اب انہیں ڈھونڈ چراغِ رخِ زیبا لے کر(محمد احمد اجمل)

پروفیسر حافظ عبدالرحمن مکی رحمہ اللہ کی زندگی جرات، بصیرت اور قربانی کی وہ داستان ہے جس نے نسلوں کو متاثر کیا۔ وہ ایک شخص نہیں، بلکہ ایک تحریک تھے، ایک عزم تھے، اور ان کا مشن ہر اس مقام پر جاری و ساری رہا جہاں حق کی پکار دبانے کی کوشش کی گئی۔ ان کی شخصیت علم، عمل، اخلاص، جرات، اور قربانی کی انمٹ تصویر تھی۔ وہ اپنے وقت کے ایسے رہنما تھے جن کا ہر لمحہ اسلام، امت مسلمہ، اور مظلوموں کی حمایت میں گزرا۔ ان کی وفات سے پیدا ہونے والا خلا شاید دہائیوں تک محسوس کیا جاتا رہے گا۔
پروفیسر حافظ عبد الرحمن مکی کا تعلق ایسے خانوادے سے تھا جو علم و عمل میں اپنی مثال آپ تھا۔ ان کے والد مولانا عبداللہ بہاولپوری رحمہ اللہ خود ایک عظیم عالم اور مربی تھے۔ پروفیسر حافظ عبدالرحمن مکی نے اپنے والد کی تربیت اور وراثت کو نہ صرف سنبھالا بلکہ اسے ایک نئی بلندی تک پہنچایا۔ سعودی عرب کی ام القری یونیورسٹی سے علم الحدیث میں پی ایچ ڈی مکمل کی اور تمام دنیاوی آسائشوں کو چھوڑ کر دعوت دین کیفریضیکے لیے کام کرنا پسند کیا۔ ان کی زندگی کا ہر لمحہ کتاب و سنت کی ترویج، دعوت و تبلیغ اور امت مسلمہ کے دفاع کے لیے وقف رہا۔ ان کی زندگی جدوجہد اور قربانی کا عملی نمونہ تھی۔ تحریک نظام مصطفی ۖ میں جب وقت کے فرعونوں نے اسلام کے علمبرداروں پر زمین تنگ کی تو پروفیسر حافظ عبدالرحمن مکی ان بہادر سپاہیوں میں شامل تھے جنہوں نے قید و بند کی صعوبتیں جھیلیں لیکن اپنے نظریے اور مشن سے ایک قدم بھی پیچھے نہ ہٹے۔ ان کی استقامت اور صبر آج کے نوجوانوں کے لیے مشعل راہ ہے۔ پروفیسر حافظ عبدالرحمن مکی کی خطابت کا چرچا ہر زبان پر تھا۔ وہ اردو، عربی اور انگریزی میں ایسی روانی اور مہارت رکھتے تھے کہ سننے والے ورطہ حیرت میں مبتلا ہو جاتے۔ ان کی تقریریں محض الفاظ کا مجموعہ نہیں تھیں بلکہ ان میں دلائل، تحقیق، اور حکمت کی روشنی ہوتی تھی۔ ان کے لہجے کی گونج سننے والوں کے دلوں میں جذبہ پیدا کر دیتی اور ان کی باتوں سے فکری انقلاب جنم لیتا۔ ایک ایسا مقرر جس کی بات میں جوش اور حکمت کا امتزاج ہو امت مسلمہ کے لیے نعمت سے کم نہیں تھا۔ ان کی خدمات خطابت اور تعلیم کے میدان تک محدود نہ تھیں۔ وہ ایک ایسے مجاہد تھے جو ہر اس محاذ پر موجود ہوتے جہاں اسلام یا امت مسلمہ کو خطرہ لاحق ہوتا۔ کشمیر اور فلسطین کے مظلوموں کی حمایت میں ان کی آواز ہمیشہ بلند رہی۔ حرمت رسول ۖ، ختم نبوت، اور حرمین شریفین کے دفاع کے لیے وہ ہمیشہ پیش پیش رہے۔ ان کا موقف ہمیشہ مضبوط اور غیر متزلزل ہوتا تھا۔ نظریہ پاکستان، قیام پاکستان اور اس کے اغراض و مقاصد کوپاکستانی قوم خصوصا طلبامیں اجاگر کرنے کے لیے ان کی تگ و دو اور کردار سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔
اسٹیج پہ بیباک، نڈر، کاٹ دار الفاظ، گرجدار آواز میں تقریر کرنے والے پروفیسر حافظ عبدالرحمن مکی کی طبیعت میں عاجزی اور محبت ان کی شخصیت کی سب سے منفرد خوبی تھی۔ ان کی شفقت اور محبت ہر شخص کو متاثر کرتی۔ ان کے چہرے کی مسکراہٹ، لہجے کی نرمی اور الفاظ کی سچائی ہمیشہ دلوں کو جیت لیتی۔ ان کا اخلاص ان کی سب سے بڑی طاقت تھی جس نے انہیں لاکھوں دلوں کا محبوب بنا دیا۔ اب جب وہ ہم میں نہیں رہے تو ان کی کمی کا احساس ہر دل میں ہے۔ ان کا جانا صرف ایک انسان کا دنیا سے رخصت ہونا نہیں بلکہ ایک پورے عہد کا خاتمہ ہے۔ ان کی وفات سے جو خلا پیدا ہوا ہے اسے پر کرنا شاید ممکن نہ ہو۔ ان کی زندگی کے ہر پہلو میں ہمارے لیے سبق موجود ہے کہ کس طرح اپنے مقصد کے لیے جینا ہے اور کس طرح اپنی آخری سانس تک اس مقصد کے لیے لڑنا ہے۔ پروفیسر حافظ عبدالرحمن مکی اللہ کے حضور پیش ہو چکے ہیں کلمہ شہادت کی گواہی کے ساتھ سبحان اللہ۔ ان کی وفات ایک مجاہد کی آخری منزل ہے۔ ان کی شخصیت ایک درخشاں ستارہ تھی جو اپنی روشنی سے دنیا کو منور کرتا رہا اور اب وہ روشنی ایک کہکشاں کا حصہ بن گئی۔ ان کی وفات سے امت مسلمہ ایک عظیم رہنما سے محروم ہو گئی ہے لیکن ان کی یادیں، ان کی تعلیمات، ان کے خطابات اور ان کا مشن ہمیشہ زندہ رہے گا۔ اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے، ان کی خدمات کو قبول کرے اور ہمیں ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین