شطرنج اور تاش دو کھیل ہیں، تاش کے 52پتے ہوتے ہیں اور شطرنج کے 64خانے۔ سیاست تاش اور شطرنج کا ملاپ ہے۔ تاش کے کھیل برج میں ایک پتا جو پھینکنے والے کھلاڑی کو جیت دلا دیتا ہے ٹرمپ کارڈ کہلاتا ہے۔ ٹرمپ ہر بھیس میں”ٹرمپ” ہی ہیں۔ تاش کے کھلاڑی جانتے ہیں کہ جس کھلاڑی کے پاس ٹرمپ کارڈ ہو، ایک موقع پر آکر بادشاہ کو مات دے دیتا ہے۔ ٹرمپ کارڈ کی تمام خوبیاں امریکا کے نومنتخب صدر میں پائی جاتی ہیں۔
اک پل میں ہم جو چاہیں رکھ دیں بساط الٹ کر
شہ زد پہ آ چکا ہے، اپنا پیادہ رکھیے
ابھی شطرنج ہے جاری، ذرا الٹے تو بساط
دیکھنا کون ہے شہ، کون پیادہ ہے میاں
ٹرمپ جو داؤ پیچ کھیل کر پارٹی کے صدارتی امیدوار نامزد ہوئے، اس کے وہ خود موجد ہیں۔ ٹرمپ نے ذہانت اور دانش کی بجائے انتخابی مہم میں زیادہ تر لن ترانیاں مار کر عام امریکیوں کو متاثر اور دانش کو حماقت سے چت کیا۔ کمیلا ہیرس کی تمام محنت رائیگاں گئی۔ زبان حال سے وہ یہ کہتی پائی گئیں
عجیب کھیل ہے دنیا تری سیاست کا
میں پیدلوں سے ”پٹی” ہوں وزیر ہوتے ہوئے
ٹرمپ ریسلر رہ چکے ہیں اور اپنے ایک حریف کے سر کے بال بھی مونڈ چکے ہیں۔ صدارتی مقابلوں میں ہیلری اور کمیلا ہیرس خوش نصیب رہیں کہ خاتون ہونے کی وجہ سے اپنے بال بچا گئیں ورنہ ٹرمپ سے کیا بعید تھا؟
ٹرمپ کی خوبیوں اور خامیوں پر بہت کچھ کہا جا سکتا ہے لیکن ان کی ایک خصوصیت کا سبھی اعتراف کریں گے، وہ یہ کہ ٹرمپ ایسےUnpredictable ہیں جن کے متعلق یقین سے کچھ بھی کہنا محال ہے، عین ممکن ہے جس کو پیار سے اپنے پہلو میں بٹھائیں، اگلے دن اس کے خلاف زہر اگل رہے ہوں
کبھی یہ حال کہ دونوں میں یک دلی تھی بہت
کبھی یہ مرحلہ جیسے کہ آشنائی نہ تھی
من چاہے تو شمالی کوریا پہنچ کر ناپسندیدہ ترین صدر سے محبت کی پینگیں بڑھائیں، اپنے دوست مودی سے نظریں چرا لیں اور جس چین کے خلاف دن رات ہرزہ سرائی کرتے ہیں، اسی کے صدر کو دعوت دے ڈالیں۔ اسٹیبلشمنٹ اور میڈیا کی مخالفتوں کے باوجود آن بان سے کامیاب ہوئے بلکہ کئی ریکارڈز قائم کر ڈالے، گریٹ امریکا اور امریکا فرسٹ کا نعرہ لگا کر وہ وائٹ ہاؤس میں داخل ہوئے
فیض تھی راہ سر بسر منزل
ہم جہاں پہنچے کامیاب آئے
ٹرمپ نے اپنی عمر کی مناسبت سے 78 ایگزیکٹو آرڈرز جاری کیے۔ ان کا متعارف کردہ ایجنڈا 471ایسی پالیسیوں پر مشتمل ہے جن کا مقصد امریکی حکومت اور گرتے ہوئے معاشی اور معاشرتی نظام میں تبدیلیاں لانا ہے، اس ایجنڈے کے خاص نکات یہ ہیں:
امریکا میں آج سے سنہرے دور کا آغاز ہو رہا ہے۔ 20 جنوری 2025 آزادی کا دن ہے۔ ایکسٹرنل ریونیو سروس کے نام سے نئے نظام، کے تحت درآمدات پر نئے محصولات کا نفاذ۔ جنوبی سرحد (میکسیکو) پر ایمرجنسی کا نفاذ۔ ڈرل بے بی ڈرل نعرے کو عملی جامہ پہنانے اور امریکی معیشت کی مضبوطی کے لیے توانائی کی پیداوار بڑھانا۔ امریکی فوج کو طاقتور ترین بنانے کے لیے بجٹ میں اضافہ۔ امریکی خلائی مشن کے تحت مریخ پر امریکی پرچم لہرانے کا اعلان۔
پیرس ماحولیاتی معاہدے سے دستبرداری۔ امریکا میں آزادی اظہار رائے کیلئے ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط۔
سیاسی پناہ اور پیدائشی حق شہریت روکنا مؤخر الذکر پر عدالتی حکم امتناع جاری ہو چکا، الیکٹرک گاڑیوں کے لیے حکومتی مراعات کا خاتمہ۔ پاناما کینال کا کنٹرول حاصل کرنے کی تجویز۔ گرین لینڈ جزیرہ کا حصول۔ مرد اور عورت دو جینڈر ہیں تیسری کوئی جنس نہیں۔ نفرت سکھانے والے تعلیمی نظام سے چھٹکارا۔ طالبان سے جیٹ جہازوں سمیت امریکی چھوڑا ہوا سات ارب ڈالر مالیت جدید اسلحہ کی واپسی۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن WHO سے علیحدگی۔ خلیج میکسیکو کا نام خلیج امریکا ہوگا۔ امریکا میں رڈیکل اور کرپٹ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ایکشن کا عندیہ۔ منشیات کا کاروبار کرنے والے میکسیکو کے تمام گروہ دہشت گرد قرار دینے کا فیصلہ۔ کینیڈا اور چین کی برآمدی اشیاء پر بھاری ٹیکس کا اعلان، کیپیٹل ہل پر حملہ آوروں کی رہائی کا حکم، امریکی صنعتوں کے تحفظ کے لیے غیر ملکی اشیاء پر اضافی ٹیکس کی پالیسی۔
صدر ٹرمپ کی تقرریاں خاصی متنازع ہیں۔ پنٹاگون کی سربراہی کے لیے پیٹ ہاسٹ(Pete Hegseth) کی نامزدگی جن پر بے پناہ شراب پینے اور کئی جنسی اسکینڈل میں ملوث ہونے کے الزامات ہیں۔ سابق امریکی صدر بائیڈن نے اپنے الوداعی خطاب میں کہا کہ امریکا میں ( Oligarchy چند مخصوص افراد پر مشتمل آمرانہ حکومت) قائم ہونے جا رہی ہے۔ اس طرزِ حکومت کے نقصانات کا اندازہ لگانا ضروری ہے۔
دیکھا جائے تو ٹرمپ سرمایہ دارانہ جمہوریت کا اعلی ترین شاہکار ہیں۔ درمیانے اور نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والے امریکی بھی کرپشن، ٹیکسوں اور مہنگائی کی بات کرتے ہیں، واشنگٹن اور نیویارک جیسے بڑے شہروں میں سڑکوں پر بھکاری دیکھے جا سکتے ہیں۔ ٹرمپ ایک خالص کاروباری شخصیت ہیں۔ وہ جمی کارٹر نہیں کہ مونگ پھلیوں کے چند دانوں پر قناعت کر کے بیٹھ جائیں۔ ایک بڑے اور کامیاب کاروباری کے طور پر وہ دوستیاں خریدنے کا مزاج رکھتے ہیں۔ ان کی اتحادیوں یا نیم اتحادیوں کے لیے تاجرانہ ذہنیت ہونا ایک فطری عمل ہے۔
ٹرمپ کے ہوتے ہوئے امریکا کس روپ میں دنیا کے سامنے ہوگا، اس کے متعلق سابق امریکی سفیر اور ‘اٹلانٹک کونسل تھنک ٹینک’ کے رکن ڈینیل فرائیڈ کہتے ہیں: ”امریکا اس صدی کے استعمار کے طور پر سامنے آئے گا۔ گرین لینڈ پر قبضے سے نیٹو برباد ہو جائے گا۔ ہمارے اور روس کے صدر ولادی میر پیوٹن کے درمیان کچھ فرق نہیں رہے گا۔” عالمی سیاست میں عجلت لے ڈوبتی ہے، اس لیے ٹرمپ کو اپنی افتاد طبع کے برعکس شطرنج کی بساط کی طرح:
ہوشیاری سے سمجھ کر چال چلنا چاہیے
کارِ دنیا بھی ظفر شطرنج کا سا کھیل ہے
ٹرمپ ایوان صدر میں واپسی پر یہ سمجھتے ہیں کہ کامیابی کے نئے دور کا آغاز ہو چکا۔ امریکا کے پاس پوری دنیا میں فائدہ اٹھانے کے ایسے مواقع پہلے نہیں تھے جبکہ ماہر معیشت جو بروسیلا کا کہنا ہے ٹرمپ کے دور میں تجارتی جنگ ہوگی، جس کے نتیجے میں ملازمتیں ختم اور لوگ اپنے گھر کھو دیں گے۔
ٹرمپ نے حماس، اسرائیل جنگ بندی کا کریڈٹ لیا لیکن خود ہی اس کے غبارے سے ہوا نکال دی کہ مجھے یقین نہیں کہ یہ معاہدہ برقرار رہے گا۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ اسرائیل یرغمالیوں کی رہائی کے بعد اپنی فورسز دوبارہ غزہ میں داخل کر دے گا۔
روس اور یوکرین کی لڑائی کو دو سال گزر چکے ہیں۔ امریکا، برطانیہ اور جرمنی یوکرین کی مکمل فوجی مدد کر رہے ہیں۔ امریکی کانگریس نے گزشتہ اپریل میں یوکرین کے لیے 61بلین ڈالر کی منظوری دی تھی۔ آغاز جنگ کے بعد امریکا ہر ماہ اوسطاً 1.14 بلین ڈالر یوکرین کو فراہم کر رہا ہے۔ دیکھیں ٹرمپ کا جنگیں نہ کرنے کا فارمولا یہاں کب بروئے کار آتا ہے؟ میکسیکو کے خلاف ایکشن اسے کساد بازاری کی جانب دھکیل سکتا ہے جبکہ امریکی صارفین کو گاڑیوں، پٹرول اور دیگر درآمدی اشیاء کے بڑھتے ہوئے دام برداشت کرنا پڑ سکتے ہیں۔ اگر کینیڈا اور میکسیکو پر ٹیرف عائد ہوا تو امریکی صارفین کے لیے گاڑیوں کی قیمت میں اوسطاً 3000ڈالر اضافہ ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ کینیڈا سے درآمدی تیل پر ٹیرف سے پٹرول کی قیمت 20 سے 50 سینٹ فی گیلن بڑھ سکتی ہے۔
