کہیں پڑھا تھا کہ کسی وقت ایک دادا نے اپنے پوتوں سے ٹرین میں سوار ہونے کی خواہش کا اظہار کیا تو پوتوں نے فوراً اسے قریبی شہر کا ٹکٹ خرید کر دیا تاکہ وہ ٹرین کے سفر سے محظوظ ہوسکے۔
ٹرین میں سوار ہونے کے بعد دادا نے دیکھا کہ ڈبے میں کسی سیٹ کا کور پھٹا ہوا ہے تو غصے سے اپنا سامان اٹھا کر دوسرے ڈبے میں چلا گیا، دوسرے ڈبے میں سیٹوں کے کورز پر نقش و نگار دیکھ کرمزید پریشان ہوا تو پھر سے کمپارٹمنٹ کو تبدیل کردیا۔ یوں ہی وہ پورے سفر میں ایک ڈبے سے دوسرے ڈبے میں منتقل ہوتا رہا لیکن جب سارے آپشنز ختم ہوگئے تو آخرکار ایک جگہ ٹک کر بیٹھ گیا۔ باہر دیکھا تو خوبصورت فضا اور دائیں بائیں کے دلکش منظر نے اپنے سحر میں جکڑ لیا۔ابھی وہ ان خوبصورت مناظر سے سے لطف اٹھانے ہی لگا تھا کہ ٹرین مطلوبہ اسٹیشن پر پہنچ کر مجبورا اسے اترنا پڑا۔ اس موقع پر وہ خود سے گویا ہوا: اگر مجھے معلوم ہوتا کہ یہ سفر اتنا مختصر ہے تو میں یہ وقت شکایتوں، بڑبڑانے اور ایک ڈبے سے دوسرے ڈبے میں منتقل ہونے میں نہ گزارتا بلکہ فطرت کے حسن وجمال سے لطف اندوز ہوتا!
پیدائش سے موت تک زندگی کا سفر دو شہروں کے درمیان بوڑھے آدمی کے سفر سے بہت ملتا جلتا ہے!
یہ درست ہے کہ سفر مشکلات اور صعوبتوں کے بغیر کبھی نہیں ہوتا مگر اس دوران خوبصورت چیزیں بھی بہت دیکھنے کو ملتی ہیں بشرطیکہ کوئی ان سے نظریں نہ چرائے۔ بدقسمتی سے ہم ان سے آنکھیں پھیر لیتے ہیں اور صرف جھنجھلاہٹ پر توجہ مرکوز کرتے ہیں، جس کی وجہ سے ہم سفر کی خوبصورتی کو انجوائے کرنے سے بھی محروم رہتے ہیں!
ممکن ہے آپ کا کام بہت مشقت والا اور مشکل ہو، لیکن اگر یہ سوچتے ہوئے کام کو جاری رکھیں گے کہ اللہ تعالی نے اس کے ذریعہ آپ کو لوگوں کا محتاج بننے سے بچائے رکھا ہے تو یہ مشکل سفر بھی آسان لگے گا۔بہت سے رشتوں میں ناچاقی اس لیے ہوتی ہے کہ وہ ایک دوسرے کی خوبیوں کی بجائے عیبوں کو تلاش کرتے ہیں، حالانکہ حدیث میں آتا ہے کہ”کوئی مومن مرد کسی مومنہ عورت سے بغض نہ رکھے ۔اگر اسے اس کی کوئی عادت ناپسند ہے تو دوسری پسند ہو گی” جی ہاں! سفید صفحہ پر سیاہ نقطے کو نہیں ڈھونڈیں گے تو زندگی کا سفر پرکیف ہوسکتا ہے۔
ہو سکتا ہے آپ کا گھر چھوٹا ہو اور بمشکل تمہارے اور بچوں کے لیے کافی ہو، لیکن ایک ٹھکانہ تو ہے جہاں تم پناہ لے سکتے ہو، ایک نرم اور محبت بھرا سینہ تو ہے جس پر تم دن بھر کی تھکاوٹ اتارنے کے لیے اپنا سر رکھ سکتے ہو، جبکہ دنیا میں لاکھوں لوگ ہیں جن کے پاس گھر نہیں جہاں وہ پناہ لے سکیں، اور نہ ہی بیویاں ہیں جن کے پاس راتوں کو وہ سکون حاصل کرسکیں۔
بچے شرارتی ہیں، بمشکل آپ گھر کی چیزوں کو ترتیب سے رکھ دیتی ہیں کہ وہ فورا تباہی مچا کرآپ کی ساری محنت ضائع کر دیتے ہیں، ان کے کپڑے جلدی گندے ہو جاتے ہیں، وہ دن میں دس بار کھاتے ہیں! حالات تھکا دینے والے ہیں، اور گھر کے کام اتنے محنت طلب ہیں کہ جسم تھک کر چور ہو جاتا ہے، لیکن کیا آپ نے بطور خوش قسمت ماں کبھی اپنے آپ سے یہ سوال کیا ہے کہ کتنی خواتین ایسی ہیں جو اولاد کی نعت سے محروم ہیں؟
کبھی یہ غور کیا ہے کہ کتنی مائیں ایسی ہیں جن کا کوئی بچہ معذور ہے، اور جو یہ تمنا کرتی ہیں کہ کاش ان کا بچہ تندرست ہوتا پھر چاہے گھر کی ساری سٹنگ برباد کردیتا!آپ کے بچے گھر کو کھنگالتے ہیں کیونکہ وہ صحت مند ہیں! وہ کھاتے ہیں، دوڑتے ہیں، کھیلتے کودتے ہیں اور اپنے کپڑے گندے کرتے ہیں کیونکہ ان میں بہت ساری توانائی ہے!
زندگی کا راز تیری نظر اور دیکھنے والی آنکھ میں ہے کہ تم کسی چیز کو کس نظر سے دیکھتے ہو،
نہ کہ منظر میں جو دیکھا جاتا ہے۔ سو آدھے بھرے ہوئے کپ کو دیکھ کر شکر ادا کریں بجائے اس کے آدھے خالی ہونے پر افسوس کرنے کے۔
جو لوگ اللہ کی تقسیم پر راضی نہیں ہوتے اور جو کچھ اللہ نے انہیں دیا ہے اس پر قناعت نہیں کرتے، وہ ہمیشہ بیچین رہتے ہیں۔ انہیں نہ اپنا کھانا پسند آتا ہے، نہ لباس، نہ سواری، اور نہ رہائش۔
اس لیے حدیث میں آتا ہے: ان لوگوں کی طرف دیکھو جو دنیاوی اعتبار سے تم سے کم تر ہوں اور ان لوگوں کی طرف نہ دیکھو جو تم سے اوپر ہوں، اس طرح زیادہ لائق ہے کہ تم اللہ کی ان نعمتوں کی ناقدری نہ کرو، جو اس کی طرف سے تم پر ہوئی ہیں۔ یاد رکھیں قناعت سے محروم کبھی سکون نہیں پا سکتا۔