اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ غزہ میں صہیونی ستم کی تاریک رات بھی ختم ہوئی اور قید کی زنجیریں بھی ٹوٹ گئیں۔ حماس اور غاصب اسرائیل کے درمیان صلاحیتوں میں بہت بڑے فرق کے باوجود مؤخر الذکر آخر کار جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے پر آمادہ ہوا۔ چالیس ہزار سے زائد شہداء کا پاک خون صہیونی ریاست اور اس کے ہتھیاروں کے خلاف غالب آیا۔ ممکن ہے یہ عسکری فتح نہ ہو لیکن معنوی اور نفسیاتی فتح ضرور ہے کیونکہ یہ فتح خون کی فتح ہے، اس نے ثابت کیا کہ حق پرست خون دیتے ہیں، شکست مگر کبھی نہیں مانتے۔ اہل غزہ کی یہ عظیم فتح شہداء کی تعداد گننے اور حقائق کو مسخ کرنے والے نہ کبھی سمجھ سکیں گے اور نہ ہی مٹا سکیں گے۔ یہ ایسی فتح ہے جو تاریخ میں ہمیشہ کے لیے محفوظ رہے گی۔
عسکری اور معنوی فتح میں فرق جاننے والے آج غزہ میں جنگ بندی کے عمل کو حدیبیہ کی صلح کی مانند دیکھ رہے ہیں اور بعید نہیں کہ ہم مستقبل میں غزہ کی فتح اور قدس کی آزادی کو فتح مکہ کی طرح دیکھیں ان شاء اللہ۔ جو لوگ یہ سوال کر رہے ہیں کہ ”اس جنگ میں50سے 60ہزار افراد شہید ہو چکے اور غزہ لاشوں کا شہر بن چکا ہے۔ ہم نے 7اکتوبر 2023سے لے کر آج تک موت، زخمیوں، مکانات کی تباہی اور بھوک کو دیکھا۔ بچوں، خواتین، بزرگوں، صحافیوں، ڈاکٹروں، ایمبولینس کارکنوں، طلبائ، اساتذہ، رضاکاروں اور مذہبی رہنماؤں کے خلاف وحشیانہ قتل عام کو دیکھا ہے۔ سو ہمیں بتایا جائے ان ان قربانیوں کا کیا فائدہ ہوا؟”
ایسے حضرات کی کی خدمت میں گزارش ہے کہ اس پورے منظر کو غزہ کے عوام کی نظر سے دیکھیں جنہوں نے جنگ کے تمام پہلوؤں کو ذہنی، فوجی اور اقتصادی طور پر جھیلا۔ غزہ کے عوام نے اس جنگ کو ایک دینی نظریہ اور قومی حمیت کے طور پر لڑا ہے۔ انہوں اپنے دین اور وطن کا دفاع کرتے ہوئے اللہ کے لیے جہاد کیا ہے اور ظاہر ہے وطن کے دفاع اور جہاد میں شہادت ایک ناگزیر حقیقت ہے۔ اس لیے کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ غزہ کے عوام کی ادا کی گئی بھاری قیمت کی بنیاد پر نفع یا نقصان کا حساب لگائے۔ انہوں نے اپنے معمولی ہتھیاروں سے مسلح ہو کر اس غیر متوازن جنگ میں حصہ لیا اور اللہ کے وعدے پر بھروسہ رکھتے ہوئے اپنے مقصد کو حاصل کیا۔ کیا یہ کم ہے کہ انہوں نے اسرائیل کی وحشیانہ حقیقت کو دنیا کے سامنے بے نقاب کرتے ہوئے اس کے اس جھوٹے دعوے کو بے نقاب کیا کہ وہ علاقے کی واحد جمہوریت ہے جو مشرق وسطیٰ میں سب سے بڑھ کر انسانی حقوق کی علمبردار ہے؟ اور یہ کہ وہ خطے کی سب سے برتر طاقت ہے اور اس کی جاسوسی ایجنسی سب پر فائق ہے۔ اب یہ سب ہوا ہوچکا۔
کیا اسرائیل غزہ یا مغربی کنارے میں جنگ کے آخری دن تک مزاحمت کو روک سکا؟ کیا فلسطینی دوبارہ اپنی سرزمین سے بے گھر ہوئے؟ کیا انہوں نے ہتھیار ڈالنے کا پرچم بلند کیا؟ نہیں ایسا کچھ بھی نہیں ہوا بلکہ آخری دن تک بمباری سے تباہ ہونے والے گھروں کے ملبے سے مزاحمت ابھرتی رہی، آخری دن تک جانثار فلسطینی جوان، بچے، عورتیں اور بوڑھے اپنے معاملات کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کرتے ہوئے دشمن کی بربریت، نسل کشی اور تباہی کے خلاف ثابت قدم رہے۔ پانی، خوراک اور دوائی کی عدم دستیابی کے باوجود وہ اپنی سرزمین دشمنوں کے حوالے کرنے سے انکاری رہے اور اپنے ہی گھروں کے ملبے کے درمیان آزاد اور باوقار رہنے کے لیے ڈٹے رہے۔ سچ تو یہ ہے کہ فلسطینیوں نے آخری دن تک کم سے کم وسائل کے ساتھ اسرائیلی قبضے، ٹینکوں اور طیاروں کا جس بہادرانہ انداز سے مقابلہ کیا اس کی مثال تاریخ میں شاید کم ہی ملتی ہو۔ جنگ کے آخری دن تک دشمن کے اسلحہ اور وسائل میں مسلسل اضافہ بھی ان کے حوصلے پست نہیں کر سکا، جبکہ اس کے برعکس اسرائیل امریکی فضائیہ کی حمایت کے باوجود اپنے جنگی مقاصد میں سے کوئی بھی حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ اسے جس قدر بھی کوئی کامیابی ملی، وہ اس کے اپنے زور بازو کی کمائی ہرگز نہیں، بلکہ وہ اپنے سرپرست امریکا اور دیگر عالمی طاقتو کی لمحہ لمحہ اور قدم قدم پر ہر نوع کی مدد و اعانت کے بل پر ہی کچھ حاصل کر پایا ہے، اگر واقعی اسرائیل نے اس جنگ میں کچھ کمایا بھی ہے تو۔
اسرائیل تو یہ سمجھ رہا تھا کہ وہ حماس کے رہنماؤں کو قتل کرکے اس کی مزاحمت کو کمزور کردے گا اور حماس ہی نہیں فلسطینیوں کے دل و دماغ سے مزاحمت کی سوچ تک کو کھرچ پر فنا کر دے گا، مگر یہ محض اس کی خام خیالی ثابت ہوئی اور آخرکار اسرائیلی ریاست کو یہ قبول کرنا پڑا کہ حماس کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط کیے بغیر کوئی چارہ نہیں، چنانچہ صہیونی ریاست کے سرپرست اعلیٰ امریکا کے سابق وزیر خارجہ انتھونی بلنکن نے بھی یہ اعتراف کیا تھا کہ اسرائیل 466دنوں تک مسلسل بمباری کے باوجود حماس کے خلاف فیصلہ کن ضرب لگانے میں ناکام رہا اور وہ اب بھی کسی قسم کی جارحیت کا جواب دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔
آنکھیں کھلی رکھنے اور معاملات کو انصاف یا کم از کم غیر جانبداری سے دیکھنے والوں کے لئے ایک کھلی حقیقت تو بھی یہ ہے کہ اہل فلسطین کی بے مثال مزاحمت نے پچھلے پندرہ مہینوں کے دوران اسرائیل کو جس طرح ذلیل کرکے رکھا اس کی داد دشمن کو بھی دینا پڑی۔ کمزور، لاچار اور نہتے فلسطین مزاحمت کاروں نے ہر لمحے، ہر جارحیت کا ہر جگہ اس طرح جواب دیا کہ اسرائیل سے ملنے والے جدید اسلحے کے ملبے سے خود اپنے لیے دفاعی ہتھیار تیار کر کے اپنے وطن اور قوم کی حفاظت کی۔ یہ تدبیر اسرائیل اور اس کے حامیوں کو پاگل کر دینے کے لئے کافی تھی جس سے ان کی شیطانی سازشیں ان کے اپنے ہی خلاف تباہی اور شکست میں بدل گئیں۔
کوئی مانے یا نہ مانے ہم مگر گواہی دیتے ہیں کہ اہل فلسطین نے آخری لمحے تک ثابت قدمی دکھائی، ان کے قدم نہیں ڈگمگائے، ان میں پھوٹ نہیں پڑی، وہ بد دل نہیں ہوئے اور پوری ایمانی طاقت کے ساتھ جنگ کے اختتام تک مصروف جہاد و مزاحمت رہے اور ثابت کیا کہ مزاحمت میں ہی زندگی ہے۔ ان میں سے فوجی، سویلین، جوان، بوڑھے، مرد، عورت اور بچہ تک نے بڑی بہادری سے جنگ لڑی اور ثابت قدمی، خلوص، اتفاق اور کمٹمنٹ کی تاریخ رقم کی۔ اس پر وہاں کے درخت، پتھر، دروازے، کھڑکیاں، سڑکیں، آبادیاں اور ریت کا ہر ہر ذرہ گواہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دشمن نے ہار مانتے ہوئے آپ کی شرائط تسلیم کر لیں اور آپ کی ناموس اور عزت کے سامنے گھٹنے ٹیک کر بیٹھنے پر مجبور ہوا۔ بخدا یہ فتح ہی ہے۔ جی ہاں! شہدا کے پاک لہو کی فتح، استقامت اور شجاعت کی فتح!
