ایک بات ذہن نشین کرنے کی ہے کہ ڈیجیٹل فراڈ زیادہ تر ایسے افراد کے ساتھ ہوتا ہے جو لالچ میں آ جاتے ہیں۔ کبھی یہ لالچ کسی انعامی اسکیم کے نام پر دیا جاتا ہے۔ کبھی آن لائن کام کرنے کے نام پر اور کبھی سستی اشیاء کے نام پر۔ اس سلسلے میں سوشل میڈیا کا آزادانہ استعمال کیا جاتا ہے۔ فیس بک پر فراڈیوں نے باقاعدہ پیجز اور گروپس بنا رکھے ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے یہ سب کچھ دیکھ کر بھی خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ یہ فراڈیئے لوگوں کو پندرہ ہزار کی نئی الیکٹرک بائیک اور پچیس ہزار کا الیکٹرک رکشہ یا پچاس ہزار کی الیکٹرک کار آفر کر رہے ہوتے ہیں۔ لوگ بغیر سوچے سمجھے ان کے جال میں پھنستے چلے جاتے ہیں۔
آج کل پاکستان کے زیادہ تر شہریوں کے موبائل فون میں ”نان کسٹم موبائل فون واٹس ایپ گروپ” چل رہے ہیں جو غریب بچے بچیوں اور بیروزگار مزدور حضرات کو اپنے جال میں پھانسنے کے لیے بنائے گئے ہیں۔ ان گروپس میں ایڈمن سستے موبائل فونز، لیپ ٹاپ، LEDاور دستی گھڑیوں کی فوٹوز سینڈ کرتا ہے اور موبائل فون کی قیمت 10ہزار، لیپ ٹاپ کی 15ہزار، LEDکی 20ہزار اور گھڑی کی قیمت 5ہزار بتاتا ہے۔ اس طرح یہ فراڈیئے غریب لوگوں کو سستی اشیاء کے لالچ میں لاکر اپنے جال میں پھنسا لیتے ہیں۔ غریب لوگ لالچ میں آ کر ان فراڈیوں کو پرسنل میں Smsکرتے ہیں کہ سر مجھے یہ موبائل چاہیے۔ ایڈمن کی طرف سے جواب ملتا ہے کہ آپ اس جاز کیش یا ایزی پیسہ نمبر پر آدھی قیمت ادا کر دیں۔ باقی قیمت پارسل ملنے کے بعد ادا کر دیجیے گا۔ غریب آدمی سستی چیز ملنے کی خوشی میں مطلوبہ چیز کی ہاف قیمت ایڈمن کو سینڈ کر دیتا ہے۔ پھر ایڈمن اس کو چند منٹ انتظار کرنے کا کہتا ہے کہ میں آپ کا پارسل پیک کرواتا ہوں اور آپ کو TCSکی سلپ اور پارسل کی ویڈیو سینڈ کرتا ہوں۔ کچھ دیر بعد وہ آرڈر کرنے والے کو TCSکی جعلی سلپ بنا کر اور پارسل کی پہلے سے تیار شدہ ویڈیو سینڈ کر کے کہتا ہے کہ آپ کو 24گھنٹے میں پارسل مل جائے گا۔ وہ اس بات کی تاکید کرتا ہے کہ آپ نے TCSدفتر نہیں جانا کیونکہ ہمارا مال نان کسٹم ہوتا ہے، اس لیے ہم قانونی طور پر نہیں بلکہ TCSکے مخصوص کارندوں کے ذریعے پرائیویٹ طور پر لین دین کر کے پارسل آپ تک پہنچاتے ہیں، اگر پارسل باقاعدہ TCSکروائیں تو وہ پھر ہمارا پارسل نان کسٹم ہونے کی وجہ سے آگے نہیں بھیجتے۔ اس لیے ہمارا مخصوص TCSوالا بندہ خود آپ سے رابطہ کرے گا۔
24 گھنٹے گزرنے کے بعد آپ کو ان فراڈیوں کا TCSوالا جعلی نمائندہ ایک Sms کرتا ہے اور بولتا ہے کہ سر آپ کا پارسل میں لے کر آ رہا ہوں آپ مجھے TCSکی سلپ اور پارسل کی ویڈیو سینڈ کریں۔ کسٹمر اس کو دونوں چیزیں سینڈ کرتا ہے لیکن TCSوالا دوبارہ Sms کرتا ہے کہ سلپ میں CNنمبر کراس ہے۔ آپ مجھے CNنمبر سینڈ کریں گے تو تب ہی میں آپ کا پارسل آپ کے ایڈریس پر لے کر آؤں گا۔ اب کسٹمر اس ایڈمن کو SMSکرتا ہے کہ سر مجھے CNنمبر سینڈ کریں تو ایڈمن جواب دیتا ہے 2منٹ انتظار کرو میں اونر سے لے کر CNآپ کو سینڈ کرتا ہوں۔ 2منٹ بعد ایڈمن کسٹمر کو میسج کرتا ہے کہ اونر کی باقی والی ہاف قیمت ادا کرنے والی رہتی ہے۔ اونر کہتا ہے کہ میری بقایا آدھی قیمت ادا کریں گے تو تب ہی CNنمبر ملے گا۔
غریب کسٹمر پھر لالچ میں آکر بقایا والی آدھی قیمت بھی ان فراڈیوں کو جاز کیش یا ایزی پیسہ کروا دیتا ہے۔ تب ایڈمن CNنمبر سینڈ کرتا ہے جسے کسٹمر آگے TCSوالے کو وہ CNنمبر سینڈ کر دیتا ہے۔ تب وہ بندہ بتاتا ہے کہ ادھر ابھی ہماری نان کسٹم والی گاڑی پر چھاپہ پڑ گیا ہے اور کسٹم سکواڈ والے گاڑی چیک کر رہے ہیں ادھر آدھا گھنٹہ لگ جائے گا۔
پھر آدھے گھنٹے بعد وہ TCSوالا میسج کرتا ہے کہ کسٹم والوں نے ہمارا سارا مال پکڑ لیا ہے اور کسٹم والے ایک پارسل چھوڑنے کا 9ہزار رشوت مانگ رہے ہیں۔ میں آپ کو جاز کیش یا ایزی پیسہ نمبر سینڈ کر رہا ہوں اپ فوراً اس پر 9ہزار سینڈ کر دیں۔ پارسل والے دوسرے لوگ بھی قیمت ادا کر رہے ہیں۔ وہ آپ کو وائس میسج کرتا ہے کہ آپ سوچیں اگر آپ کسٹم ادا کر دو گے تو آپ کو دس بیس ہزار میں ملنے والا موبائل فون مارکیٹ میں ساٹھ ستر ہزار میں فروخت ہو جائے گا۔ آپ کو 40پینتالیس ہزار پھر بھی بچ جائیں گے۔
اس طرح یہ فراڈیئے چکنی چپڑی باتیں کر کے کسٹمر سے پندرہ بیس ہزار روپے ٹھگ کر رفو چکر ہو جاتے ہیں پھر ان کے فون بند اور آپ سے تمام رابطے ختم ہو جاتے ہیں۔ اس طرح غریب آدمی ہاتھ ملتا رہ جاتا ہے۔
پاکستان کے تقریباً ہر شہر میں ایسے گروپ چل رہے ہیں اور یہ لوگ نہ جانے کہاں سے ہیں۔ اگر آپ ان سے ان کی شاپ یا گودام کا ایڈریس پوچھیں گے تو یہ لوگ ہر شخص کو علیحدہ علیحدہ ایڈریس بتائیں گے۔ زیادہ تر بلوچستان کا ایڈریس ہوگا۔ کسی کو چمن بارڈر، کسی کو کوئٹہ، کسی کو گوادر، کسی کو قلعہ سیف اللہ اور کسی کو ایران بارڈر کا ایڈریس بتائیں گے۔ یہ لوگ آپ سے بہت پیارے اور میٹھے انداز میں بات کریں گے قرآنی آیتیں سنائیں گے۔ Dp پر باریش عمامہ اور پگڑی پہنے تصاویر لگی ہوتی ہیں۔ ان سے متاثر ہو کر کئی لوگ ان کے چکر میں پھنس جاتے ہیں۔ حکومتی ادارے ان فراڈیوں کے خلاف موثر کارروائیوں کے ذریعے ان کا قلع قمع کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں۔ لوگوں کو خود ہی ایسے نوسربازوں سے بچنا ہوگا۔
