(دوسرا اور آخری حصہ)۔ فلسطین کی داستان محض ظلم کی کہانی نہیں بلکہ استقامت کی بھی کہانی ہے۔ اس تقریب کے دوران 12 خصوصی ورکشاپس منعقد کی گئیں، جن میں فلسطینی بیانیے کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی۔ شرکا کو روایتی اور ڈیجیٹل میڈیا کی حکمت عملیوں کے بارے میں آگاہ کیا گیا۔ موضوعات میں نوجوان نسل تک پہنچنے کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال، غلط معلومات کے خلاف لڑائی اور موثر بصری مواد کی تخلیق شامل تھے۔ ماہرین نے کہانی سنانے کی تکنیکوں کو بہتر بنانے کے لیے حکمت عملیوں کا تبادلہ کیا تاکہ فلسطینی نقطہ نظر عالمی گفتگو میں مرکزی حیثیت برقرار رکھ سکے۔ امریکی صحافی ایبی مارٹن، جو ایمپائر فائلز سے وابستہ ہیں نے امریکا میں عوامی رائے میں تبدیلی کا ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ اب ایک تہائی سے زیادہ امریکی یہودی حماس کے ساتھ ہمدردی رکھتے ہیں۔ 42 فیصد نوجوان امریکی یہودی اس بات سے متفق ہیں کہ اسرائیل نسل کشی کر رہا ہے اور لاکھوں افراد صہیونیت مخالف ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ فلسطینی امنگوں کو اجاگر کرنے والے متبادل اور آزاد میڈیا تیزی سے ترقی کر رہے ہیں، جو تبدیلی کی ایک نئی لہر کے لیے راہ ہموار کر رہے ہیں۔ مصر کے معروف مصنف فہمی ہویدی نے اس بات کی نشاندہی کی کہ دنیا بھر کے عوام اب فلسطین کی حقیقتوں سے زیادہ واقف ہو رہے ہیں، جس کی بڑی وجہ معلومات کا تیزی سے پھیلاؤ ہے۔ انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا ایک دو دھاری تلوار بن گیا ہے۔ یہ جہاں سچائی کے پھیلاؤ کا ذریعہ ہے، وہیں یہ غلط معلومات کے فروغ کا بھی سبب بنتا ہے۔ اس فورم میں میڈیا کی نمائندگی کے ارتقا پر بھی روشنی ڈالی گئی۔ الجزیرہ کے سینئر ایڈیٹر علاء الدین حماد نے چینل کے آغاز سے اب تک اس کے اثرات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ابتدا میں بیانیہ فلسطینیوں کے خلاف شدید طور پر متعصب تھا اور ان کی آواز کو بہت کم نمائندگی ملتی تھی۔ الجزیرہ نے زیادہ متوازن نمائندگی کے لیے راہ ہموار کی اور مغربی میڈیا کی اجارہ داری کو چیلنج کیا۔ حماد نے غلط بیانیوں کو چیلنج کرنے میں جنریشن زیڈ کے کردار کو بھی سراہا اور مثال دی کہ کیسے نوجوان نسل نے 7 اکتوبر کے حملوں کے بعد اسرائیل کے جھوٹے دعوؤں، جیسے بچوں کے سر قلم کرنے کے دعوے، کو سوالیہ نشان بنایا۔
انہوں نے کہا کہ یہ نسل معتبر میڈیا کے مستقبل کی تشکیل کر رہی ہے۔ دوحہ میں قائم الجزیرہ، جو 1996 میں شروع ہوا، آج 150 ممالک میں 430 ملین سے زیادہ گھروں تک نشریات پہنچاتا ہے اور 70 سے زیادہ ممالک میں اس کے دفاتر موجود ہیں۔ حماد نے کہا پہلے صرف بی بی سی، سی این این اور چند دیگر مغربی میڈیا چینلز کی اس خطے سے رپورٹنگ پر اجارہ داری تھی۔ ان کے پاس ایک بہت محدود ایجنڈا اور صرف ایک بیانیہ تھا، جو بنیادی طور پر اسرائیل پر مرکوز تھا۔ خبروں میں واضح طور پر فلسطینیوں کے خلاف تعصب نظر آتا تھا، ان کے خدشات کو کم یا بالکل نظر انداز کیا جاتا تھا اور فلسطینی آوازیں غیر موجود تھیں۔ عرب چینلز کی بات کی جائے تو ان کا مواد زیادہ تر ان کے رہنماؤں پر مرکوز تھا اور کچھ بھی نہیں۔
الجزیرہ کے ابتدائی ایجنڈوں میں سے ایک یہ تھا کہ وہ عام لوگوں کے ساتھ کھڑا ہو، نہ کہ صرف رہنماؤں کے ساتھ۔ ابتدا میں اس کی مقبولیت خبروں کے بلیٹن کی بجائے پروگرامز کی بنیاد پر تھی اور اکثر لوگ اس حقیقت سے واقف نہیں تھے لیکن جب اس نے خبروں پر توجہ مرکوز کرنے کا فیصلہ کیا، تو اس کا فوری اثر ہوا۔ پہلی بار عرب عوام ایک ہی بیانیے کی بجائے دو بیانیے سننے لگے۔ 2000کی دوسری انتفاضہ کے بعد الجزیرہ نے فلسطین کو سنجیدگی سے کور کرنا شروع کیا۔ اس کے باوجود ہم نے ہمیشہ یہ یقینی بنایا کہ اسرائیلی موقف بھی اسکرین پر موجود ہو۔ اس کے ساتھ ہی چینل کا عالمی اثر بڑھنے لگا۔ حالات نے الجزیرہ کو فلسطین پر توجہ مرکوز کرنے پر مجبور کیا اور فلسطینی مسئلے کو چینل نے خصوصی اہمیت دی، جس سے یہ فلسطین کے حوالے سے کوریج کا اہم پلیٹ فارم بن گیا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہماری کوریج نے خطے میں عوامی رائے کو تبدیل کیا ہے۔
لوگ اب اپنے رہنماؤں سے سوال کر رہے ہیں۔ جب مصر میں فوجی بغاوت ہو رہی تھی، ہم نے تمام مصریوں کی توجہ حاصل کی۔ یہ گویا ایک ساکت جھیل میں پتھر پھینکنے کے مترادف تھا۔ اب خطے کے ہر چینل پر بحث و مباحثے کے پروگرام نشر ہو رہے ہیں۔ ہم اپنی کوریج میں زیادہ سے زیادہ پیشہ ورانہ ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ حماد کا کہنا تھا کہ7 اکتوبر 2023 کو جو ہوا، اس کی کسی کو توقع نہیں تھی۔ ہمیں معلوم تھا کہ انفرادی مزاحمت کے حملے ہو سکتے ہیں، لیکن ہم نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا کہ یہ ایک منظم عسکری کارروائی ہوگی۔ ظاہر ہے زمین پر موجود ہونے کی وجہ سے، الجزیرہ اس حملے کے تمام پہلوؤں کو نشر کر سکا لیکن اس کی ہمیں بھاری قیمت چکانی پڑی۔ ہمارے چار صحافی براہ راست حملوں میں مارے گئے اور پانچ بالواسطہ طور پر شہید ہوئے۔ آج الجزیرہ کے ناظرین کی تعداد خطے کے دیگر چینلز، جیسے اسکائی، عربیہ اور سعودی ملکیت والے العربیہ کے ناظرین سے کہیں زیادہ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ نئی نسل آنکھ بند کر کے کچھ قبول نہیں کرتی، وہ حقائق کو جانچنے کے عادی ہو گئے ہیں۔ جب 7 اکتوبر کے حملوں کے فوری بعد اسرائیل نے بچوں کے سر قلم کرنے کے جھوٹے بیانیے کو پھیلایا، تو کئی نوجوانوں نے اسے جعلی سمجھا۔ میرا ماننا ہے کہ کملا ہیرس نے امریکی انتخابات اس نسل کی وجہ سے ہارے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ مستقبل ان میڈیا اداروں کے ساتھ ہے جو اپنی حد تک معتبر بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا اور ٹِک ٹاک جیسے اوزاروں کی وجہ سے، اب جھوٹ بولنا آسان نہیں رہا۔ کانفرنس کے اختتام پر شرکا نے یکجہتی کی اہمیت اور انسانی روح کی پائیداری پر زور دیا۔ یونیورسٹی آف ایکسیٹر کے اسرائیلی پروفیسر ایلان پاپے نے مغرب کی فلسطینی عوام پر جاری ظلم میں شمولیت کو اجاگر کیا۔ انہوں نے کہا کہ فلسطینی بیانیے کے تحفظ اور اس کے فروغ کی اہمیت کو کم نہیں سمجھا جا سکتا۔
ان کا کہنا تھا کہ فلسطینی بیانیے کی حفاظت اور اسے پھیلانا اب ازحد ضروری ہے۔ انہوں نے فلسطین کے مظالم پر مغربی دنیا کی مجرمانہ خاموشی اور ناقابل قبول بے حسی کی شدید مذمت کی۔ تواصل 4 میں شریک ہونے والوں کے لیے یہ کانفرنس محض ایک تقریب نہیں تھی بلکہ اتحاد کی طاقت اور تاریخ کے تحفظ میں میڈیا کے اہم کردار کی گواہی تھی۔ یہ فورم یاد دہانی تھی کہ انصاف اور سچائی کے لیے جدوجہد میں مستقل عزم اور یکجہتی کی ضرورت ہوتی ہے۔ جیسا کہ ایک مقرر نے خوبصورتی سے کہا کہ فلسطینی بیانیہ صرف ان کی کہانی نہیں ہے، یہ انصاف اور انسانیت کے لیے عالمی پکار ہے۔
