اداریہ: عالمی جبر کے خلاف مزاحمت کا نمایاں استعارہ

غزہ میں جنگ بندی کے تیسرے مرحلے کا آغاز ہونے والا ہے۔ اسرائیلی یرغمالیوں کے بدلے میں فلسطینی قیدیوں کی رہائی کا سلسلہ جاری ہے۔ یرغمالیوں کی رہائی کے لیے اسرائیل کی غاصب افواج نے پندرہ ماہ تک اہلِ غزہ پر آتش و آہن کی خوف ناک برسات کی جس کی وجہ سے غزہ کا بیشتر حصہ تباہ ہوگیا۔ زیادہ تر رہائشی عمارتیں منہدم ہوگئیں یا وہ جزوی طورپر متاثر ہوئیں۔ کارخانے، پیداواری ذرائع اور تجارتی مراکز ملیامیٹ کر دیے گئے۔ اسپتالوں اور اسکولوں اور یونی ورسٹیوں کو زمین بوس کر دیا گیا۔ نسل کشی اور تباہی و بربادی کی ہر ممکن کوشش کے باوجود اسرائیل کو یرغمالیوں کی رہائی کے سلسلے میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا،چار وناچار اسرائیل کو آخرکار مذاکرات پر مجبور ہونا پڑا جس کے بعد اب تک غزہ میں جنگ بندی کا تسلسل جاری ہے۔

عالمی مجرم نیتن یاہو اور اس کی سفاک کابینہ اس وقت جلتے توے پر دکھائی دیتے ہیں۔ یہ مجرم ٹولہ فلسطینیوں کے بظاہر عارضی امن کو بھی برداشت نہیں کر پا رہا۔ اطلاعات کے مطابق اسرائیل نے دریائے اردن کے مغربی کنارے کی جانب موجود فلسطینیوں کے علاقوں پر حملوں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ کیمپوں پر حملوں میں کئی مکانات کو تباہ کر دیا گیا ہے اور مختلف مقامات سے آگ اور دھوئیں کے بادل اٹھ رہے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے خیال میں نیتن یاہو اپنی ناکامی پر شدید اشتعال میں ہے اور وہ انتقام کے لیے کوئی بھی مجرمانہ اقدام کر سکتا ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ فلسطینیوں کے خلاف مزید تعاون حاصل کرنے کے لیے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملنے روانہ ہو رہا ہے۔
حالیہ تاریخ اور موجودہ عالمی حالات اس امر کی گواہی دیتے ہیں کہ سفید فام اقوام دنیا کے وسائل اور معاملات پر مکمل تسلط اور ہمہ گیر بالادستی کے عزائم رکھتی ہیں۔ ان عزائم کی تکمیل کے لیے میڈیا، صنعتی و تجارتی سرگرمیوں، معاشی وسائل اور جدید ٹیکنالوجی اور عسکری طاقت غرض ہر شے کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ نیو ورلڈ آرڈر سے لے کر کینیڈا جیسی حلیف ریاستوں کو توسیع پسندانہ عزائم کے تحت اپنے جغرافیے میں شامل کرنے جیسی خواہشات دراصل اسی عالمی غلبے اور مکمل اجارہ داری کی حرص کے نتائج ہیں۔ سلطنتِ عثمانیہ کے سقوط کے بعد عالمِ اسلام میں کوئی ایسی قوت موجود نہ رہی جو کہ سفید فام اقوام کی عالمی بالادستی کو چیلنج کر سکتی۔ امریکا اور یور پ نے مشترکہ طور پر اقوامِ متحدہ کی تشکیل کی اور امن، انصاف، انسانی آزادی، جمہوریت اور مساوات کے دل فریب الفاظ اور خوش نما اصطلاحات کے ذریعے دیگر اقوام کو قوانین کے شکنجے میں جکڑ لیا لیکن اپنی پالیسیوں کو اصولوں کی بجائے مفادات اور سیاسی عزائم کے تابع ہی رکھا۔ غالباً اسی وجہ سے بعض اہلِ علم کے خیال میں مسلم ممالک اس وقت بھی ایک جبری نظام کے ماتحت ہیں، انھیں اسی طرح کی نیم خودمختاری حاصل ہے جیسا کہ فلسطین کے مغربی کنارے کے بیس سے چالیس فیصد حصے پر فلسطینی اتھارٹی کو برائے نام حکومت دی گئی ہے اور اسی جبر کی وجہ سے مسلم عوام ایک اضطراری حالت میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ فلسطینیوں کو ایک عرصے بعد یقین ہوگیا کہ جمہوریت، انسانی آزادی اور بقائے باہمی کے نعرے محض فریب ہیں اور غاصب اسرائیل دراصل امریکا اور یورپی اقوام کی پشت پناہی کے ذریعے اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کے سوا اور کوئی مقصد نہیں رکھتا لہٰذا انھوں نے خود کو مزید فریب دینے اور دھوکے میں رکھنے کی بجائے اپنے زورِ بازو پر بھروسہ کرنے کا فیصلہ کیا اور پتھروں سے مقابلہ کرتے ہوئے آخرکار مزاحمت کو دوبدو جنگ کی نہج تک پہنچا دیا۔
آج اس جنگ کے شعلے قابض گروہوں کے گھروں تک پہنچ چکے ہیں۔ غزہ کے بعد اب مزاحمتی قوتیں مغربی کنارے میں بھی طاقت پکڑتی جا رہی ہیں۔ تیس لاکھ آبادی پر مشتمل مغربی کنارے میں مزاحمتی قوتوں کی مضبوط ہوتے قدم غاصب اسرائیلی افواج کے لیے دہرے مسائل کا سبب بن سکتے ہیں۔ غزہ کے مقابلے میں یہ خطہ زیادہ سرسبز و شاداب ہے اور یہاں کے پانی پر تسلط جماکر اسرائیل بیشتر آبی ضروریات پوری کر رہا ہے۔ اس خطے میں بیت المقدس کی موجودگی نے اسے مزید حساس بنا دیا ہے۔ یہاں جنین، طولکرم اور نابلس میں مسلح مزاحمت اگر قدم جمانے میں کامیاب ہوگئی تو اسرائیل ایک نہ ختم ہونے والی مصیبت سے دوچار ہو جائے گا یہی وجہ ہے کہ نیتن یاہو فلسطینی مزاحمت کو کچلنے کے لیے امریکا کی بھرپور تائید وحمایت چاہتا ہے تاہم ترکیہ اور عرب ملکوں کا حالیہ مشترکہ موقف بہرحال امریکا کے لیے بھی پریشانی کی وجہ بن سکتا ہے۔ ترکیہ اور عرب ممالک جس طرح یک زبان ہوکر غزہ سے فلسطینیوں کے جبری انخلا کو مسترد کیا ہے، اس کے بعد مجرموں کے اس ٹولے سے کچھ بعید نہیں کہ وہ خطے میں ایک نئی جنگ چھیڑنے کا فیصلہ کر ہی لے لیکن اس قسم کی حماقتوں کے مقابلے میں مزاحمتی قوتیں مزید مضبوط ہوں گی۔ حقیقت یہ ہے کہ فلسطینی مقاومتی تنظیمیں اس وقت عالمی جبر کے سامنے مزاحمت کا استعارہ بن چکی ہیں۔ اقوامِ سفید کی عالمی بالادستی کو اس وقت متعدد چیلنچ درپیش ہیں لیکن سب سے اہم پیش رفت یہ ہے کہ غزہ کی جنگ نے تہذیبِ مغرب کے آتشیں چہرے پر موجود منقش و دیدہ زیب خول کو اکھاڑ پھینکا ہے۔ ایک عام طالب علم بھی امریکا اور یورپی اقوام کے مہنگے کوٹوں پر لگا ہوا معصوم فلسطینی بچوں کا لہو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے۔ فلسطینیوں کی ایک صدی کی مزاحمت رفتہ رفتہ ایک آتش فشاں بنتی جا رہی ہے۔ آپریشن طوفان الاقصیٰ نے ثابت کر دیا ہے کہ فلسطینی مزاحمت اب ناقابلِ تسخیر عزم میں ڈھل چکی ہے جس کے بعد اسرائیل اور امریکا مل کر لاکھ زور لگالیں، وہ مزاحمت کا خاتمہ نہیں کر سکتے۔
سرکاری زمینوں پر قبضے اور تجاوزات
ایک طرف پنجاب حکومت صوبے بھر میں تجاوزات کے خاتمے کی مہم چلا رہی ہے تو دوسری جانب ایک خبر کے مطابق وزیر اعظم میاں شہباز شریف کو رپورٹ پیش کی گئی ہے کہ کراچی پورٹ کی قیمتی زمینوں پر ناجائز قبضوں میں سندھ حکومت کی بعض شخصیات سمیت اہم افسران اور دیگر بااثر شخصیات شریک ہیں۔ وزیر اعظم اس رپورٹ پر کیا ردعمل ظاہر کرتے ہیں اور قبضہ مافیا کا مقابلہ کیسے کیا جائے گا؟ اس متعلق کچھ نہیں کہا جا سکتا تاہم انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ ملک بھر میں بااثر شخصیات کی بلیک میلنگ کو نظرانداز کرکے بہرصورت قانون کا نفاذ کیا جائے، سماج کی بہتری اور نظام کی درستی کے لیے عدل و انصاف کے قیام بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ ملک میں قانون کی حکمرانی کے بغیر کوئی بھی معاشی پلان یا اقتصادی منصوبہ کامیاب نہیں ہو سکتا، اس لیے بیورو کریسی ہو یا سیاسی شخصیات ہوں، سب ہی کو قانون کے دائرے میں رہنا چاہیے۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ وزیر اعظم اس سلسلے میں کیا قدم اٹھاتے ہیں۔