مرکزی بینک کی سال کی پہلی زری پالیسی (ابراہیم خلیل)

اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے اس ہفتے کے آغاز کے ساتھ ہی اپنی مانیٹری پالیسی جاری کردی ہے۔ اسے نئے سال کی پہلی زری پالیسی بھی کہہ سکتے ہیں۔ آج کل تقریباً ڈیڑھ ماہ کے وقفے کے بعد مانیٹری یا زری پالیسی کا اعلان کر دیا جاتا ہے۔ کاروباری طبقہ ہو، سرمایہ کار یا صنعت کار، ایکسپورٹرز اور امپورٹرز اور حتیٰ کہ عوام کو بھی اس کی بیان کردہ پالیسی کو دیکھنے اور سمجھنے کے لیے اس رپورٹ کا انتظار رہتا ہے۔ سود پر کاروبار کرنے والے اس پالیسی کا انتظار کرتے ہیں۔ اسٹیٹ بینک جوکہ کسی بھی ملک کا مرکزی بینک ہوتا ہے، ملکی معیشت کو چلانے کے لیے اس کی طرف سے اعلان کردہ پالیسی کو کسی بھی ملک میں نہایت ہی اہمیت دی جاتی ہے۔
پاکستان میں گزشتہ کئی برسوں سے مہنگائی نے انت مچا رکھی ہے، کاروبار مندی کا شکار ہے۔ صنعتیں بند ہوتی چلی جا رہی ہیں، ایسے میں مرکزی بینک کی جانب سے کچھ ایسے اقدامات نظر تو نہیں آتے جن کی بنا پر کہا جائے کہ بینک کی پالیسی کے باعث ملکی معیشت استحکام کی پوزیشن پر ہے، البتہ زری پالیسی کے چند اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے بینک یہ سمجھتا ہے کہ مہنگائی یا افراط زر کی شرح کو کم کرنے کے لیے شرح سود میں کمی یا اضافے کو برقرار رکھا جائے، لہٰذا اس طے شدہ پیمانے کے تحت جب ملک میں افراط زر کی شرح بڑھتی ہے تو بینک شرح سود میں اضافہ کر دیتا ہے۔
اب ایک ایسا ملک جہاں پر معیشت کو چلانے کے لیے سود پر قرض لیا جاتا ہے، جہاں پر کارخانے دار تاجر سب سود پر ترقی حاصل کرتے ہیں وہ جب اونچی شرح سود کا نفاذ دیکھتے ہیں تو اپنی جمع پونجی بھی لاکر اسے غیرفعال بناکر بینک میں جمع کرا دیتے ہیں اور کچھ کیے بغیر گھر بیٹھے ہر ماہ اس کا منافع حاصل کرتے رہتے ہیں۔ اس طرح ایک طرف قرض بھی حاصل کیا جاتا ہے، اس کے ساتھ جمع پونجی بھی جمع کرائے بغیر منافع حاصل کیا جاتا ہے لہٰذا سود چاہے بڑھا دیا جائے یا گھٹا دیا جائے ،اس کا یہ نقصان تو لازمی ہے کہ وہ انشورنس، ذرائع، سرمایہ، رقوم کو غیرفعال بناکر رکھ دیتا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جب رقوم معیشت میں استعمال نہیں ہوں گی تو ایسی صورت میں چنگی بھلی معیشت کا بھی ستیاناس ہوکر رہ جاتا ہے۔
بہرحال 4نومبر 2024ء کی بات ہے جب مانیٹری پالیسی کا اعلان کیا گیا تھا، اس طرح تین ماہ میں یہ تقریباً تیسری زری پالیسی ہے۔ 4نومبر کو اعلان کیا گیا کہ شرح سود کو کم کرکے 15فیصد کردیا گیا ہے۔ پھر 17دسمبر تک ایک اور زری پالیسی کا اعلان کرکے بتایا گیا کہ اب شرح سود کو 13فیصد کردی گئی ہے، اس طرح تقریباً ڈیڑھ ماہ کے بعد شرح سود میں 33فیصد کمی ہوئی اور کہا گیا کہ ہم نے پہلے بھی مہنگائی کنٹرول کرلی تھی اور یہ کمی اس لیے کردی گئی ہے کہ پہلے کی نسبت مہنگائی مزید کم ہوگئی ہے۔ اب 40یوم کا عرصہ گزرا کہ بینک نے اپنی نئی پالیسی کا اعلان کردیا۔
واضح رہے کہ زری پالیسی کا اعلان مرکزی بینک کرتا ہے اور زرعی پالیسی کا اعلان وفاقی حکومت کرتی ہے، البتہ صوبوں کے کسانوں کے مفاد میں صوبائی حکومتیں بھی کچھ اقدامات کر سکتی ہیں۔ جسے ضروری سمجھا جائے تو صوبائی اسمبلی سے قانون کی شکل میں پاس بھی کروا لیا جاتا ہے۔ ویسے ہونا تو یہ چاہیے کہ ہر صوبے کی سطح پر زرعی پالیسی بنانے کا اختیار ہونا چاہیے بلکہ ہر کمشنری کی سطح پر اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ کسانوں کا بھلا ہو۔ ان کا مفاد اسی سے جڑا ہوا ہے۔ بہرحال تین ماہ میں یہ تیسری اور سود کی شرح میں کٹوتی کے سلسلے کی یہ چھٹی پالیسی ہے جس میں شرح سود کو 13فیصد حصے کم کرکے 12فیصد کردیا گیا اور دعویٰ کیا گیا کہ بس اب اس کے مثبت اثرات مرتب ہوں گے اور معیشت مستحکم ہوکر رہے گی۔ مہنگائی کم ہوگی۔ اب جیسا کہ میں نے کہا کہ سود کو ہر طرح سے مضر ہی قرار دیا جاسکتا ہے لہٰذا مہنگائی نے کیا کم ہونا تھا اور معیشت پر مثبت اثرات کیا مرتب ہوئے، یہاں یہ حال ہوگیا کہ شرح سود میں صرف ایک فیصد کمی سے اسٹاک مارکیٹوں میں بڑی مندی چھا گئی۔ سرمایہ کاری کے شعبوں نے سرمائے کے انخلا کو ترجیح دی۔ سرمایہ کاروں کے ایک کھرب 86ارب روپے ڈوب گئے۔ 1369پوائنٹس کی کمی ہوئی۔ اس طرح کراچی چیمبر آف کامرس نے شرح سود میں صرف ایک فیصد کمی کو مسترد کردیا۔
اب ہم تازہ ترین مانیٹری پالیسی کے اہم نکات بیان کیے دیتے ہیں۔ بینک کے مطابق رواں مالی سال شرح نمو ڈھائی سے ساڑھے تین فیصد رہے گی۔ ڈیجیٹل کرنسی کے لیے ایکٹ میں ترمیم کی ضرورت ہوگی، البتہ مرکزی بینک نے اس بات پر خیر منائی کہ آئی ایم ایف نے شرح مبادلہ پر کوئی سوال نہیں کیا۔ دراصل ڈالر کو ہم نے خود سر پر چڑھا رکھا ہے۔ جس کے باعث مہنگائی کا گراف بھی کم نہیں ہو رہا۔ پاکستان میں مہنگائی کی اہم وجہ شرح سود نہیں ہے بلکہ ڈالر ریٹ ہیں جوکہ زمینی حقائق سے کہیں دور ہیں۔ بھارت بنگلادیش اور دیگر ملکوں میں پاکستان کی نسبت ڈالر کی قدر کم ہے اور ہمارے یہاں سب سے زیادہ ہیں۔ یہ بات شاید ہم نہیں سمجھتے اور وہ سمجھتے ہیں۔ جب ہی تو آئی ایم ایف والوں نے شرح مبادلہ پر کوئی سوال نہیں کیا۔ کیونکہ اگر سارک ممالک میں ان کی کرنسی اور ڈالر کا شرح مبادلہ دیکھ لیں تو شاید ہمیں احساس ہوگا کہ اس ڈالر کو سر چڑھا کر اور روپے کی بے قدری کرکے ہم نے افراطِ زر کو بہت بڑھایا ہے۔
افراط زر میں کمی کے امکانات پیدا ہو رہے ہیں لیکن اس کا سبب پاکستان کی کسی پالیسی سے نہیں ہوگا بلکہ عالمی پیمانے پر افراط زر میں کمی کے اثرات پاکستان پر بھی مرتب ہوں گے کیونکہ نئے امریکی صدر کے آنے سے ہوسکتا ہے کہ عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں کمی واضح ہو۔ اور تیل کی قیمت میں کمی اس صورت میں ہوسکتی ہے جب روس یوکرین جنگ کے خاتمے کے لیے کوشش کی جائے اور اسے کامیاب بنانے کے لیے عالمی سطح پر تیل کی قیمت کو کم کیا جاسکتا ہے۔ اس سے روس کو تیل سے ہونے والی آمدنی گھٹ کر رہ جائے گی۔ نئے امریکی صدر ہوسکتا ہے اس میں جلد کامیاب ہو جائیں گے ۔ایسی صورت میں امید ہے کہ اس کے مثبت اثرات ہمارے ملک پر مرتب ہوں اور افراط زر کی شرح میں کمی ہو۔ اب اس کمی کے اثرات کو ہم ڈالر ریٹس پر لے جاکر نافذ کرسکتے ہیں جس کے لیے مرکزی بینک اور معاشی حکام ملک کر ایسے طریقے نافذ کرسکتے ہیں ایسی صورت میں بینک اپنے دعویٰ اور ہدف کو حاصل کرسکتا ہے کہ شرح نمو ڈھائی سے ساڑھے تین فیصد رہے گی۔