ہمارے جلسے’ قرآن وحدیث کی روشنی میں! (مولانا خالد سیف اللہ رحمانی)

(گزشتہ سے پیوستہ)
اِسی طرح الہام یعنی دل میں کسی بات کا آجانا حجت نہیں ہے جس کو دلیل بنا کر پیش کیا جائے۔ صرف نبی ہی کی ذات ایسی ہے کہ اس کا خواب بھی حجت ہے۔ اسی بنا پر حضرت ابراہیم علیہ الصلاة والسلام نے حضرت اسماعیل علیہ الصلاة والسلام کی قربانی کا فیصلہ کیا (الصافات: 102) اور اسلام میں اذان کے الفاظ مقرر ہوئے (سنن ابی داود) مگر انبیاء کرام کے خواب کے علاوہ کسی کا خواب نہ اس کے حق میں حجت ہے، نہ دوسروں کے۔ بہت سی دفعہ گمراہ لوگ خواب بیان کر کے لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں۔ اس لئے اپنے خواب یا اپنے شیخ کا خواب بیان کرنے سے بھی گریز کرنا چاہیے، شریعت میں اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔
٢۔ بعض مقررین کا خطاب لطائف کا مجموعہ ہوتا ہے، وہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر ہنسنے ہنسانے کی بات لاتے ہیں، نوجوان نصیحت حاصل کرنے سے زیادہ قہقہہ لگانے کے لئے ان کی مجلسوں کا رُخ کرتے ہیں، اور بعض دفعہ تو لطیفہ کے نام پر ”کثیفہ” یعنی گندی باتیں نقل کر جاتے ہیں، جس کو سنجیدہ اور غیرت مند لوگوں کو سننا بھی گراں گزرتا ہے اور جس کو کوئی باپ اپنے بیٹے کے ساتھ یا بیٹا اپنے باپ کے ساتھ سننا گوارہ نہیں کر سکتا، ایسی تقریروں کا کوئی اثر نہیں ہوتا، صرف ہنسنے ہنسانے میں بات ختم ہو جاتی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو جھوٹ بول کر لوگوں کو ہنسائے اس کے لئے ہلاکت ہے:
ویل للذی یحدث فیکذب لیضحک بہ القوم، ویل لہ ویل لہ (سنن ابی داؤد)
ایک موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: زیادہ ہنسنے سے بچو! کیوں کہ زیادہ ہنسنے سے دل مردہ ہو جاتاہے (سنن ترمذی، کتاب الزہد، عن ابی ہریرة، حدیث نمبر: 2305 )
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ڈھیر سارے خطبات ارشاد فرمائے ہیں؛ لیکن غالباََ کہیں کسی خطاب میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لطیفہ یا مزاح کی بات نقل نہیں فرمائی، اگر لطیفہ یا مزاح کے ذریعہ تقریر کو موثر بنانا قابل قبول عمل ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے خطاب میں لطائف بیان کئے ہوتے، ایک بڑے عرب عالم کے بقول: مزاح دعوت کا طریقہ نہیں، تفریح کا طریقہ ہے:
ولیست ھذہ بطریقة دعوة و انما طریقة ترویح
اس لئے اگر خطاب میں کہیں کوئی مختصر سا لطیفہ آجائے اور وہ تہذیب واخلاق کے دائرہ میں ہو تو اس کو نقل کرنے کی گنجائش ہو سکتی ہے؛ لیکن اس کو بیان کا بنیادی مضمون بنا لینا درست نہیں ہے۔
٣۔ آج کل ایک مزاج جلسوں میں شعر خوانی کا بھی ہوگیا ہے، اس کے لئے خوش آواز نوجوانوں کو دعوت دی جاتی ہے، کافی وقت اشعار سننے اور سنانے میں ضائع کیا جاتا ہے اور اب اس سے آگے بڑھ کر مقررین خود بھی اپنے خطابات میں اشعار کا ڈھیر لگا دیتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے خطبات میں اشعار نہیں پڑھے، علامہ عز الدین بن عبدالسلام نے لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جمعہ، عیدین یا دوسرے خطبوں میں کبھی اشعار نہیں پڑھے؛ بلکہ ہمیشہ آپ کے خطاب میں قرآنی آیات اور سلیس انداز پر نصیحت کی باتیں ہوتی تھیں: لم ینقل عن النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انہ القی اشعارا فی خطبہ (کالجمعة او العید او غیرھا) بل کان خطابہ یعتمد علی الوحی والبلاغة النبویة (فتاویٰ عز الدین عبدالسلام: 194)
البتہ چوں کہ جائز مضمون پر مشتمل اشعار کا کہنا، پڑھنا، سننا اور سنانا جائز ہے؛ اس لئے اگر موقع کی مناسبت سے ایک دو شعر کہیں پڑھ دیا جائے جو اچھے مضامین پر مشتمل ہوں تو اس کی گنجائش ہے؛ مگر وہ اشعار بھی عبرت آموز اور صالح مضامین پر مشتمل ہوں، اشعار پڑھنے کی کثرت نہ ہو، اور جو لوگ نعت پڑھتے ہیں، وہ بھی مضمون کے تقدس کا لحاظ رکھیں، آج کل بعض نعت خواں حضرات اس قدر کھینچ کر نعتیہ اشعار پڑھتے ہیں کہ ڈر لگتا ہے کہ کہیں ان کی سانس ہی نہ اُکھڑ جائے، اور بعض لوگ اپنی خوش الحانی کو موثر بنانے کے لئے فلمی گانوں کا طرز اختیار کر لیتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اہل عشق یعنی فاسق وفاجر لوگ جو عشقیہ مضامین گاتے ہیں، ان کا طرز اختیار کرنے سے بچو: ایاکم ولحن اھل الفسق (شعب الایمان، عن حذیفہ بن یمان، حدیث نمبر: 2406 ) اگر انسان کی اصلاح اور معروف کی دعوت کے لئے اشعار پڑھنا اور گانا مفید ہوتا تو قرآن مجید میں نثر کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ شعر بھی نازل فرماتے، مشہور بزرگ حضرت مولانا احمد رضا خاں بریلوی نے نعت خوانی کے بارے میں لکھا ہے:
”نعت سادہ، خوش الحانی کے ساتھ ہو، گانوں کے طرز پر نہ پڑھی جائے” (فتاویٰ رضویہ)
اسی طرح بعض دفعہ لوگ نعت پڑھنے کے لئے اسپیکر کا ECO بڑھا دیتے ہیں، جس سے گونج پیدا ہوتی ہے، الفاظ تکرار کے ساتھ ادا ہوتے ہیں، یہ بھی مناسب نہیں ہے اور قرآن مجید میں تو اس طریقہ کا استعمال شاید جائز بھی نہ ہو، مائک تو آواز کو دور تک پہنچانے کا ذریعہ ہے؛ لیکن اس میں خصوصی طور پر ECO بڑھانا لہوولعب میں شامل ہے، حضرت مولانا احمد رضا خاں فاضل بریلوی اپنے ایک فتویٰ میں فرماتے ہیں:
” نعت خوانی آلات لہوولعب اور افعال لغو مثلاََ مزامیر وغیرہ کے ساتھ نہ کی جائے” (فتاویٰ رضویہ)
جلسوں میں کثرت سے نعت خوانی جلسہ کے اصل مقصد کو ختم کر دیتی ہے، کسی اہم موضوع پر کوئی خطیب عمدہ، مدلل اور موثر خطاب کر دے اور پھر آپ کسی نعت خواں سے ایک نعت پڑھوا دیجئے تو خطاب کا سارا اثر ختم ہو جاتا ہے، اور سامعین کے دل ودماغ میں صرف نعت خواں کی نغمہ ریزی کا لحن ہی باقی رہ جاتا ہے، نیز اکثر جلسوں میں نعتیں بھی ایسی پڑھی جاتی ہیں، جو بہت زیادہ غلو اور مبالغہ پر مبنی اور اسلام کے تصور توحید کے بھی خلاف ہوتی ہیں، بعض دفعہ بے معنی بھی ہوتی ہیں اور بعض قطعات فنی اعتبار سے بھی بے وزن ہوتے ہے۔ پہلے اس طرح کے جلسوں کا رواج مشرقی یوپی، بہار، جھارکھنڈ اور بنگال میں تھا، دوسرے علاقے اس سے محفوظ تھے، اب ان علاقوں کے لوگ ملک کے دوسرے شہروں میں جہاں جہاں ہیں، وہاں بھی ایسے ہی نعت خوانوں کو دعوت دیتے ہیں، اور وعظ وپند سننے کی بجائے نغمے سننے کا ماحول بناتے ہیں۔ (جاری ہے)