کامیابی کا راستہ(علامہ ابتسام الہی ظہیر)

پروفیسر ڈاکٹر حماد لکھوی پاکستان کے ایک معروف اسکالر اور ماہرِ تعلیم ہیں۔ آپ کئی برس سے پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ علوم اسلامیہ سے وابستہ ہیں اور اس شعبے میں اپنی تدریسی اور علمی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکے ہیں۔ گزشتہ کچھ برس سے آپ شعبہ علوم اسلامیہ کے ڈین کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں انجام دے رہے ہیں۔ ڈاکٹر حماد لکھوی کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے بہت سی علمی اور فکری صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ کئی برسوں سے میرا ان سے گہرا تعلق ہے۔ ہم نے اندرون وبیرونِ ملک بہت سے سفر اکٹھے کیے اور ان اسفار کے دوران مختلف امور پر باہمی تبادلہ خیال کا موقع بھی میسر آتا رہتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے ہمیشہ پیار محبت اور گرمجوشی والا رویہ اپنایا اور جب بھی ان سے ملاقات ہوئی طبیعت پر ہمیشہ خوشگوار اثرات مرتب ہوئے۔ اس وقت پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ علوم اسلامیہ سے میری ڈاکٹریٹ کی ڈگری تکمیل کے آخری مراحل میں ہے لہٰذا اپنے مقالے کے حوالے سے بھی ڈاکٹر حماد لکھوی کے ساتھ مشاورت کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور اس ضمن میںوہ ہمیشہ مفید مشوروں سے نوازتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے دوستی کے تقاضوں کو ہمیشہ بھرپور انداز سے نبھایا اور گاہے گاہے وہ مجھے مختلف تقریبات میں شرکت کی دعوت دیتے رہتے ہیں۔ ہر سال آپ کی دعوت پر میں رمضان المبارک کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں لاہور میں ریلوے روڈ پر جامع مسجد مبارک میں نمازِ تراویح کے بعد مختلف عناوین پر اپنی گزارشات سامعین کے سامنے رکھتا ہوں۔ ایسے مواقع پر ڈاکٹر صاحب ہمیشہ پروقار ضیافت کا بھی اہتمام کرتے ہیں جس میں علمی موضوعات پر تبادلہ خیال کے ساتھ ساتھ ماضی کی یادوں کو بھی اچھے انداز سے تازہ کرنے کا موقع ملتا ہے۔
چند روز قبل ڈاکٹر صاحب نے رابطہ کیا اور بتایا کہ وہ لاہور میں ایک بڑا تعلیمی و تربیتی ادارہ قائم کر رہے ہیں جس کا مقصد دینی اور دنیاوی علوم کو لوگوں تک منتقل کرنا ہوگا۔ انہوں نے اس ادارے کی تقریب میں مجھے بھی شرکت کی دعوت دی۔ جب میں تقریب میں پہنچا تو ڈاکٹر حماد لکھوی اور ڈاکٹر مطیع اللہ باجوہ استقبال کرنے کے لیے خود موجود تھے۔ بڑی گرمجوشی کے ساتھ انہوں نے استقبال کیا اور اسٹیج کی طرف رہنمائی کی۔ اس تقریب میں بہت سے اہلِ علم ودانش نے اپنے خیالات اور افکار کو لوگوں کے سامنے رکھا اور دینی اور دنیاوی علوم کی اہمیت کو بطریق احسن اجاگر کیا۔ تقریب کے شرکا کی اکثریت علمی ذوق رکھنے والے افراد پر مشتمل تھی۔ یہ لوگ نہ صرف اپنے اپنے شعبوں میں خدمتِ دین کے فریضے کو انجام دے رہے ہیں بلکہ ان میں سے بہت سے لوگ غیر معمولی انتظامی صلاحیتوں کے حامل ہیں۔ مولانا عبدالمالک مجاہد عبد الوارث گل ڈاکٹر عظیم الدین لکھوی ڈاکٹر عبدالغفور راشد اور بھائی محمد علی نے تقریب میں اپنے خیالات کا خوبصورت انداز میں اظہار کیا۔
ڈاکٹر حماد لکھوی صاحب نے بھی بہت سی مفید باتیں سامعین کے سامنے رکھیں اور اظہارِ خیال کرتے ہوئے بتلایا کہ مدارس میں علم اور تدریس کا فریضہ تو بطریق احسن انجام دیا جا رہا ہے لیکن مدارس کے فارغ التحصیل علماء و طلبہ کے معاشرے میں مفید کردار کے لیے سرکاری اور نجی سطح پر جس مضبوط حکمت عملی کی ضرورت ہے تاحال اس نظام کو وضع نہیں کیا جا سکا۔ اس وقت مختلف علوم وفنون سے وابستہ ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو دینی تعلیمات کو سمجھ کر اپنی اصلاح کریں اور معاشرے میں اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں اور اقتصادی سرگرمیوں کو جاری رکھنے کے ساتھ با عمل مسلمان کی حیثیت سے اپنی زندگی گزار سکیں۔ اس کے نتیجے میں جہاں ان کی معیشت مستحکم ہوگی وہیں ان کے لیے اخروی کامیابی کے امکانات بھی بڑھ جائیں گے۔ اس موقع پر اس تعلیمی ادار ے کے وژن کے حوالے سے ایک خوبصورت ڈاکیومنٹری بھی دکھائی گئی۔ اس تقریب میں آخری مقرر کے طور پر مجھے خطاب کی دعوت دی گئی۔ میں نے اس موقع پر جن گزارشات کو سامعین کے سامنے رکھا ان کو کچھ ترامیم اور اضافے کے ساتھ قارئین کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں:
کسی بھی سماج کی بقا اور استحکام کے لیے ہر شعبہ زندگی کے ماہرین کی ضرورت ہوتی ہے۔ معاشرے میں اچھے ڈاکٹرز اچھے انجینئرز اچھے جج اچھے فوجی اچھے سپاہی اچھے رہنما اچھے تاجر اچھے کسان اور اچھے مزدور ہونے چاہئیں۔ کوئی بھی معاشرہ ان امور کے ماہرین کے بغیر نہ تو تشکیل پا سکتا ہے اور نہ ہی ترقی کی راہوں پر گامزن ہو سکتا ہے لیکن وہ واحد علم جس کا تعلق خالق مخلوق اور زندگی کے جملہ امور کے ساتھ ہے وہ علمِ دین ہے۔ علمِ دین کے بغیر معاشرے میں ہر شخص اپنی فکر اور عقل کے مطابق اپنے امور کو انجام دیتا ہے اور کئی مرتبہ صحیح اور غلط کے درمیان امتیاز کرنے سے قاصر ہو جاتا ہے۔ اس کے مدمقابل علمِ دین کی روشنی کی وجہ سے انسان اونچ اور نیچ ہدایت اور ظلمات اندھیرے اور اجالے سیدھے اور ٹیڑھے کے مابین فرق کرنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ ایک ڈاکٹر اگر دینی فکر یا دینی بصیرت کا حامل نہ ہو تو وہ مریض کو ادویات کو دیتے وقت نشہ آور اور متبادل ادویات کے درمیان تفریق نہیں کرے گا۔ اسی طرح ایک غیر محرم کے علاج اور معالجے کے حوالے سے جو اخلاقی ذمہ داریاں اس پر دین کے حوالے سے عائد ہوتی ہیں وہ ان کا پوری طرح پاس اور لحاظ کرنے سے قاصر ہو سکتا ہے جبکہ دینی فکر اور بصیرت کا حامل ڈاکٹر مریض کی نشہ آور ادویات کی طرف رہنمائی نہیں کرے گا اور اسی طرح اس کو غیر محرم مریض کے ساتھ تعامل کے بارے میں دینی تعلیمات کا پوری طرح پاس اور لحاظ ہو گا۔ اسی طرح اگر ایک انجینئر دینی بصیرت کا حامل نہ ہو تو وہ تعمیراتی کام کرتے وقت گرد ونواح میں بسنے والے پڑوسیوں کو پہنچنے والی ذہنی اور نفسیاتی اذیت کے ادراک اور اس کے ازالے کے لیے مرتکز نہیں ہوگا جبکہ دینی رہنمائی اس کو اس بات کا پابند بنائے گی کہ وہ اپنا کام کرتے ہوئے گرد ونواح میں بسنے والے لوگوں کے آرام وسکون اور ان کی زندگیوں پر اثر انداز نہ ہو۔ اسی طرح ایک جج اگر دینی فکر سے بہرہ ور ہو تو مقدمے کا فیصلہ کرتے ہوئے عام منصف کے مقابلے میں زیادہ محتاط اور حساس ہوگا۔ اللہ کے سامنے جوابدہی کا احساس اس کو انصاف کے ساتھ فیصلہ کرنے کے لیے مزید پختگی عطا کرے گا۔ ایک کسان کاشتکاری کرتے وقت حرام اجناس کی کاشت سے تبھی مجتنب رہے گا جب اس کے پاس دین کی رہنمائی موجود ہو گی۔ ایک ٹھیکیدار اپنے معاہدے پر تبھی پورا اترے گا جب اس کے دل ودماغ میں اللہ تبارک وتعالیٰ کے سامنے جوابدہی کا احساس راسخ ہو گا۔ ایک تاجر کو پورا تولنے پورا ماپنے اور سود سے اجتناب پر اگر کوئی چیز آمادہ وتیار کر سکتی ہے تو وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی خشیت اور دین کا شعور ہے۔ غرضیکہ دین سے وابستگی کے نتیجے میں پورے کے پورے معاشرے کی سمت اور زاویہ نگاہ بدل جاتا ہے جبکہ دینی فکر اور بصیرت سے محروم لوگوں کی سوچ وفکر کا انداز یکسر جدا ہوتا ہے۔
ایسے ادارے جہاں عصری علوم حاصل کرنے والے لوگوں کو دینی شعور سے بہرور کیا جا سکے، وقت کی اہم ضرورت ہیں اور اس سلسلے میں ڈاکٹر حماد لکھوی اور ان کے قبیل کے علماء اور ماہرینِ تعلیم کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ایسے ادارے اگر حکومتی سرپرستی میں قائم نہیں بھی ہوتے تو ان کو نجی سطح پر قائم کرنے کی کوشش جاری و ساری رہنی چاہیے تاکہ مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کی رہنمائی کا فریضہ بطریق احسن انجام دیا جا سکے۔
تقریب کے بعد مہمانوں کیلئے پرتکلف ضیافت کا اہتمام تھا اور یوں یہ تقریب اپنے جلو میں بہت سی خوبصورت یادوں کو لیے اختتام پذیر ہوئی۔