مذاکرات کا باب بند کرنا مسائل کا حل نہیں

ملکی سیاست میں مذاکرات ہمیشہ ایک نازک اور پیچیدہ مرحلہ رہے ہیں۔ طویل عرصے کی سیاسی محاذ آرائی کے بعد اللہ اللہ کرکے حالیہ دنوں میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور حکومت کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا، جس سے امید پیدا ہو چلی تھی کہ ہمارے سیاسی زعما باہم مل بیٹھ کر اختلافی اور نزاعی مسائل کا حل ڈھونڈ نکالیں گے اور ملک کو سیاسی استحکام کے ماحول میں آگے بڑھنے کا موقع فراہم کریں گے، مگر فرنٹ اور بیک چینل پر کئی ادوار کے بعد اب اچانک پی ٹی آئی کی جانب سے بات چیت ختم کرنے کی اطلاع سامنے آگئی ہے۔ پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما اور اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے واضح طور پر اعلان کیا کہ ان کی جماعت نے مذاکراتی کمیٹی کو ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ان کے مطابق حکومت بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کرانے میں ناکام رہی اور نہ ہی 9 مئی کے واقعات پر کوئی تحقیقاتی کمیشن تشکیل دیا جا سکا۔ اس فیصلے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ملکی سیاست میں اتفاقِ رائے کی فضا ابھی تک قائم نہیں ہو سکی اور دونوں فریقین کے درمیان تا حال بداعتمادی کی خلیج موجود ہے۔
پی ٹی آئی کی جانب سے مذاکراتی عمل سے علیحدگی کا سبب ان کے چند بنیادی مطالبات کی عدم تکمیل بتایا جا رہا ہے، جن میں پارٹی رہنماؤں اور کارکنان کی رہائی، بانی پی ٹی آئی سے آزادانہ ملاقات اور 9 مئی کے واقعات پر تحقیقاتی کمیشن کا قیام جیسے مطالبات شامل تھے۔ پی ٹی آئی کا موقف ہے کہ جب ان کے بنیادی مطالبات ہی تسلیم نہیں کیے جا رہے تو مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس کے برعکس حکومت کا کہنا ہے کہ وہ مثبت مذاکراتی رویہ اپنانے کے لیے تیار تھی اور اس حوالے سے پی ٹی آئی کے مطالبات کا جواب بھی تیار تھا، تاہم اپوزیشن کی غیر موجودی کے باعث مذاکرات کے حوالے سے کوئی پیش رفت ممکن نہیں۔ پی ٹی آئی کا مذاکرات کے حوالے سے رویہ کچھ یوں تھا کہ وہ چاہتی تھی مذاکرات کے دوران ہی ایک ایک کرکے ان کے مطالبات بھی تسلیم ہوتے رہیں اور ان پر عمل درآمد بھی ہوتا رہے۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ پی ٹی آئی کھلے دل کے ساتھ بات چیت کا حصہ نہیں تھی، وہ مذاکرات کو محض دباؤ اور اپنے مطالبات منوانے کیلئے ہی بروئے کار لا رہی تھی، تاہم دوسری طرف حکومت کا رویہ بھی کسی حد تک قابل اصلاح تھا، حکومت کو کم از کم پی ٹی آئی کی مذاکراتی کمیٹی کو جیل میں بانی پی ٹی آئی عمران خان سے ملنے کی سہولت فراہم کرنی چاہیے تھی، اس عمل سے بلاضرورت انکار نے بھی مذاکرات کو نتیجہ خیز موڑ کی طرف جانے سے روکنے میں کردار ادا کیا۔
یہ صورتحال ظاہر کرتی ہے کہ دونوں ہی فریقین مذاکرات میں اس حد تک سنجیدہ نہیں تھے، جتنا قوم توقع کر رہی تھی اور یہ بات واضح ہے کہ جب تک خلوص اور سنجیدگی نہ ہو، نیتوں میں کھوٹ، مطلب برآری اور ایک دوسرے کو دبانے کا سیاسی جذبہ کارفرما ہو، بات چیت کی بیل کامیابی کے منڈھے نہیں چڑھ سکتی۔ سیاسی بات چیت ہمیشہ کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر آگے بڑھتی ہے اور جہاں مذاکرات سیاسی استحکام کی ایک قومی ضرورت ہوں، وہاں ہر فریق کو اپنے سیاسی اور گروہی مفادات کی قربانی دینا ناگزیر ہوتا ہے اور جب تک اس سطح کا خلوص موجود نہ ہو، مذاکرات کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکتے۔ بد قسمتی سے دونوں ہی فریق کسی بھی مرحلے میں مسائل کے حل کیلئے سنجیدہ دکھائی نہیں دیے، اگر ایک فریق کا مقصد بات چیت کے ذریعے دوسرے کو مصروف و مشغول رکھنا نظر آیا تو دوسرے فریق کے پیش نظر یہی ترجیح دکھائی دی کہ مذاکرات کو دباؤ کے ہتھیار کے طور پر استعمال کرکے فی الفور اپنی بات منوائی جائے۔ اس رویے کے ساتھ مذاکرات نہیں پنپ سکتے تھے اور یہ فطری بات تھی کہ کسی مرحلے میں جاکر دونوں فریق کسی بڑی رکاوٹ سے جا ٹکرائیں اور گاڑی وہیں رکی رہ جائے۔
مذاکرات کی ناکامی کے بعد پی ٹی آئی نے عوامی رابطہ مہم تیز کرنے کا عندیہ دیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں ایک بار سیاسی فضا میں شدید تناؤ اور ہلچل کی کیفیت پیدا ہوگی، جو مذاکرات کے جاری عمل کے دوران کسی حد تک پر سکون تھی۔ پی ٹی آئی اگر ایک بار پھر اسٹریٹ پالیٹکس کی طرف گئی تو یہ بات واضح ہے کہ اس کے ہاتھ ایک بار پھر کچھ نہیں آئے گا، مگر ملک و قوم کو اس کے شدید نقصانات بھگتنا پڑیں گے، مار دھاڑ اور احتجاج و مظاہروں کی سیاست کے مجموعی سیاسی فضا پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے، کیونکہ سیاسی بے یقینی پہلے ہی ملکی معیشت اور دیگر اہم امور پر منفی اثر ڈال رہی ہے اور ملک مزید سیاسی عدم استحکام کی طرف بڑھ جائے گا، جو کسی بھی فریق کے حق میں نہیں۔
دوسری طرف حکومت کی جانب سے مذاکراتی عمل کو برقرار رکھنے کے لیے کوششیں جاری رکھنے کا عندیہ دیا گیا ہے۔ اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے واضح کیا کہ مذاکراتی کمیٹی کو ختم نہیں کیا جا رہا، بلکہ پی ٹی آئی کے لیے دروازے بدستور کھلے رکھے جائیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار نے بھی مذاکرات کو جاری رکھنے کی خواہش ظاہر کی ہے، جو اچھی بات ہے مگر محض خواہش سے بات نہیں بنے گی، پی ٹی آئی کے جن مطالبات پر فوری طور پر عمل ممکن ہے، ان کو مان کر حکومت کو اپنی سنجیدگی دکھانا ہوگی اور پی ٹی آئی کو بھی مخصوص مطالبات کی تکمیل کی ضد چھوڑ کر مذاکرات کی میز پر واپس آنا ہوگا۔
فریقین کے درمیان مذاکرات کا آغاز پوری قوم کی کامیابی سمجھا جا رہا تھا، جس کا تقاضا یہی تھا کہ سیاسی رہنما قومی امنگوں اور قومی توقعات کو پیش نظر رکھ کر مسائل حل کرنے کی نیت سے سنجیدگی کے ساتھ آگے بڑھتے، اس کی بجائے جلد بازی اور مصروف رکھنے کی مفاداتی نفسیات کے نتیجے میں ڈور فی الحال کٹتی دکھائی دے رہی ہے، جو بہرحال افسوسناک امر ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ دونوں فریق لچک کا مظاہرہ کریں۔ سیاسی مسائل کا حل محض ضد اور سخت گیر موقف اپنانے سے ممکن نہیں ہوتا، اس کے لیے اعتماد سازی، نیک نیتی اور باہمی افہام و تفہیم ناگزیر ہیں۔موجودہ حالات میں یہ ضروری ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کے رہنما سیاسی مفادات سے بالاتر ہو کر ملکی استحکام اور عوام کی بہتری کے لیے کام کریں۔ اگر مذاکرات میں تعطل برقرار رہا اور فریقین نے ضد پر اصرار جاری رکھا، تو اس کا سب سے زیادہ نقصان عوام کو ہی ہوگا، جو پہلے ہی مہنگائی، بے روزگاری اور معاشی بحران کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ مذاکرات کا دروازہ بند کرنا کسی بھی فریق کے لیے فائدہ مند نہیں ہوگا، بلکہ یہ عدم استحکام کو مزید بڑھا سکتا ہے جس کا نقصان ملک و قوم کو ہوگا۔