صرف آٹھ ماہ زندہ رہنے والا القادر یونیورسٹی ٹرسٹ(عرفان صدیقی)

190 ملین پائونڈ کے عدالتی فیصلے میں القادر یونیورسٹی پروجیکٹ ٹرسٹ کو جعلی (SHAM) ٹرسٹ قرار دیاگیا ہے جو بحریہ ٹائون کے مالک ملک ریاض حسین سے، 170 ملین ڈالر کے عوض زمین، نقد رقوم اور متعدد دیگر مفادات بٹورنے کی خاطر پر فریب چھتری کے طورپر قائم کیا گیا۔
میں نے القادرٹرسٹ کے حوالے سے تحقیق وجستجو کی تو ”صاف چلی شفاف چلی” کی قبائے تقدیس تار تار ہوتی گئی اور اس کے صادق وامین سربراہ کے سر پہ سجی دستارِ صداقت وامانت کے پیچ کھلتے چلے گئے۔ عدالتیں اپنی جگہ، ہمارا نظامِ انصاف اپنی جگہ، سیاست اپنی جگہ، نفرتیں اور محبتیں اپنی جگہ، تعصب میں لت پت تجزیے اپنی جگہ، جھوٹ کے انبار اور گالیوں کے طومار اپنی جگہ، اٹل اور دوٹوک حقیقت یہ ہے کہ القادر یونیورسٹی ٹرسٹ یا 190 ملین پائونڈ کیس ہماری 78 سالہ تاریخ میں کرپشن کی سب سے بڑی واردات ہے جس نے وزیراعظم ہائوس میں جنم لیا اور وزیراعظم کی قیادت میں بدعنوان رفقا کی معاونت سے پروان چڑھی۔ میں بدعنوانی اور عہدے کے انتہائی متعفن استعمال کی اس پر تحیر داستان کو ایک طرف رکھتے ہوئے، اپنی بات القادر یونیورسٹی ٹرسٹ تک محدود رکھنا چاہتا ہوں۔
2018 میں جب برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی نے بحریہ ٹائون کے کچھ مشکوک کھاتوں پر کام شروع کیا تو وزیراعظم عمران خان کے رفیق خاص اور اثاثہ جات بازیابی یونٹ کے سربراہ شہزاداکبر کی رال ٹپکی۔ انہیں ایک بڑے شکار کی بو آئی۔ انہوں نے وزیراعظم کو اعتماد میں لیکر لندن کے متعدد دورے کیے۔ ملک ریاض حسین سے ملاقاتیں کیں۔ مفاہمت کی یادداشت (MoU) مرتب ہوگئی۔ صداقت وامانت کا بابِ فضیلت کھل گیا۔ملک صاحب کو 171 ملین پائونڈز دینے کی پختہ ضمانت کے بعد زرِرشوت (Kickback)کی وصولی کا عمل شروع ہوگیا۔ کابینہ سے لفافہ بند منظوری سے مہینوں قبل، اپریل 2019میں سوہاوہ ضلع جہلم میں 458کنال 4 مرلہ، 58مربع فٹ زمین، عمران خان کے رفیق خاص زلفی بخاری کے نام کر دی گئی۔ اس کی کاغذی قیمت 6کروڑ 60 لاکھ، 50 ہزار بتائی گئی۔ اگلے ہی ماہ، 5 مئی کو عمران خان نے، اس زمین پر القادر یونیورسٹی کا سنگِ بنیاد رکھ دیا۔ صوفی ازم کی تبلیغ وترویج کیلئے اسے شیخ عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کے نام سے منسوب کر دیا گیا۔ اس وقت تک القادر ٹرسٹ کا کوئی وجود نہیں تھا۔ زمین پر قبضہ مستحکم کرنے کے کم وبیش سات ماہ بعد دنیا کی پارلیمانی تاریخ کا عجیب وغریب وقوعہ رونما ہوا جب وزیراعظم اور شہزاد اکبر کے اصرار پر کابینہ نے ایک لفافہ بند ایجنڈے کی منظوری دے دی۔ یوں کرپشن کی اس مفاہمتی یادداشت کو قانونی جامہ پہنا دیاگیا جو مہینوں قبل طے پا چکی تھی اور جس پر عمل درآمد بھی شروع ہوچکا تھا۔
زرِ رشوت کے ایک بڑے حصے کی وصولی اور قانونی تقاضے پورے کرنے کے بعد، 26دسمبر 2019کو، سب رجسٹرار آفس اسلام آباد، میں القادر یونیورسٹی ٹرسٹ رجسٹر کرا دیا گیا۔ عمران خان، بشری خان، زلفی بخاری اور بابر اعوان ٹرسٹی قرار دیے گئے۔ عمران خان نے جو ٹرسٹ کے چیئرمین بھی تھے ٹرسٹ کو پچاس ہزار روپے کا عطیہ دیا جبکہ بحریہ ٹائون نے 28 کروڑ 50لاکھ روپے کا نقد عطیہ ٹرسٹ کے کھاتے میں جمع کرا دیا۔ اس سوال کا بھی کوئی تسلی بخش جواب نہیں مل رہا کہ جب زمین پنجاب میں تھی، یونیورسٹی پنجاب میں بن رہی تھی تو ٹرسٹ اسلام آباد میں کیوں رجسٹر کرایا گیا؟ تاہم جب زرِ رشوت پر ٹرسٹ کی سبز چھتری تن گئی اور کاروبار چل نکلا تو چار ماہ بعد 25اپریل 2020کو ٹرسٹ ڈیڈ میں ترمیم کرتے ہوئے زلفی بخاری اور بابر اعوان کو ٹرسٹیز کی فہرست سے نکال دیا گیا۔ یوں القادر ٹرسٹ میاں بیوی کے حجلہِ عروسی کی زینت بن گیا۔ ایک اور ترمیم کے ذریعے عمران خان نے اپنے اختیارات میں وسعت کیلئے خود کو ٹرسٹ کا Founder اور Settlor بھی قرار دے دیا۔
زرِ رشوت کی برکھا برستی رہی۔ جولائی 2020 میں علی ریاض ملک نے بنی گالہ اسلام آباد میں واقع 240 کنال 6 مرلہ زمین، بشری بی بی کی معتمدِ خاص، فرحت شہزادی (فرح گوگی) کے نام منتقل کر دی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ القادر ٹرسٹ کے ہوتے ہوئے یہ انتہائی مہنگی زمین ٹرسٹ کو عطیہ کرنے کی بجائے فرحت شہزادی کو کیوں دے دی گئی؟ 26اگست 2020کو ایک اور واردات یہ ہوئی کہ یکایک بظاہر کسی معقول وجہ کے بغیر 1882کے ٹرسٹ ایکٹ کو اسلام آباد کی حد تک منسوخ کرتے ہوئے اسلام آباد ٹرسٹ ایکٹ 2020جاری کردیاگیا۔ نئے قانون کی شق 113 میں کہا گیا کہ اسلام آباد میں رجسٹرڈ ٹرسٹ، چھ ماہ کے اندر اندر خود کو نئے قانون کے تحت رجسٹر کرا لیں ورنہ ان کی رجسٹریشن معطل ہو جائے گی اور وہ غیرفعال ٹھہریں گے۔ اب جگر تھام کر، پراسراریت میں لپٹی اس واردات پر نگاہ ڈالیے کہ القادر یونیورسٹی ٹرسٹ کو اس نئے قانون کے تحت رجسٹر نہیں کرایا گیا۔ معطل اور غیرفعال ہو جانے کے بعد ٹرسٹ عملی طورپر تحلیل ہوگیا لیکن گلشن کا کاروبار بدستور چلتا رہا۔ ٹرسٹ غیرفعال ہوجانے کے سات ماہ بعد، 24 مارچ 2021کو بنی گالہ وزیراعظم ہائوس میں بحریہ ٹائون اور بشری بی بی کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا جس کے تحت القادر یونیورسٹی اور ہاسٹلز کی تعمیر، فرنیچر، کمپیوٹرز سمیت ہر نوع کے سازوسامان کی فراہمی حتی کہ اخراجات جاریہ کی ذمہ داری بھی بحریہ ٹائون کی ٹھہری۔ اس معاہدے کا اطلاق مارچ 2019سے کیا گیا تاکہ ماضی کی ترسیلاتِ زرِ رشوت کو چھتری مل جائے۔ یاد رہے کہ اس معاہدے کے وقت القادر ٹرسٹ کا کوئی وجود نہیں تھا۔
اپریل 2022میں عمران خان کی حکومت چلی گئی۔ 2023کے اوائل میں نیب نے 190 ملین پائونڈ اور القادر ٹرسٹ کے معاملات کا جائزہ لینا شروع کیا تو بنی گالہ ہائوس میں خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگیں۔ فوری طورپر ٹرسٹ کو ازسرِ نو رجسٹر کرانے کیلئے 3مارچ 2023کو لیبر اینڈ ٹرسٹیز ڈائریکٹوریٹ اور 6 اپریل کو اسلام آباد چیریٹی ایکٹ کے تحت رجسٹریشن کی درخواستیں دائر کی گئیں لیکن نیب کی منفی رپورٹ کے باعث رجسٹریشن نہ ہوسکی۔ اب معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہے۔ کیا عجب کہانی ہے،اپنی رجسٹریشن 26دسمبر2019 سے لیکر غیرفعال ہونے 26 اگست 2020 تک، القادر یونیورسٹی ٹرسٹ، صرف آٹھ ماہ زندہ اور فعال رہا جبکہ زرِ رشوت کی وصولی کا عمل اپریل 2019سے شروع ہوا اور برسوں جاری رہا۔ یونیورسٹی کی تعمیر پر 28کروڑ چالیس لاکھ روپے جبکہ فرنیچر اور دیگر سازوسامان پر 51لاکھ 49ہزار روپے خرچ ہوچکے ہیں۔ کمپیوٹرز اور لیپ ٹاپس کی خریداری پر ساڑھے چھ لاکھ روپے لاگت آئی۔ یہ سب کچھ بحریہ ٹائون کے خوانِ نعمت سے آیا۔ زمین، تعمیرات اورٹرسٹ کے کھاتے میں پڑی رقوم سمیت تمام اثاثے اس وقت عمران خان اور بشری بی بی کے ذاتی تصرف میں ہیں، کیونکہ القادر یونیورسٹی نامی ٹرسٹ کو معطل، غیرفعال اور معدوم ہوئے ساڑھے چار سال ہوچلے ہیں۔
یہ داستانِ ندامت پڑھنے کے بعد پی ٹی آئی کے اس معصومانہ سوال پر بھی سر دھنیے کہ 171ملین پائونڈ (تقریباً 50 ارب روپے) ملک ریاض کو تو مل گئے، لیکن عمران خان کو کیا ملا؟ اسے تو ایک پیسے کا فائدہ بھی نہیں ہوا؟!