گزشتہ 15 ماہ سے جاری اسرائیلی جارحیت کے دوران اپنے گھروں سے بے دخل کیے گئے فلسطینی علاقوں کو لوٹناشروع ہوگئے ہیں جو فلسطینی تاریخ میں ایک اہم سنگ میل ہے۔ 1948 میں اسرائیل کے قیام کے لیے فلسطینیوں کو بڑے پیمانے پر ان کے علاقوں سے بے دخل کیا گیا تھا جسے ‘نکبہ’ کہا جاتا ہے۔عرب میڈیا کے مطابق نکبہ کے بعد پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ بے دخل کیے گئے فلسطینی اپنے علاقوں کو واپس لوٹے ہیں۔شمالی غزہ کا بیشتر حصہ جنگ کے بعد مکمل تباہ شدہ علاقہ ہے جہاں تقریباً 80 فیصد عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن چکی ہیں۔ ان حالات میں تباہ شدہ علاقوں میں فلسطنیوں کی واپسی ہو رہی ہے، یہاں ان افراد کی رہائش کے لیے خیمے بھی لگائے گئے ہیں۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق 15 ماہ جاری رہنے والی اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں غزہ میں تقریباً 19 لاکھ افراد اپنے گھروں سے بے دخل ہوئے جو غزہ کی آبادی کا 90 فیصد بنتا ہے۔عرب میڈیا کے مطابق ان میں سے 6 لاکھ سے زائد افراد کا تعلق شمالی غزہ سے ہے جو اب اپنے علاقوں کو واپس جائیں گے۔
عالمی ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا میں چلنے والی ویڈیوز اور تصاویر سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ غزہ کے عوام بے پناہ قربانیاں دینے،اپنے عزیزوں کو کھودینے اور اپنے گھر بار سے محروم کردیے جانے کے باوجود 15ماہ بعد شمالی غزہ میں واپسی پر کس قدر پر جوش،حوصلہ مند اور فتح و کامیابی کے احساسات سے سرشار ہیں۔ بلاشبہہ یہ تاریخ کا ایک انوکھا اور سنہرا باب ہے کہ انسانی تاریخ کے مہلک ترین روایتی ہتھیاروں ،تباہ کن بموں اور آتش بار میزائلوں کے ذریعے غزہ کی چند سو کلومیٹر اراضی پر شب و روز چاند ماری کرنے، وہاں کے ایک ایک گھر کو نشانہ بنانے اور کم از کم پچاس ہزارجیتے جاگتے انسانوں کو خاک و خون میں تڑپانے والی قوت اپنی شکست و ہزیمت کے احساس سے شرم سار ہے،وہاں کا سب سے بڑبولا اور خونخوار وزیر یہ دہائیاں دیتا پھر رہا ہے کہ یہ ہماری فتح نہیں بلکہ شکست ہے۔چنانچہ میڈیا رپورٹوں کے مطابق اسرائیل کے مستعفی وزیر بین گویر نے جنگ بندی معاہدے پر عمل درآمد کو مسترد کرتے ہوئے غزہ کے مکمل طور پر تباہ ہونے تک جنگ جاری رکھنے کا مطالبہ کیا ہے۔ بین گویر نے شمالی غزہ میں فلسطینیوں کی واپسی کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ اس جنگ بندی معاہدے کا ایک اور ذلت آمیز حصہ ہے۔ انتہاپسند یہودی رہنما کے مطابق اسرائیل کے ”بہادر سپاہیوں” نے فلسطینیوں کی اپنے گھروں میں واپسی کے لیے جنگ نہیں کی تھی، فوجیوں نے اپنی جانیں جنگ جیتنے کے لیے دی تھیں۔ ادھر صہیونی بھیڑیا نیتن یاہو اس صورت حال پر پیچ و تاب کھا رہا ہے اور غزہ میں اپنی ہزیمت کا غصہ جنین اور طولکرم میں بے گناہ فلسطینیوں پر ظلم کرکے اتارنے کی کوشش کررہا ہے۔ خود اسرائیلی میڈیا یہ انکشاف کر رہا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جنگ بندی معاہدے کے موقع پر غزہ سے فلسطینیوں کے انخلا کا بیان نیتن یاہو کی خواہش پر اس لیے دیا ہے تاکہ معاہدے کی نتیجے میں اسرائیل کی شکست کے تاثر پر پردہ ڈالا جاسکے۔
جبکہ دوسری جانب وہ فلسطینی باشندے جن کو سوا سال کے عرصے میں قیامت خیز آزمائشوں سے گزرنا پڑا، اپنی سرزمین پر سر اٹھاکر جینے کے عزم پر قائم ہیں اور بدترین مظالم کا سامنا کرنے کے باوجود ان کے پائے استقلال میں کوئی لغزش نہیں آئی۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ غزہ کے عوام اپنی بقاء اور آزادی کی جنگ کا ایک فیصلہ کن سنگ میل عبور کرچکے ہیں اور اب دنیا کی کوئی طاقت انہیں آزادی کی منزل کے حصول سے نہیں روک سکتی۔ امریکی صدر کی جانب سے اسرائیل کو دو ہزار پونڈ وزنی بموں کی ترسیل کی بحالی اور غزہ سے فلسطینیوں کو نکالنے کی باتیں اب لڑائی کے بعد مارے جانے والے ہوائی مکے ہیں۔ غزہ سے فلسطینیوں کے انخلا کا منصوبہ تونیا نہیں ہے،حالیہ جنگ کے دوران غزہ کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے” جرنیلی منصوبے” کا اصل مقصد بھی یہی تھا کہ غزہ کو فلسطینیوں کے لیے ناقابل رہائش بنادیا جائے مگر فلسطینی عوام جس والہانہ جو ش و جذبے کے ساتھ اپنے ملبے کے ڈھیر بنے گھروں کی طرف لوٹے ہیں اور اپنا سب کچھ لٹ جانے کے باوجود جس ہمت و حوصلے کے ساتھ غزہ کو دوبارہ آباد کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے، اس کے بعد اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اہل غزہ کو رضا کارانہ انخلا پر آمادہ کیا جاسکے گا تو یہ اس کی بھول ہوگی۔ غزہ سے فلسطینیوں کو نکالنے کا اگر کوئی خیال یا تصور کسی کے ذہن میں تھا بھی تو وہ اب ناقابل عمل ہوچکا ہے۔ چنانچہ اردن اور مصر کے بعد اب عرب لیگ نے بھی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا غزہ سے فلسطینیوں کی بے دخلی کا منصوبہ مسترد کردیا ہے۔ عرب دنیا کی نمائندگی کرنے والی 22 رکنی تنظیم کے سیکرٹری جنرل احمد ابوالغیث نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ‘ عرب لیگ ٹرمپ کے فلسطینیوں کی مجوزہ بے دخلی کے منصوبے کے خلاف مصر اور اردن کے موقف کی مضبوطی اور اصولی حمایت میں کھڑی ہے ‘۔ وفا نیوز ایجنسی کے مطابق احمد ابوالغیث نے کہا کہ عربوں کا موقف فلسطینیوں کے بارے میں ‘ غیر متزلزل ‘ ہے چاہے وہ مقبوضہ مغربی کنارے میں ہوں یا غزہ میں ہوں۔ عرب دنیا سے باہر سے بھی غزہ سے فلسطینیوں کے انخلا کی احمقانہ تجویز کے خلاف آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ اسپین کے وزیر خارجہ نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے غزہ کو ”خالی” کرنے اور اس کی آبادی کو مصر اور اردن منتقل کرنے کی تجویز کو مسترد کر دیا ہے۔
اس لیے یہ بات اب نوشتۂ دیوار ہے کہ اب غزہ سے فلسطینیوں کے انخلا کا تصور بھی محال ہے۔ فلسطین کے مسئلے کا حل صرف اور صرف انصاف کے ذریعے ہی ممکن ہے اور انصاف یہ ہے کہ فلسطین بحر سے لے کر نہر تک فلسطینیوں کا ہی ہے۔ اگر اقوام متحدہ کے اصولوں، قرار دادوں اور بین الاقوامی قوانین کی روشنی میں بھی دیکھ لیا جائے تو اسرائیل پر 1997ء کی عرب اسرائیل جنگ سے پہلے کی حدود پر واپس جانا لازم ہے اور اس نے اس جنگ کے بعد جتنی فلسطینی اراضی پر قبضہ کیا ہے،اسے واگزار کرانا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ذمہ داری ہے۔ موجودہ جنگ کے تناظر میں بین الاقوامی فوجداری عدالت اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو اور ان کی جنگی کابینہ کو جنگی جرائم کے جرم میں سزا سناکر ان کے بین الاقوامی وارنٹ جاری کرچکی ہے۔ اگر دنیا میں قانون اور انصاف نام کی کوئی شے موجود ہے تو اس فیصلے پر بھی عمل درآمد ہونا چاہیے اور مسئلہ فلسطین سے متعلق اقوام متحدہ کی قرار دادوں پر عمل ہونا چاہیے۔
