھی چین سے نہیں بیٹھے گی۔یہ پیغام دیاجانا اس لیے بھی ضروری ہے کہ کشمیر کا قضیہ صرف کشمیری مسلمانوں کا مسئلہ نہیں ہے بلکی یہ خود پاکستان کا بھی ایک طرح سے ذاتی مسئلہ ہے۔ بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے بجا طور پر کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا اور یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ تنازع کشمیر بر صغیر کی تقسیم کے ایجنڈے کا نامکمل حصہ ہے اور جب تک یہ مسئلہ طے نہیں کیا جاتا ، پاکستان اور بھارت کے درمیان بین الاقوامی سرحد کا تعین حتمی نہیں ہوسکتا اور یہ مسئلہ دونوں ملکوں کے درمیان ہمیشہ ایک تنازع کا باعث بنا رہے گا اور خطے کے ڈیڑھ ارب سے زائد انسانوں کی زندگیاں خطرے سے دوچار رہیں گی۔اس لیے مسئلہ کشمیر کا پائے دار اور منصفانہ حل نہ صرف کشمیر کے تین کروڑ شہریوں کے مستقبل کے لیے اہم ہے بلکہ اس پر پورے جنوبی ایشیا کے امن واستحکام کا انحصار ہے۔
پون صدی سے زائد کا عرصہ گزرجانے کے بعد کشمیر کا مسئلہ لاینحل ہے تو اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اس تنازع کا ایک بڑا فریق بھارت روز اول سے ہٹ دھرمی،نخوت اور غیر منطقی طرز عمل پر اڑا ہوا ہے۔ تقسیم برصغیر کے بعد جب کشمیر کے لوگوں نے انگریز سرکار اور بھارت کی ملی بھگت سے ڈوگرہ سرکار کے ذریعے کشمیر کو بھارت کا حصہ بنانے کے فیصلے کے خلاف بغاوت کردی اورپاکستان کے ساتھ الحاق کے لیے میدان عمل میں اترے تو بھارت بوکھلاہٹ کے عالم میں خود اس مسئلے کو اقوام متحدہ لے کر گیا اور بھارتی وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے کہا کہ اقوام متحدہ جو فیصلہ کرے گی،بھارت اسے قبول کرلے گا۔ لیکن جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے یہ قرار داد پاس کی کہ کشمیر کا مسئلہ کشمیری عوام کے استصواب رائے سے طے کیا جائے اور بھارتی حکومت کشمیریوں کو خود ارادیت کا حق دے تو بھارت یکدم اپنے قول و قرار سے پھر گیا اور کشمیر میں استصواب رائے کا انتظام کرنے کی بجائے ”اٹوٹ انگ” کی نئی رٹ لگاکر کشمیریوں کو فوجی طاقت کے ذریعے دبائے رکھنے کا سلسلہ شروع کردیا جس کو کشمیری عوام نے ایک لمحے کے لیے بھی قبول نہیں کیا۔
کشمیر پر بھارت کے غاصبانہ تسلط کے خلاف کشمیری عوام کی جدوجہد روزاول سے جاری ہے اور پاکستان نے بھی اس قضیے کے ایک فریق کی حیثیت سے کشمیریوں کی جدوجہد کی حمایت کی ہے۔ کشمیر کے مسئلے پر پاکستان اور بھارت کے درمیان دو بڑی اور متعدد چھوٹی جنگیں ہوچکی ہیں اور کئی دفعہ دوایٹمی قوتوں کے درمیان خوفناک جنگ ہوتے ہوتے بچی ہے۔جب تک اس مسئلے کا پائے دار اور منصفانہ حل نہیں نکالا جاتا،دونوں ملکوں کے درمیان عسکری تصادم کاامکان ایک سنجیدہ خطرے کی صورت میں ہمیشہ موجود رہے گا،دونوں ملکوں کی قومی پیداوار اور آمدنی کا ایک بڑاحصہ دفاعی تیاری کے اخراجات کی نذر ہوتا رہے گا اور دونوں ملکوں کے عوام غربت و افلاس کی چکی میں بدستور پستے رہیں گے۔
بد قسمتی کی بات یہ ہے کہ قضیہ کشمیر کے حل کے سلسلے میں بین الاقوامی قوتوں بالخصوص اقوام متحدہ، امریکا ،برطانیہ،یورپی یونین وغیرہ کا کردار بھی ہمیشہ دوغلا اورمنافقانہ رہا ہے۔مسئلہ کشمیر شروع دن سے اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر موجود ہے اور یہ بدیہی طور پر ان تنازعات میں سے ہے جن کے حل کے لیے ہی اقوام متحدہ کا وجود عمل میں لایا گیا تھا اور جن کے حل پر دنیا کی آبادی کے ایک بڑے حصے کی سلامتی منحصر ہے مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ اقوام متحدہ نے اس مسئلے پر چند خالی خولی قرار دادوں اور بیانات کے سوا کوئی عملی کام نہیں کیا ہے۔اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے کئی بار کشمیر میں قابض بھارتی فوج کے ہاتھوں انسانی حقوق کی پامالی،خواتین کی آبروریزی،بچوں پر تشدد اور غیر انسانی کارروائیوں کی نشاندہی کرچکے ہیں مگر مجال ہے کہ اقوام متحدہ نے کبھی اس پر بھارت کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی کی ہو۔
اقوام متحدہ کی بے عملی کا اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت ہوگا کہ 2019 ء میں جب بھارت کی مودی سرکار نے تمام بین الاقوامی ضابطوں کو پاؤں تلے روند کر مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت یکطرفہ طور پر تبدیل کردی اور غیر قانونی طریقے سے کشمیر کے بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ متنازع خطے کو ضم کرنے کی کوشش کی تو اقوام متحدہ اس پر بھی ٹس سے مس نہیں ہوئی اور مودی سرکار کو پورا پورا موقع دیا گیا کہ وہ کشمیر کی پوری وادی کو آٹھ لاکھ فوج کے ذریعے محصور کرکے ان پر اپنا فیصلہ تھوپ دے۔
جہاں تک دیگر عالمی طاقتوں کا تعلق ہے تو ان کا کردار بھی شرم ناک ہی رہا ہے۔برطانیہ مسئلہ کشمیر کا اصل ”موجد” ہے اور یہ انگیز سرکار کی ہی مہربانی ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے عوام پون صدی سے ایک عذاب کی سی زندگی گزرانے پر مجبور ہیں۔ برطانیہ نے تقسیم کے وقت سراسر زیادتی اور بے ایمانی کرکے کشمیر بھارت کی جھولی میں ڈال دیا اور آج بھی اس پر کوئی ندامت نہیں کہ اس نے ایک خطے کے کروڑوں عوام پر کتنا بڑا ظلم کیا ہے،ورنہ وہ اپنی غلطی کی اصلاح کی ضرور کوشش کرتا اور بھارت پرکم از کم استصواب رائے کے قانونی تقاضے پر عمل کے لیے دباؤ ڈالتا۔اسی طرح دور حاضر کی سپر پاور کہلانے والے ملک امریکا کا کشمیر کے بارے میں رویہ بھی تقریباً اسی طرح کا ہے جیسے اس نے فلسطین کے مسئلے میں پون صدی سے اپنایا ہوا ہے۔ امریکا کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد ملاقات کے لیے پہلے غیر ملکی سربراہ حکومت کے طور پر انسانیت کے خلاف جرائم کے سرٹیفائیڈ مجرم نیتن یاہو کو واشنگٹن بلایا ہے اور اطلاعات کے مطابق اگلے ہفتے وہ بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی المعروف گجرات کے قصائی کی میزبانی کریں گے۔
اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس وقت عالمی سطح پر کس طرح کی صف بندی ہورہی ہے۔ ایسے میں ظاہر ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے عالی قوتوں پر تکیہ کرکے بیٹھ جانا ،کوئی دانشمندی نہیں ہے۔پاکستان کو مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے صرف عالمی قوتوں سے مطالبات کرتے رہنے اور سال میں ایک دن” یوم یکجہتی” منانے پر اکتفا کرنے سے آگے کا سوچنا ہوگا اورکشمیری بھائیوں کو بھارت کے غاصبانہ تسلط سے نجات دلانے کے لیے سفارتی محاذ پر جرأت مندانہ اقدامات کرنا ہوں گے اور روس اور چین کے علاوہ برادر اسلامی ممالک کو ساتھ ملاکر جدو جہد کرنا ہوگی۔