سر اگر سر ہے تو نیزوں سے شکایت کیسی (عبد المنعم فائز)

چشم فلک نے ایسا نظارہ تو پہلی بار ہی دیکھا ہے کہ ایک طرف ایٹمی قوتیں جمع ہوں، ان کے پاس پاتال کی گہرائیوں تک دیکھنے، آسمان کی پہنائیاں ناپنے اور زمین کا چپہ چپہ کھوجنے کے آلات ہوں، مگر پھر بھی وہ ناکام رہیں۔
دوسری طرف غلیلوں، پتھروں، چند بندوقوں اور دیسی ساختہ بموں کو اٹھائے خدا کے سرمست دیوانے ہوں اور جان ہتھیلی پر لیے توپوں، ٹینکوں، اسنائپر گنوں اور ڈرون طیاروں کے سامنے ڈٹے مستانے ہوں اور پھر فتح یاب بھی ہوجائیں۔ غزہ کی سرزمین پر اکیسویں صدی کا یہ معجزہ طلوع ہوچکا ہے، تاریخ کے اوراق پر نقش کی جانے والی انمول داستان، سونے سے لکھنے کے قابل انمٹ کارنامہ اور جنگوں کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ۔
کوئی تصور کرسکتا ہے کہ صرف 41کلو میٹر لمبا اور 12کلو میٹر سے بھی کم چوڑائی رکھنے والا زمین کا ایسا ٹکڑا جسے چاروں طرف سے دشمن سے گھیرے میں لے رکھا ہو، جہاں زمین، آسمان اور سمندر سے آنے والی ہر ہر چیز پر دشمن نے کیمرے لگارکھے ہوں، پہرے بٹھارکھے ہوں اور ایک ایک چیز اس کی فوجیوں کی نظروں سے گزر کر آ رہی ہو، وہاں پندرہ مہینے اور بارہ دن جنگ جاری رہے اور زمین کا ایک ایک چپہ چھان مارا ہو، شمالی غزہ سے لے کر خان یونس اور رفح تک ایک ایک شہر کو کھنڈر بنا دیا ہو، جہاں پر شبہ ہوا، اس جگہ کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی۔ انسانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹا گیا، لیکن پھر بھی مزاحمت ختم نہ ہوسکی، سلام ان مائوں کو جنہوں نے ایسے جوانوں کی تربیت کی اور ایسے شیروں جیسے بیٹے جنے۔
یہ ہم نہیں کہتے یورپ اور پورے مغرب کے صحافی کہہ رہے ہیں کہ انسانی حقوق کے میدان میں بھی حماس کا پلڑا بھاری رہا۔ سیز فائر ہوتے ہی قیدیوں کا تبادلہ شروع ہوا ہے اور دنیا نے دیکھا کہ حماس نے اپنے قیدیوں کو کس خوبصورتی سے رہا کیا؟ خواتین خوشیاں مناتی جارہی ہیں، ان کے ہاتھوں میں حماس کی طرف سے دیے گئے گفٹ ہیمپرز ہیں، ان گفٹ ہیمپرز میں ان خواتین کی قید کے دوران بنائی گئی یادگاری تصویریں بھی دی گئی ہیں۔
دوسری طرف قابض و جارح اسرائیل کی جیلوں اور عقوبت خانوں سے فلسطینی بھی رہا کیے گئے ہیں، ان کا حال بھی دنیا کے سامنے ہے، ان کی مشکیں کسی ہوئی ہیں، ان کے جسم کپڑوں سے عاری ہیں اور گھٹیا دشمن کے گھٹیاپن کی عکاسی کرتی یہ رہائی کی تقریب منعقد ہو رہی ہے۔ فلسطینی قیدیوں کے ساتھ اس وحشیانہ سلوک پر نہ اقوام متحدہ کے کانوں پر جوں رینگ رہی ہے، نہ موم بتی مافیا کی گہری نیند ٹوٹ رہی ہے اور نہ ہی یورپی یونین میں انسانی حقوق کا راگ الاپنے والوں کی بے حسی ختم ہورہی ہے۔ اور تو اور ہر دوسری اسلامی پوسٹ کو دہشت گردی قرار دینے والی فیس بک انتظامیہ جاگ رہی ہے، نہ یوٹیوب اور سوشل میڈیا۔
کسی نے فیس بک پر کیا خوب لکھا کہ ایک شوہر نے اپنی بیوی سے کہا کہ جنگ ختم ہورہی ہے، ہم غزہ کے بچوں کو اپنے گھر بسائیں گے۔ اس شخص کی بیوی نے جواب دیا: نہیں! بلکہ ہم اپنے بچوں کو غزہ کے بچوں کے پاس بھیجیں گے تاکہ وہ ہمارے بچوں کی تربیت کریں۔ غزہ کے نوجوانوں نے جنگ کو ایک نیا رخ دیا ہے، تاریخ کا ایک نیا باب وا کیا ہے، بموں اور ٹینکوں کے سامنے اپنے عزم، حوصلے اور جرأت و بہادری کو لاکھڑا کیا ہے۔ کتائب القسام کی تیزی سے وائرل ہوتی ویڈیوز کو روکنے کے لیے سوشل میڈیا پر بیٹھے متعصب مالکان اور امریکی و اسرائیلی بیانیے کے چوکیدار اس فکر میں ہیں کہ ان ویڈیوز پر کوئی نئی پابندی لگا دیں۔ ایسی خبروں کو پھیلنے سے روکیں اور دنیا کو صرف وہ جھوٹ دکھائیں جو یہودی مفادات کا تحفظ کرتا ہو۔
فلسطینیوں کو بے دخل کرنے، ان کے علاقوں سے دربدر کرنے اور دوسرے ملکوں میں بسانے کے سارے منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ اس کی بجائے اسرائیلی فوجی اپنے سوشل میڈیا اکاونٹس سے فلسطینیوں پر مظالم کی ویڈیوز ڈیلیٹ کرنے میں مصروف ہیں۔ چھٹیوں میں دوسرے ملکوں کا سفر کرنے والے یہودی فوجیوں کو خطرہ ہے کہ کوئی پہچان نہ لے اور ہماری فیس بک پوسٹس ہمارے خلاف گواہ نہ بن جائیں۔
غزہ کی جنگ کے کئی پہلو ہیں، ایک طویل تاریخ، فلسطینیوں نے سامراجی طاقت سے مذاکرات کرکے دیکھے، اقوام متحدہ کی ہر شرط مان کر دیکھ لیا مگر اس کا نتیجہ کیا نکلا؟ کیمپ ڈیوڈ سے لیکر معاہدہ اوسلو تک اور یاسر عرفات کی گن چھوڑ کر شاخ زیتون اٹھانے تک کی تاریخ کھول کر دیکھیں۔ سات اکتوبر سے ایک دن پہلے پہنچ جائیے اور کھڑے ہوکر دیکھیے تو سارا عالم عرب ہی اسرائیل سے دوستی گانٹھنے میں مصروف تھا، فلسطینیوں کا کسی جگہ بھی نام تک نہیں تھا۔ اپنے مفادات کی اسیر اسلامی ریاستیں فلسطینیوں کی عسکری مدد تو کب کی چھوڑ چکیں، انہوں نے سفارتی اور اخلاقی امداد بھی بند کردی تھی۔ ایسے میں سات اکتوبر کا واقعہ پیش آیا اور بازی الٹ دی گئی۔ فلسطین اور فلسطینیوں کو بھلا کر اپنی دنیا سجانے اور بچانے والوں کے سارے منصوبے خاک ہوگئے۔ دنیا کو پتہ چل گیا کہ فلسطینی الگ وجود رکھتے ہیں، فلسطین بھی پوری طاقت کے ساتھ دھرتی پر موجود ہے اور اہل فلسطین کی مزاحمت بھی زندہ ہے، ان کے حوصلے بلند ہیں اور ان کے جوان آج بھی اپنے وطن پر جان قربان کرنے کے لیے تیار ہیں۔
بات ابھی ختم نہیں ہوئی، خطے میں طاقت کا کوئی توازن ہی نہیں۔ طاقت ور دشمن سازشیں کر رہا ہے اور مسلمانوں کے پاس ایک ہی رستہ ہے: عسکری قوت، اقتصادی طاقت۔ آج کی دنیا میں ان دو ہتھیاروں کے بغیر جینا ممکن نہیں۔
اللہ تعالیٰ نے اپنی قوت قاہرہ سے لمحوں میں مشرق وسطی کا سارا نقشہ بدل کر رکھ دیا ہے، ایک طرف شام کے انقلابی اور مزاحمت کار فتح یاب ہوئے ہیں اور دوسری طرف اب فلسطینی جاں باز اور غزہ کے شیر۔ خدا کرے عالم اسلام اور مسلمان باہم دست بہ گریباں ہونے کی بجائے خود کو مضبوط کریں اور مشترکہ دشمن کے خلاف تیاری کریں۔ اب کامیابی کا یہی راستہ ہے:
دل اگر دل ہے تو دریا سے بڑا ہوتا ہے
سر اگر سر ہے تو نیزوں سے شکایت کیسی