”ڈائری کی حفاظت کرو، ایک دن یہ ڈائری آپ کی حفاظت کرے گی۔” کسی سیانے کا یہ مقولہ رہ رہ کر یاد آتا ہے۔ میرے پاس محفوظ ڈائریوں میں حضرت استاذ صاحب دامت برکاتہم کی 15سال پرانی مجالس محفوظ ہیں، ان پندرہ سالوں میں حالات نے کتنے ہی پلٹے کھائے، سیاسی ایوانوں میں زلزلے اور طوفان بپا ہوئے، ملکی صورتحال میں کتنے ہی نشیب و فراز آئے اور نجانے کتنے ہی بھونچال ملکی استحکام کو تہ و بالا کرنے کے درپے ہوئے، لیکن ڈائریوں کو دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ یہ موضوعات آج کے لیے ہیں۔ اس وقت ملک جس خلفشار کا شکار ہے، مایوسی اور قنوطیت کا ایک مہیب طوفان ہے جو ہر چھوٹے بڑے کو بہائے لے جا رہا ہے۔ ایسے میں ضرورت ہے کہ ہم قرآن و حدیث سے اس مسئلے کا حل تلاش کریں اور جاننے کی کوشش کریں کہ ہم اپنی مجالس اور سوشل میڈیا پرجذبات کا اظہار جس انداز میں کر رہے ہیں، وہ درست ہے یا نہیں؟
ابن خلدون نے لکھا ہے: قوموں کے زوال کا وقت کس لمحے سے شروع ہوتا ہے، اس کی تعیین کوئی نہیں کر سکتا لیکن حالات و واقعات سے یہ ضرور پتہ چل جاتا ہے کہ قوم زوال کی طرف بڑھ رہی ہے یا عروج کی طرف۔ ہمارے سوشل میڈیا ٹرینڈز، نجی گفتگو اور سماجی رویے چیخ چیخ کر بتا رہے ہیں کہ حالات اچھے نہیں۔ ملک اندرونی اور بیرونی بحرانوں کا شکار ہے، ایک طرف بلوچ مزاحمت، دوسری طرف فتنہ خوارج، تیسری طرف سیاسی سرپھٹول، چوتھی طرف مذہبی ہنگامے، پانچویں طرف ناراض پڑوسی ممالک، چھٹی طرف معاشی جن بے قابو اور ساتویں طرف کرپشن اور بدعنوانی آپے سے باہر۔ ایسے میں عوام کی مایوسی ہے کہ بڑھتی ہی جا رہی ہے، ریاست کے ذمہ داران اس گھمبیرتا میں ہیں کہ تن ہمہ داغ داغ شد، پنبہ کجا کجا نہم۔آپشنز کم ہوتے چلے جارہے ہیں اور بحران بڑھتے جارہے ہیں۔ ایسے میں ریاست پاکستان تیزی سے پانچویں سقوط کی طرف بڑھ رہی ہے، سقوط بغداد، سقوط اندلس، سقوط دہلی اور سقوط خلافت عثمانیہ کے بعد خاکم بدہن سقوط پاکستان
زوال عصر ہے کوفے میں اور گداگر ہیں
کھلانہیں کوئی در باب التجا کے سوا
یہ سقوط اتنا ہمہ جہت، ہولناک، عبرت انگیز اور تباہ کن ہوگا کہ اس کی ہلاکت خیزی پوری عالم اسلام کو ہلاکر رکھ دے گی۔پھر ہمیں پتہ چلے گا کہ عالم اسلام کی سب سے بڑی دعوتی تحریک یہاں سے چل رہی تھی، دنیا میں سب سے زیادہ حفاظ یہاں تیار ہورہے تھے، دنیا میں سب سے زیادہ مذہبی آزادی اسی ملک میں تھی، دنیا میں سب سے بڑی این جی اوز یعنی دینی مدارس کا نیٹ ورک یہاں تھا، دنیا میں سب سے زیادہ خانقاہیں یہاں قائم تھیں، ہزاروں مدارس اور لاکھوں طلبہ صرف یہیں تھیں، 180ملکوں میں کروڑوں تبلیغی جماعت کے ارکان یہاں سے ہی جاتے تھے۔
حضرت استاذ صاحب نے ایک دن اپنا درد دل کچھ یوں بیان کیا: ”حالات سنگین ہوتے جا رہے ہیں، ہمارے دین اور ریاست کا وجود خطرے میں ہے۔ ایسے حالات میں ہم پر لازم ہے کہ سچ بولیں۔ کم از کم ہم جھوٹ نہ بولیں ورنہ ہم بھی فساد کا حصہ ہوں گے۔ ابن خلدون نے لکھا ہے: ‘جب ریاستیں تباہ ہوتی ہیں تو حق دب جاتا ہے اور جھوٹ غالب آ جاتا ہے۔’ ہم پر لازم ہے کہ فتنہ کی حمایت نہ کریں۔ پروپیگنڈے کا شکار نہ ہوں۔ اس وقت 50فیصد پروپیگنڈا ہے، سچ نہیں ہے۔”
ایسا بھی نہیں کہ ہم کسی آئیڈیل دور میں جی رہے ہیں، ایسا بھی نہیں کہ ہمارے ہاں سب اچھا ہو، بہت سے مسائل ہیں، بدانتظامی، بدنظمی، اخلاقی انحطاط، کرپشن و بدعنوانی سمیت بہت کچھ لیکن ہمیں اس خرابی کو کچھ یوں ٹھیک کرنا ہے کہ بیماری بڑھنے کے بجائے ختم ہو، ہمیں اپنے رویوں سے ثابت کرنا ہوگا کہ ہم ریاست کے دشمن نہیں، دوست ہیں، بدخواہ نہیں، خیر خواہ ہیں، حریف نہیں، حلیف ہیں۔ ہم اس کی اصلاح یوں ہی کریں گے جیسے اپنے گھر کی خرابی کی کرتے ہیں۔ ہمارا لب و لہجہ دشمن کا نہیں دوست کا ہوگا، حریفوں والا نہیں، حلیفوں والا ہوگا۔
سرپرست اعلیٰ جامعة الرشید حضرت مفتی عبدالرحیم صاحب دامت برکاتہم العالیہ کے اسی درد دل کو کتابی شکل دینے کی کوشش کی گئی ہے، اب یہ ناظرین ہی بتا سکیں گے کہ یہ کوشش کس قدر کامیاب رہی۔ ”ریاست، بغاوت اور شریعت” کے نام سے لکھی اس کتاب کو حاصل کرنے کے لیے مکتبہ ”الحجاز” سے اس نمبر پر رابطہ کیا جا سکتا ہے:03142139797 ۔ اس کتاب میں اس پر تفصیلی روشنی ڈالی جائے کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں ہمیں موجودہ حالات میں کیا کرنا چاہیے؟ جس رستے پر ہم اور پوری قوم چل نکلے ہیں، وہ رستہ کہاں تک لے جاتا ہے۔ ہم سے پہلے عرب بہار کے نام پر عالم عرب میں جو تباہی بربادی ہوئی، وہ ہمیں کیا سبق دیتی ہے؟ دیکھیے، پڑھیے، عبرت حاصل کیجئے، اس سے پہلے کہ مہلت ختم ہو جائے۔
اسلام زندہ باد۔ پاکستان پائندہ باد
